انجمن ترقی پسند مصنفین

یہ کس قدر عجیب اور حیرت کی بات ہے کہ ایک طرف وہ شیطان نما انسان تھے


Zaheer Akhter Bedari November 09, 2015
[email protected]

متحدہ ہندوستان میں انجمن ترقی پسند مصنفین وہ واحد ادبی تنظیم تھی جو ملک کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک جانی پہچانی جاتی تھی۔ سجاد ظہیر کی سرپرستی میں قائم ہونے والی یہ منظم تنظیم ہونے کے ساتھ ساتھ ایک تحریک بھی تھی۔ انجمن اصل میں ادیبوں شاعروں کی ایک ایسی کہکشاں تھی جس میں برصغیر کے معروف ترقی پسند ادیب ستاروں کی طرح جگمگا رہے تھے اس دور کے ادیبوں شاعروں نے جو سب سے بڑا کام انجام دیا وہ تھا 1947ء کے زخموں پر مرہم بن جانا تھا۔ جو ادب انسانی المیوں کا مداوا بن جاتا ہے وہ محض کتابی ادب نہیں رہ جاتا بلکہ انسانوں کی زندگی کا ایک لازمی حصہ بن جاتا ہے۔

یہ کس قدر عجیب اور حیرت کی بات ہے کہ ایک طرف وہ شیطان نما انسان تھے جو اپنے جیسے انسانوں کو محض عقائد کے فرق کی وجہ سے بھیڑ بکریوں کی طرح کاٹ رہے تھے اور اس مقدس مہم میں 22 لاکھ انسان جن میں مرد، عورت، بوڑھے، بچے سب شامل تھے جان سے ہاتھ دھو بیٹھے دوسری طرف وہ فرشتہ نما انسان تھے جو مرنے والوں کے لواحقین کے دکھوں کا مداوا بن رہے تھے۔ یہ علم اور جہل کی جنگ تھی جس میں اہل علم نے ادب کو جہل کے خلاف ہتھیار کے طور پر استعمال کیا اور اپنے مقصد میں کامیاب رہے۔

آج انجمن کا ذکر اس لیے آ رہا ہے کہ ڈاکٹر جمال نقوی، ڈاکٹر سید جعفر احمد نے مجھے ٹیلی فون پر بتایا کہ کچھ دوستوں نے بوجوہ انجمن ترقی پسند مصنفین کی ایک متبادل تنظیم کھڑی کر لی ہے۔ چونکہ انجمن نظریاتی طور پر ایک ترقی پسند تنظیم ہے اس لیے وہ ان المیوں سے بچی نہیں رہ سکتی جو پاکستان میں بائیں بازو کو درپیش ہیں۔ میں نے پاکستان میں بائیں بازو کے انتشار کا ذرا گہرائی سے جائزہ لیا تو احساس ہوا کہ اس انتشار کی اصل وجہ یہ ہے کہ یہاں اب ایسی کوئی مدر تنظیم نہیں رہی جو اپنے کارکنوں کو جوڑے رکھتی ہے۔ متحدہ ہندوستان میں انجمن کے استحکام اور اعلیٰ کارکردگی کی وجہ یہ تھی کہ ادیبوں سمیت دیگر شعبوں سے تعلق رکھنے والی تنظیمیں اپنی مدر تنظیم کمیونسٹ پارٹی کے ساتھ مضبوطی سے جڑی ہوئی تھیں۔

اگرچہ انجمن ترقی پسند مصنفین عشروں سے متحرک رہی۔ متحرک ان معنوں میں کہ ہر مہینے پندرہ روز میں اس کی ادبی نشستیں ہوتی رہتی ہیں لیکن میں ذاتی طور پر اس کارکردگی کو اس لیے تسلیم کرنے سے گریزاں رہا کہ انجمن جن تنقیدی نشستوں کا اہتمام کرتی آ رہی ہے وہ میرے خیال میں سرے سے بے مقصد اور غیر منطقی رہی ہیں۔ وہی ادیب وہی شاعر وہی نقاد وہی سامعین یہ کلچر دراصل بائیں بازو کی عمومی کارکردگی کا مظہر ہے جس پر جتنا افسوس کریں کم ہے۔ انجمن کی ماضی کی تاریخ عوام سے گہرے تعلق پر استوار رہی ہے۔ اب صورتحال یہ ہے کہ بائیں بازو کے تمام شعبوں کا تعلق عوام سے کٹا ہوا ہے اور بدقسمتی سے کوئی شخصیت ایسی نہیں رہی کہ ان ٹوٹے ہوئے دانوں کو ایک لڑی میں پرو دے۔ اس حوالے سے عشروں سے کوششیں ہو رہی ہیں کہ بائیں بازو کے انتشار کا مداوا کیا جائے لیکن صورتحال کچھ ایسی ہے کہ مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی۔

ڈاکٹر جعفر احمد، ڈاکٹر جمال نقوی، ڈاکٹر مظہر حیدر، یہ سارے دوست بڑے سنجیدہ اور مخلص لوگ ہیں۔ میں ذاتی طور پر ڈاکٹر مظہر کی شرافت، سنجیدگی اور مقصد سے لگن کا قائل رہا ہوں لیکن جب مجھے بتایا گیا کہ ڈاکٹر مظہر معاملے کو سلجھانے کے بجائے اس نامعقول جنگ کے ایک فریق کے ساتھ ہو گئے ہیں تو مجھے یقین نہیں آیا۔ میں نے اپنا اطمینان کرنے کے لیے جب ڈاکٹر مظہر سے رابطہ کیا تو ڈاکٹر مظہر نے اس افسوسناک انتشار کی تصدیق کی۔ ہمارے بعض دوست مایوس ہیں کہ انجمن کو ٹکڑوں میں بٹنے سے روکنا مشکل ہے لیکن میں کبھی مایوس نہیں ہوا کہ اچھے مخلص لوگ اب بھی موجود ہیں بعض مفاد پرست اور بڑے عہدوں کے لالچی سنجیدہ اور مخلص لوگوں کو محض اپنے ذاتی مفاد کے لیے استعمال کرنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن مجھے قوی امید ہے کہ یہ موقع پرست حضرات اپنی نامعقول سازشوں میں ناکام رہیں گے۔ کیونکہ انجمن میں سنجیدہ اور مخلص لوگ موجود ہیں اور وہ آگے آ کر اس انتشار کو روکنے کی کوشش کریں گے۔

بدقسمتی سے ہم مستقل بیماریوں کا شکار ہیں اور ایک طرح سے مفلوج ہو کر رہ گئے ہیں اس پر حالیہ ایکسیڈنٹ نے ہماری نوبیلٹی کو اور زیادہ نقصان پہنچایا ہے ورنہ ہماری ایسے موقعوں پر پوری کوشش ہوتی ہے کہ بات کو زیادہ بگڑنے سے پہلے سنبھال لیا جائے۔ ڈاکٹر مظہر کو بھی یقین ہے کہ یہ انتشار جلد ختم ہو جائے گا۔ ڈاکٹر جعفر احمد کا خیال ہے کہ کیونکہ ہم ایک غیر متنازعہ شخصیت ہیں لہٰذا اگر ہم ذرا متحرک ہو جائیں تو معاملات زیادہ بگڑنے سے بچ جائیں گے اور بہتری کی کوئی نہ کوئی صورت نکل آئے گی۔ یہ جھگڑے تو ہر تنظیم کے ساتھ لگے رہتے ہیں آج اگر ملک کی بڑی پارلیمانی پارٹیوں پر نظر ڈالیں تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس ملک میں کوئی سنجیدہ اپنے ذاتی مفادات سے بالاتر شخص نظر ہی نہیں آتا۔

انجمن ترقی پسند مصنفین کے مسائل آج نہیں تو کل حل ہو ہی جائیں گے لیکن اصل مسئلہ یہ ہے کہ جب افراد اور جماعتیں جمود کا شکار ہو جاتی ہیں تو پھر اختلافات کا سر ابھارنا یقینی ہو جاتا ہے۔ ہم ایک عرصے سے انجمن سمیت دوسری ادبی تنظیموں کی خدمت میں یہ عرض کرتے آ رہے ہیں کہ ان تنظیموں کو تنقیدی نشستوں کے حصار سے نکل کر عوام میں آنا چاہیے۔ اس ملک ہی کے نہیں بلکہ ساری دنیا کے عوام کو آج جن سنگین مسائل کا سامنا ہے ان میں غربت، بے روزگاری، مہنگائی، مذہبی انتہا پسندی ایسے مسائل ہیں جو پاکستان ہی کے نہیں ساری دنیا کے عوام کے سر پر تلوار کی طرح لٹک رہے ہیں۔ ان مسائل کا دائمی حل اگرچہ کہ اس استحصالی سرمایہ دارانہ نظام سے نجات ہے لیکن یہ کام سیاست دان نہیں کر سکتے یہ بڑا کام اہل علم، اہل قلم، اہل خرد ہی کر سکتے ہیں۔ اس نظامی تبدیلی کے لیے اہل سیاست کچھ اس لیے نہیں کر سکتے کہ وہ خود اس کا حصہ ہیں البتہ اس ظلم کے نظام سے نجات میں ادیب، شاعر، فنکار بہت اہم رول ادا کر سکتے ہیں بشرطیکہ ان کا احساس اور ضمیر جاگے اور وہ خلوص کے ساتھ ذہنی انقلاب برپا کرنے کی کوششوں میں جٹ جائیں۔

مقبول خبریں