عمران خان کا دورہِ سندھ اور متبادل کے دعوے…
تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کی حالیہ دنوں میں سندھ یاترا ابھی تک عوام و خواص اور میڈیا پر زیر بحث ہے۔
تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کی حالیہ دنوں میں سندھ یاترا ابھی تک عوام و خواص اور میڈیا پر زیر بحث ہے۔ عمران خان کے دورہ سندھ سے پہلے پارٹی کے ارکان نے جن میں کراچی سے منتخب واحد رکن قومی اسمبلی ڈاکٹر عارف علوی، سندھ کے سابق گورنر اور وزیر اعلیٰ ممتاز علی بھٹو کے درمیان ملاقات ہوئی۔
ایسی ملاقاتوں کے پس منظر میں یہ تُک بندی کی جاتی رہی کہ پاکستان پیپلز پارٹی کی بہت ساری وکٹیں عمران کی سندھ یاترا کے باعث گر جائیں گی اور پی پی پی کے بہت سارے رہنما پاکستان تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کر لیں گے۔ اس ملاقات سے قبل اسلام آباد میں مکین کچھ سندھی دانشوروں کے ایک وفد نے عمران خان سے تفصیلی ملاقات کر کے ان کو صوبے میں اپنی سیاسی سرگرمی تیز کرنے اور وہاں اپنا قیمتی وقت دینے کی گزارش بھی کر ڈالی تھی۔
یاد رہے کہ، سندھ میں سیاسی تبدیلی اور پی پی پی کے سیاسی متبادل کے خواہش مند یہ دانشور، کالم نگار اور کچھ غیر سرکاری اداروں کے ملازمین اپنی سر توڑ کوششوں میں مصروف عمل نظر آتے ہیں۔ 2013ء کے عام انتخابات سے قبل بھی یہ دانشور اور لکھاری پیر پگاڑہ کی سربراہی میں بننے والے دس جماعتی اتحاد کے گن گاتے نظر آتے تھے۔ اس اتحاد کی مدح سرائی کچھ یوں کرتے کہ کوئی قصیدے پڑھتا دکھائی دیا تو کوئی اس اتحاد کو سندھ کے عوام کے لیے کیمیا سے کم نہ گردانتا اور پیر پگاڑا کی مسلم لیگ فنکشنل کو سندھ کے عوام کے لیے پی پی کا متبادل قرار دیتے نظر آئے۔
اب جب کہ کم و بیش ڈھائی سال کا عرصہ بیت جانے کے بعد بھی ان کو سندھ میں پی پی کا کوئی متبادل نظر نہیں آیا تو ایک بار پھر عمران خان کے پاس سندھ کی سیاست میں اپنا عملی کردار ادا کرنے درخواست لے کر گئے۔ اس کے بعد عمران خان نے ان کے مفت مشورے کے تناظر میں سندھ کا دورہ کرنے کا منصوبہ بنایا اور یہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ اس یاترا کے وقت بہت سارے سیاستدان بالخصوص پی پی کے کچھ رہنما عمران خان کی تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کر لیں گے۔
کچھ نامور کالم نگاروں نے تو یہاں تک لکھا کہ سندھ کے مشہور جاگیردار اور پاکستان پیپلز پارٹی کے کچھ رہنما تحریک انصاف میں شامل ہونے کے لیے تیار ہیں، مگر عمران خان پارٹیاں تبدیل کرنے والے ایسے رہنماؤں کو سخت ناپسند کرتے ہیں اور ایسے عناصر کو تحریک انصاف کا حصہ کبھی بھی بننے نہیں دیں گے۔
دوسری طرف عمران خان سندھ کے کچھ اضلاع کے دورے اور وہاں کیے گئے اپنے خطابات اور کچھ سابق رکن اسمبلی کے ظہرانوں میں ان کو تحریک انصاف میں شمولیت کرنے کی دعوت دیتے پائے گئے۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ عمران خان سندھ کے شمالی اضلاع شکارپور، کندھ کوٹ، گھوٹکی اور دوسری جگہوں پر بھی ایسے سیاسی مہروں کے پاس براجمان ہوئے جو کسی بھی پارٹی کے ساتھ اپنی وفاداریاں تبدیل کرنے کو کوئی عیب نہیں سمجھتے۔
ان میں سردار خالد احمد خان لونڈ سرفہرست ہیں، جس نے 2002ء کے الیکشن میں پی پی کی ٹکٹ پر ممبر اسمبلی منتخب ہونے کے بعد پرویز مشرف کی بنائی گئی حکومت کا ساتھ دیا اور وفاقی کابینہ میں مملکتی وزیر کا عہدہ حاصل کیا۔ اس کے بعد وہی صاحب 2008ء اور 2013ء کے الیکشن میں بری طرح ناکام رہے۔ ادھر اسی ضلع سے تعلق رکھنے والے ایک مشہور گدی نشین جن کی عرفیت میاں مٹھو ہے ان کو بھی اپنی پارٹی میں شامل ہونے کی دعوت دے ڈالی۔ میاں مٹھو کی سیاسی تاریخ بھی ایک پارٹی سے دوسری پارٹی میں جانے کی ہے۔
2013ء کے انتخابات میں پی پی کی طرف سے ان کو پارٹی ٹکٹ سے انکار کے بعد میاں مٹھو مسلم لیگ فنکشنل کا حصہ بن گئے۔ اسی دوران مسلم لیگ فنکشنل اور 2013ء کے انتخابات میں بنائے گئے پی پی مخالف دس جماعتی اتحاد کے مشترکہ امیدوار کی حیثیت سے ان کو رکن قومی اسمبلی منتخب کروانے کے لیے باضابطہ اعلان کر دیا گیا تھا، مگر عین وقت پر دس جماعتی اتحاد کے لیے مفت مشورے دینے والوں کی ناراضگی کے بعد ان کو ٹکٹ دینے سے انکار کر دیا گیا۔
اب جب کہ، عمران خان سندھ کے دورے کے دوران ایسے سیاستدانوں کو اپنی پارٹی میں مدعو کرنے کی جسارت کر بیٹھے ہیں جن کا ماضی پارٹی وفاداریاں تبدیل کرنے میں کوئی ثانی نہیں، ان کے اس عمل سے سب سے زیادہ مایوسی اور افسردگی ان دانشوروں کو ہوئی جو عمران خان کی پارٹی کو سندھ میں پی پی کا متبادل لکھتے اور سمجھتے رہے ہیں۔ جس کا اظہار وہی دانشور حضرات سوشل میڈیا پر لکھ کر کر چکے ہیں۔
جب کہ ان کے دیے گئے ریمارکس کا اگر باریک بینی سے جائزہ لیا جائے تو یہی دانشور حضرات سندھ کے باسیوں کو پچھلے چند برسوں سے پی پی مخالف ایڈہاک پارٹیوں میں شامل ہونے کی مہم جوئی کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ دانشوروں کی یہی ٹولی کچھ وقت پہلے پی پی کے متبادل کے طور پر قوم پرستوں کا نام لیا کرتی تھی، یہاں تک کہ 2013ء کے انتخابات کے دوران انھوں نے مختلف اخباروں میں مضامین لکھ کر لوگوں کو مبارک باد دی کہ فلاں قوم پرست رہنما بھاری اکثریت سے کامیاب ہو کر اسمبلی میں ہونگے۔ اس کے علاوہ انھیں لوگوں نے دس جماعتی اتحاد کے حیدر آباد میں ہونے والے جلسے کو سندھ کی سیاسی تاریخ کا سب سے بڑا سنگ میل اور محرک قرار دیا اور یہ تک فرمایا کہ اب سندھ کے عوام پی پی کو خیر باد کہہ دیں گے۔
اب دانشور ٹولی عمران خان کی پارٹی کو سندھ میں پی پی کے متبادل کے طور پر لانے کے لیے اپنی کلی کاوشوں میں مصروف عمل ہیں۔ اس میں عوام کی خواہش کم اور ان کی ذاتی انا زیادہ نظر آتی ہے۔ جب کہ سندھی عوام ہمیشہ اپنا فیصلہ ووٹ کے ذریعے پی پی کے حق میں دیتے رہے ہیں۔ باوجود اس کے کہ پی پی سات سالہ کارکردگی آئیڈیل نظر نہیں آتی
۔ سندھ کے عوام ان کالم نگاروں اور ڈمی سیاستدانوں سے زیادہ با شعور نظر آتے ہیں۔ جنھوں نے اپنے ووٹ کو ہمیشہ پی پی کی امانت ثابت کیا ہے اور ہر الیکشن میں اپنا فیصلہ کن ووٹ پی پی کو دیا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ پی پی کو ملنے والے مینڈیٹ پر سائنسی بنیادوں پر تحقیق ہونی چاہیے۔ ایسی تحقیق غیر جانبدار ہونی چاہیے نہ کہ پی پی مخالفت کے بنیادوں پر۔ عمران خان کی سندھ یاترا جہاں سندھ کے عام لوگوں کو مایوس کیا ہے وہاں ان کے حمایتی رفقاء کو بھی مایوسی کا سامنا کرنا پڑا ۔ جہاں صرف ان کو کھانے کے علاوہ کچھ نصیب نہیں ہوا، ان لوگوں نے عمران خان کی پارٹی کا حصہ بننے سے پہلے آپس میں مشاورت کرنے بعد کا کہہ کر واپس کر دیا۔
جب کہ عمران کی اس یاترا پر سب سے زیادہ خفگی ان کی پارٹی میں شامل سندھ کے باشعور اور پڑھے لکھے طبقے کے بعض ترجمانوں کو بھی ضرور ہوئی ہو گی۔ یہاں تک کہ امر کوٹ سے اقلیتی سیٹ پر نامزد واحد رکن قومی اسمبلی لال مالھی نے بھی برہمی کا اظہار کیا اور میاں مٹھو جیسے لوگوں کی پارٹی میں شمولیت پر مزاحمت کرنے کا اعلان کیا ہے۔ ایسی صورتحال سے یہ واضح ہوتا ہے کہ درمیانے طبقے کے ذریعے تبدیلی لانے کی خواہش رکھنے والے عمران خان اپنی مقبولیت کی کمی بھانپ کر سکھر ایئر پورٹ سے اسلام آباد روانہ ہو گئے اور سندھ کے خود ساختہ دانشوروں اور کالم نویسوں کو اچانک صدمے سے دوچار کر گئے۔