تعلیم اور عہد حاضر کے مسائل

والدین پریشان ہیں، کراچی میں گیارہویں جماعت کے سرکاری کالجوں میں داخلے کے مراحل مکمل نہیں ہوئے


Dr Tauseef Ahmed Khan September 19, 2015
[email protected]

والدین پریشان ہیں، کراچی میں گیارہویں جماعت کے سرکاری کالجوں میں داخلے کے مراحل مکمل نہیں ہوئے، اب صرف سرکاری کالجوں میں 6 مہینے تدریس ہو گی۔ دوسری طرف نجی تعلیمی اداروں نے اچانک اپنی فیسوں میں کئی گنا اضافہ کر دیا ہے۔ مسابقتی کمیشن خاموش ہے اور اسلام آباد میں والدین کو بینر اٹھا کر حکام کی توجہ مبذول کرانی پڑی۔ وفاقی وزیر تعلیم تو والدین کے اس احتجاج کی طرف متوجہ ہوئے مگر کراچی میں سندھ سیکریٹریٹ کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگی۔

جدید تعلیمی نظام میں میٹرک کے امتحانات کی بڑی اہمیت ہوتی ہے۔ ایک زمانے میں ملک کے مختلف بورڈ الگ الگ مہینوں میں امتحانات منعقد کرتے تھے اور نتائج بھی مختلف مہینوں میں آتے جس کی وجہ یہ تھی کہ یونیورسٹیوں اور پروفیشنل کالجوں میں داخلوں کا شیڈول مختلف ہوتا تھا جب کہ طالب علموں کو میٹرک اور انٹر کے امتحانات کے بعد مختلف تعلیمی اداروں میں داخلوں میں مشکل پیش آتی تھی۔ طالب علم چھ چھ ماہ تک داخلوں کا انتظار کرتے ہیں۔

اس صورتحال کے تدارک کے لیے وفاق کی سطح پر میٹرک اور انٹر کے امتحانات، ان کے نتائج اور یونیورسٹیوں اور پروفیشنل کالجوں میں داخلوں کا شیڈول تیار ہوا۔ اب پورے ملک میں طے شدہ شیڈول کے تحت ان جماعتوں کے امتحانات اور مقررہ تاریخوں تک اور نتائج واضح ہوتے ہیں۔

اس طرح یونیورسٹیوں اور پروفیشنل کالجوں سے داخلوں میں دیر نہیں ہوتی ہے مگر کراچی کی مخصوص صورتحال میں کسی کام کا شیڈول کے مطابق ہونا ایک ناممکن ٹاسک ہوتا ہے، کراچی میں میٹرک کے امتحانات کے نتائج اپریل میں ہوئے اور 30 اگست کو نتائج آئے، انٹرمیڈیٹ کے داخلوں کا شیڈول ستمبر میں مکمل ہونا تھا مگر حکومت سندھ کی نااہلی کی بناء پر یہ معاملات ہنوز التواء کا شکار ہیں۔

سندھ کے محکمہ تعلیم میں فیصلہ سازی پر قادر بیوروکریٹس نے گزشتہ سال داخلوں کا مکمل طریقہ کار online کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ اس فیصلے سے غریب علاقوں میں رہنے والے والدین اور بچوں میں مشکلات بڑھ گئی تھیں۔ غریب گھرانوں میں کمپیوٹر نہ ہونے سے ان بچوں کے تعلیم سے محروم رہنے کے خدشات ابھرنے لگے۔ ذرایع ابلاغ پر بحث و مباحثے کے بعد اس فیصلے میں ترمیم کی گئی تھی اس طرح داخلوں کا پورا عمل متاثر ہوا تھا۔ اس دفعہ مرکزی داخلہ پالیسی برقرار رہی مگر داخلہ فارم کے اجراء اور فہرستوں کی اشاعت میں بہت دیر ہو گئی۔ جو والدین اپنے بچوں کو پروفیشنل کالجوں میں داخلہ دلانا چاہتے ہیں اور وہ صاحب حیثیت ہیں انہو ں نے میٹرک کے امتحانات کے خاتمے کے بعد طلبا کوچنگ سینٹر میں داخلہ دلوا دیا ہے۔

جو طلبہ دو مہینے سے ان سینٹرز میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں انھیں کالجوں میں داخلوں پر التواء سے کوئی بڑا فرق نہیں پڑتا۔ کوچنگ سینٹروں کی ماہانہ فیس 500 روپے سے 5 ہزار روپے تک ہے۔ ادھر وزارت دفاع کے کالجوں اور نجی کالجوں میں داخلہ کا عمل مکمل ہو چکا ہے۔ ان کالجوں میں تدریس باقاعدگی سے ہو رہی ہے، یوں سرکاری کالجوں میں داخلہ لینے والے اس مشکل کو برداشت کر رہے ہیں۔

سندھ حکومت کی کارکردگی پر نظر رکھنے والے مبصرین کا کہنا ہے کہ سندھ کا محکمہ تعلیم رشوت اور سفارش کی آماجگاہ ہے۔ داخلوں کی فہرستوں میں التواء کی وجوہات میں بااثر افراد کے دباؤ اور رشوت لے کر داخلوں کی رکاوٹیں شامل ہیں۔

محکمہ تعلیم بیوروکریٹس کے دباؤ پر میرٹ کو نظر انداز کر کے کم نمبر والے طلبہ کے داخلوں کو فہرستوں میں سمونے کے لیے مخصوص حکمت عملی پر عمل کر رہا ہے مگر فوری طور پر فہرستوں میں میرٹ کی پامالی سے اعلیٰ عدالتوں کی مداخلت کا جواز پیدا ہو جاتا ہے۔ اس بناء پر دیر سے فہرستوں کے اجراء کی حکمت عملی اختیار کی گئی ہے۔ ادھر کراچی اور اسلام آباد میں قائم نجی تعلیمی اداروں کی فیسوں میں کئی گنا اضافہ کرنے والوں میں تعلیمی اداروں کی وہ چین chain بھی شامل ہے جن کو عالمی بینک سے امداد بھی ملتی ہے۔

پاکستان میں نجی تعلیمی اداروں کی نگرانی کرنے والی کوئی اتھارٹی موجود نہیں ہے۔ ان تعلیمی اداروں میں اساتذہ کی تنخواہوں اور مراعات کے قوانین موجود نہیں ہیں اور نہ ہی فیسوں میں اضافے کا کوئی طریقہ کار ہے۔

ہر سال کروڑوں روپے کمانے میں مگن ان تعلیمی اداروں میں سے بیشتر ملک میں کام کرنے والے تعلیمی بورڈ اور یونیورسٹیوں سے منسلک ہیں۔ یہ ادارے یورپ اور امریکا کی یونیورسٹیوں کے سرٹیفکیٹ اور ڈگریاں دیتے ہیں، ان اداروں کو چلانے والوں کا تعلق طبقہ امراء سے ہے اور ان اداروں میں متوسط طبقے کے بچے تعلیم حاصل کرتے ہیں، جس کی وجہ سے ان کی نگرانی کا تصور واضح نہیں ہے۔

چند سال قبل ایک نجی اسکول کے بارے میں محکمہ تعلیم کے کراچی ڈائریکٹر یٹ کو شکایت کی گئی تو متعلقہ افسر نے اپنی بے چارگی کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ اس اسکول کی انتظامیہ نے ایک شکایت کی تحقیقات کرنے والے اہلکاروں کو اسکول میں داخل نہیں ہونے دیا۔ جب متعلقہ حکام سے شکایت کی گئی تو خاموشی کی ہدایت کی گئی۔

تعلیمی ماہرین کہتے ہیں کہ نجی تعلیمی اداروں کے اساتذہ دباؤ کا شکار رہے ہیں۔ ان سے صبح 7 بجے سے شام 6 بجے تک تک تدریس اور دیگر نوعیت کے کام لیے جاتے ہیں اور گھروں پر ہوم ورک دیا جاتا ہے، پھر تعطیلات والے دنوں میں بھی بلا لیا جاتا ہے مگر تنخواہیں اور مراعات کم ہوتی ہیں۔ ان اساتذہ کو بغیر کسی نوٹس ملازمتوں سے برطرفی ایک تلوار کی طرح کھڑی ہوتی ہے۔

گریجویٹی، میڈیکل کا کوئی تصور نہیں ہوتا۔ ظلم کی بات ہے کہ ان اساتذہ اور عملے کی شنوائی کا کوئی فورم نہیں ہے۔ پیپلز پارٹی کی حکومت نے فیصلہ کیا تھا کہ بھارت کی طرح نجی تعلیمی اداروں میں غریبوں کے لیے 20 فیصد نشستیں میرٹ کی بنیاد پر مختص کی جائیں مگر اس فیصلے پر عملدرآمد نہیں ہوا۔

تعلیم ترقی کے لیے لازمی ہے۔ پاکستان کے آئین کے آرٹیکل 25-A کے تحت ریاست ہر شہری کو میٹرک تک تعلیم دینے کی پابند ہے، تعلیم کا شعبہ مجموعی طور پر زبوں حالی کا شکار ہے۔ وزیر اعلیٰ قائم علی شاہ نے اگست کے مہینے میں 11 دن تک تعطیلات بڑھا کر اپنی رٹ قائم کر دی مگر تعلیم کو سستا اور سب کے لیے معیاری تعلیم فراہم کرنے کی ریاست کی ذمے داری پوری نہیں کی۔ سندھ اور قومی اسمبلی میں اس مسئلے کو اٹھایا جانا چاہیے۔

مقبول خبریں