امت مسلمہ کی بے حسی کا شکار ننھا ایلان

نسیم انجم  اتوار 4 اکتوبر 2015
nasim.anjum27@gmail.com

[email protected]

آہ! ننھا ایلان! جسے ظالموں نے اپنے خاندان کے ساتھ پناہ کی تلاش میں در بدر کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور کیا، کچھ دن پہلے جو اپنے والد کی انگلی تھامے ہر فکر سے آزاد ہوکر بہتر دنیا کی تلاش میں سرگرداں رہا۔ لیکن کوئی جائے پناہ میسر نہ آئی ابھی سفر میں ہی تھا، گم گشتہ منزل کا اتہ پتہ نہ تھا تو ایسے میں سمندر کی لہروں نے اسے اپنی آغوش میں لے لیا اور تھپک تھپک کر ہمیشہ کے لیے سلا دیا۔ پیارا اور پھول جیسا ایلان! تُو بے خطا و بے قصور تھا دنیا کے مکر و فریب سے بے گانہ دشمن کی چالبازیوں سے بے خبر، امت مسلمہ کی نااتفاقی کا شکار، تجھے ہی بننا تھا، بے شمار و بے خطا بھولے بھالے بچوں کی طرح تجھے بھی ظلم سہنا اور اپنی جان کو قربان کرنا تھا کہ زندگی کے سفر نے آگے بڑھنے کی اجازت نہیں دی۔

گزرے ہوئے ماہ و سال میں شام میں مقیم ایلان کا خاندان اپنے آبائی علاقے کو چھوڑ کر پناہ کی تلاش میں نکلا، اس کی وجہ داعش کی بربریت بڑھتی ہی جا رہی تھی، لوگوں کے سروں کو قلم کیا جا رہا تھا، انسان زندہ جل رہے تھے اور خون کے چھینٹے در و دیوار پر ایسے نقش و نگار بنا رہے تھے جسے دیکھ کر انسانیت کانپ جائے۔ بے شک انسانیت نہ کہ کانپ رہی تھی بلکہ اس کا تو گلا گھونٹ دیا گیا تھا۔ اس کی لاش پر چڑھ کر وحشی رقص کر رہے تھے اور منگولوں کے دور کی یاد دلا رہے تھے۔ لہٰذا ان حالات میں کوئی بھی ہو، وہ اپنی اور اپنے خاندان کی جانیں بچانے کے لیے ہجرت ضرور کرے گا۔ ایلان کے خاندان کی طرح لاکھوں شامی اپنی زندگیاں بچانے کی کوشش میں مصروف ہیں۔ پانچ سال سے شام جنگ کی آگ میں جھلس رہا ہے۔

اسلامی ممالک کو تباہ و برباد کرنے میں امریکا اور اس کے اتحادیوں کا ہاتھ رہا ہے، عراق پر ہتھیاروں کا الزام لگا کر پہلے جنگ مسلط کی اور پھر پورے عراق کو روند ڈالا۔ آج بھی وہاں کے مکین نہ کہ سکون و عافیت کے لیے ترس رہے ہیں بلکہ جانوں کے لالے پڑگئے ہیں۔ مغرب کا ہمیشہ سے دہرا معیار رہا ہے ایک طرف ظلم و ستم کرتا ہے تو دوسری طرف ہمدردی جتاتا ہے۔ شام میں بھی ایسی ہی چالیں چلی جا رہی ہیں۔

شام میں اس بات کا بھی پروپیگنڈہ کیا گیا کہ نیٹو داعش پر بمباری کر رہا ہے جب کہ  حقیقت اس کے برعکس ہے، یہ حملے داعش سے لڑنے والوں پر کیے جا رہے ہیں جوکہ مجاہدین ہیں۔ ایسی ہی صورت حال پوری دنیا میں مسلمانوں کے حوالے سے نظر آتی ہے۔ کبھی جو قوم ’’امن‘‘ کی پہچان سمجھی جاتی تھی اسی قوم نے برمیوں کو تختہ مشق بنادیا، ان کے گھر برباد ہوگئے، ان کی جان و مال اور عزت کو تار تار کیا گیا، ان پر تشدد کی انتہا کردی۔ مجال ہے کسی نے بدھ مت کے ماننے والوں پر آواز اٹھائی ہو۔ اقوام عالم تماشائی بنے رہے۔ دشمن تو یہی چاہتا تھا لیکن مسلمانوں کی بے حسی بھی قابل دید ہے۔ مسلم امہ کا اتحاد پارہ پارہ ہوچکا ہے، ہر مسلم ملک اپنے مفاد اور اپنے ملک کے تحفظ کی بات کرتا ہے۔ آج پوری دنیا میں بے شمار مظلوم مسلمان ظلم کی چکی میں پس رہے ہیں کوئی ان کا مددگار نہیں، آنسو پونچھنے والا نہیں۔

برما کے مسلمان بھی پناہ کی تلاش میں سرگرداں ہیں، ناکردہ گناہوں کی سزا سے بچنا چاہتے ہیں، لیکن کوئی محافظ نہیں، کوئی ظالموں کے ہاتھ پکڑنے والا نہیں۔ نہ ہی کوئی منصف ہے جو انصاف کے تقاضوں کو پورا کرے۔ صہیونی و نصرانی پاکستان کی بقا کے دشمن ہیں، مسلمانوں کو ترقی کرتا نہیں دیکھ سکتے۔ ہمارا پڑوسی بھارت بھی پاکستان کو کمزور کرنے کے لیے نئے نئے حربے آزماتا ہے، یہ جانتے ہوئے بھی کہ اس نے کئی محاذوں پر پاکستان سے شکست کھائی ہے۔ بھارت اور اس کی فوج داغدار ماضی کو بھول جاتی ہے کہ اس کے ساتھ پاکستانی فوجوں نے کیا کیا تھا؟ کس طرح کارگل کی جنگ میں دشمن کے چھکے چھڑا دیے تھے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق چار ہزار بھارتی فوجی مار دیے گئے تھے۔

جن میں سے تین چار سو فوجیوں کی لاشیں بھارت اپنے ساتھ لے جاسکا تھا اور بقیہ مردہ فوجی جنگلی جانوروں کی خوراک بن گئے تھے ابھی تک جن بھارتی فوجیوں کو کارگل کے محاذ پر بھیجا گیا ان میں سے بہت کم فوجیوں کو گھر لوٹنا نصیب ہوا۔ 6 مئی 1999 میں کارگل کا واقعہ پیش آیا۔ پاکستان کی تاریخ ہمیشہ خصوصی اہمیت کی حامل رہے گی۔ اس وقت کے وزیر اعظم جناب نواز شریف تھے۔ کارگل 1971 میں نئی سرحد بندی کے وقت بھارت کا حصہ بنا تھا اور یہ بھارتی مقبوضہ کشمیر میں واقع ہے۔ عام طور سے ہوتا یہ ہے کہ بھارتی افواج سردیوں کے دنوں میں کارگل سے اپنے مورچے خالی کردیتے ہیں اور مئی کے مہینے میں دوبارہ لوٹ آتے ہیں۔ گویا انھیں سردی برداشت نہیں ہوتی ہے۔

6 مئی 1999 کا دن ہے، اس روز ان کے تصور میں بھی نہیں ہوگا کہ مجاہدین کو اس جگہ مورچہ بند دیکھیں گے، ان کے نزدیک ناممکنات میں سے تھا کہ مجاہدین اس خاص جگہ پر پہنچ جائیں اور انھیں خبر بھی نہ ہو، لیکن انھیں خبر ہوئی تو اس وقت ہوئی جب بہت دیر ہوچکی تھی۔

9اور 12 مئی کے دوران بھارتی گشتی پارٹیوں نے بٹالک اور کارگل سیکٹر میں مجاہدین کی موجودگی کی ہوش ربا خبر سنائی تو بھارتی افواج سکتے میں آگئی۔

پاکستانی افواج اللہ کے حکم سے کمال در کمال کے جوہر دکھا رہی تھی، کامیابی اس کے قدم چوم رہی تھی حب الوطنی جانوں کو قربان کرنے اور ملکی دفاع کی ترغیب دے رہی تھی اور شہادت کا جھلملاتا تاج ان کے سروں کو چھو رہا تھا۔ وہ اس عظیم مرتبے پر پہنچنے کے لیے بے قرار تھے لیکن ان کی فتح و نصرت میدان جنگ سے کامیاب لوٹنے اور غازی بننے کی نوید سنا رہی تھی، 15 مئی کا ایسا ہی ایک دن تھا جب مجاہدین نے ’’مشق کوہ‘‘ میں ایسا کارنامہ انجام دیا کہ شکست خوردہ بھارتی بوکھلاہٹ کا شکار ہوگئے اور پوری دنیا حیرت زدہ تھی کہ پاکستانی کی عظیم ترین اور جذبہ شہادت سے مغلوب افواج نے کارگل، دراس اور بٹالک کے محاذوں اور ان کی چوٹیوں پر قبضہ کرکے اس بات کو ثابت کردیا کہ یہ فوج دشمن کے سامنے سیسہ پلائی دیوار سے کم نہیں، اس کے آہنی منصوبے دشمن کی بزدلانہ کاوشوں کو بار بار شکست دے سکتے ہیں کہ یہ کردار کے غازی ہیں۔

ان ہی مواقعوں پر دوست دشمن کی پہچان بہتر طریقے سے ہوتی ہے، امریکا نے حسب معمول پینترا بدلا اور وہ مسلم افواج کی کامیابی کو دیکھ کر بے حد پریشان ہوگیا۔ ہر بار ایسا ہی ہوتا ہے کہ دہری چال چلنے والے پاکستان کی فتح اور افواج پاکستان کی شجاعت و دلیری، عزم راسخ کو دیکھ کر ذہنی اذیت کا شکار ہوجاتے ہیں۔ اور نہ جانے کیوں انھیں اپنا مضبوط قلعہ ڈولتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ اگر مسلمانوں میں یکجہتی ہو تو کوئی قوم مسلم امہ سے ٹکرانے کی تو کجا میلی نگاہ ڈالنے کی ہمت نہیں کرسکتی ہے جب کہ  امریکا یہ دعویٰ بھی ببانگ دہل کرتا ہے کہ وہ انسانی حقوق کا سب سے بڑا علم بردار ہے اور جمہوری اقدار کو فروغ دینے میں اس کا کوئی ثانی نہیں لیکن حقیقت کچھ اور ہے۔

ان حالات میں امریکا نے پاکستان کو اس بات پر مجبور کرنے کی کوشش کی کہ وہ اپنے فوجی جن میں وہ ’’در انداز‘‘ کہہ رہا تھا واپس بلا لے لیکن جب پاکستان کی طرف سے اس حقیقت کو آشکار کیا گیا کہ کارگل کی چوٹیوں پر قابض در انداز نہیں بلکہ مجاہدین ہیں جو 10 سال سے بھارت کے ظلم و ناانصافی کے خلاف لڑ رہے ہیں اور مجاہدین پر پاکستان کا براہ راست کوئی کنٹرول نہیں ہے امریکا نے یہ موقف اختیار کیا کہ اگر بھارت نے پاکستان کے خلاف جارحیت کی تو امریکا حمایت نہیں کرے گا اور پھر امریکی سینٹرل کمانڈ کے کمانڈر انچیف جنرل انتھونی زنی کے ذریعے یہ پیغام بھی پہنچوایا کہ کارگل سے نہ نکلنے کی اسے کیا قیمت ادا کرنی پڑے گی؟ لیکن اس قسم کی دھمکیوں کا پاکستان پر کوئی اثر نہیں پڑا۔

آج پوری دنیا کے مسلمان مخالف قوتوں کی بربریت سے بچنے کے لیے صحرا و دریا کا سفر کرنے پر مجبور ہوگئے ہیں، وہ فاقہ کشی کا شکار ہیں بھوکے پیاسے خاندان اپنے گھروں سے دربدر کردیے گئے ہیں کہ ان کے حق میں کوئی بولنے والا نہیں، کاش کہ ایک بار پھر انصار آگے بڑھیں اور ایلان جیسے بچوں اور ان کے خاندان کو گلے لگا لیں اور مکہ سے مدینہ کی طرف کی جانیوالی ہجرت کی یادوں اور ایثار و قربانی کو تازہ کردیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔