نجکاری اور سرمایہ دارانہ نظام

اس سانحے پر ملک کی تمام سیاسی پارٹیوں کو متحد ہو کر آواز اٹھانی چاہیے تھی


Zaheer Akhter Bedari February 06, 2016
[email protected]

سرمایہ دارانہ نظام میں عوام اگر کوئی ایسا مطالبہ کرتے ہیں جو سرمایہ داروں اور سرمایہ دارانہ نظام کے مفادات کے خلاف ہو تو اس نظام کا محافظ طبقہ بلا توقف ریاستی مشینری کا استعمال کر کے عوام کی آواز کو دبا دیتا ہے۔ پی آئی اے کے ملازمین اپنے لیے کوئی مراعات نہیں مانگ رہے تھے ان کا مطالبہ نجکاری روکنا تھا جو اس سسٹم کے مفادات کے خلاف ہی نہیں تھا بلکہ اس قسم کے مطالبے اس سسٹم کو کمزور کرتے ہیں۔

سو ریاستی مشینری کا بے دھڑک استعمال کیا گیا۔ پی آئی اے کے 3 ملازمین جان سے گئے اور 4 زخمی ہوئے۔ یہ کھیل پہلی بار نہیں کھیلا گیا بلکہ پاکستان کی 68 سالہ تاریخ میں کئی بار مطالبے کرنے والوں کو خون میں نہلا دیا گیا۔ پاکستان کی تاریخ کے منتخب اور مقبول عوام رہنما ذوالفقار علی بھٹو کے جمہوری دور میں کراچی کے سائٹ ایریا اور لانڈھی کے صنعتی علاقے میں درجنوں مزدور قتل کر دیے گئے۔ 2 فروری 2016ء کا المیہ بھی جمہوری دور ہی میں ہوا اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ سرمایہ دارانہ جمہوریت کن طبقات کے مفادات کا تحفظ کرتی ہے۔

2 فروری کو کراچی ایئرپورٹ پر جو گولیاں چلائی گئیں اس میں ہمارے چھوٹے بھائی کے نوجوان بیٹے کو بھی ایک گولی لگی' وہ اسپتال میں زیر علاج ہے، مارے جانے والوں اور زخمیوں کے گھروں میں کہرام مچا ہوا ہے۔ ریاست کو اپنے مفادات سے دلچسپی ہوتی ہے، غریبوں کی جانوں سے اسے کوئی دلچسپی نہیں ہوتی۔

اس سانحے پر ملک کی تمام سیاسی پارٹیوں کو متحد ہو کر آواز اٹھانی چاہیے تھی لیکن ایسا اس لیے نہیں ہوا کہ سیاسی پارٹیاں بھی اس نظام کا حصہ ہوتی ہیں اگر کچھ سیاسی پارٹیاں اس سانحے کی مذمت کر رہی ہیں تو وہ بغض معاویہ میں کر رہی ہیں حب علی میں نہیں اور یہ سارا کھیل اس وقت تک جاری رہے گا جب تک سرمایہ دارانہ نظام اور اس کے حواری موجود ہیں۔ چونکہ پی آئی اے کے ملازمین منظم بھی ہیں اور طاقتور بھی لہٰذا انتظامیہ نے 6 ماہ تک پی آئی اے کی نجکاری ملتوی کر دی ہے۔

کہا جا رہا ہے کہ نجکاری سے پی آئی اے کے ملازمین کو کوئی نقصان نہیں ہونے دیا جائے گا، نجکاری کے بعد پہلا کام فاضل ملازمین کی چھانٹی ہوتا ہے، ایسے موقعوں پر انتظامیہ ملازمین کو یہ یقین دلانے کی کوشش کرتی ہے کہ نجکاری کے بعد ملازمین کو نہیں نکالا جائے گا ان کی ملازمتوں کو تحفظ فراہم کیا جائے گا لیکن اس قسم کے وعدے اس لیے غیر منطقی ہوتے ہیں کہ اداروں کی نجکاری کی مختلف وجوہات میں ''فاضل ملازمین'' کا مسئلہ سر فہرست ہوتا ہے اور اس مسئلے کو حل کیے بغیر نجکاری کا مقصد پورا نہیں ہو سکتا۔

اس میں ذرہ برابر شک نہیں کہ قومی اداروں کی ناکامی میں فاضل ملازمین ایک اہم عنصر ہوتا ہے لیکن فاضل ملازمین پیدا کیسے ہوتے ہیں۔ کیا بے روزگار لوگ زبردستی ملازمتیں حاصل کرتے ہیں؟ جی نہیں۔ ایسا نہیں ہوتا بلکہ ہمارا حکمران طبقہ یا تو بھاری رشوت کے عوض ملازمتیں فروخت کرتا ہے یا سیاسی مفادات کی خاطر قومی اداروں میں ان کی ضرورت سے بہت زیادہ بھرتیاں کر کے قومی اداروں کو تباہی کی طرف دھکیلتا ہے ہر دو صورتوں میں انتظامیہ اور حکمران طبقہ ہی اس خرابی کا ذمے دار ہوتا ہے۔

رہا بے روزگار لوگوں کا معاملہ تو بے روزگار لوگ جب جائز طریقوں سے روزگار حاصل کرنے میں ناکام ہو جاتے ہیں تو وہ مجبوراً ناجائز ذرایع استعمال کرتے ہیں اور قرض لے کر، زیور، حتیٰ کہ گھر تک بیچ کر ملازمت حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں، بے روزگار عوام کسی طرح بھی ملزم نہیں ہو سکتے، کیونکہ خود اور اپنے خاندان کو فاقہ کشی سے بچانے کے لیے کسی نہ کسی طرح روزگار حاصل کرنا ضروری ہوتا ہے۔ہماری حکومتوں کا المیہ یہ ہے کہ قومی ضرورتوں کے نام پر جن عالمی مالیاتی اداروں سے اربوں ڈالر قرض لیا جاتا ہے تو ان عالمی مالیاتی اداروں کی شرائط پر عمل کرنا ضروری ہوتا ہے چونکہ عالمی مالیاتی ادارے انسانی قدروں، انسانی ضرورتوں کے حوالے سے اندھے ہوتے ہیں۔

لہٰذا اپنی شرائط کے عوام پر پڑنے والے نقصانات کی پرواہ نہیں کرتے۔ عالمی مالیاتی اداروں کی شرائط میں قومی اداروں سے ''فاضل ملازمین'' کی چھانٹی پہلی شرط ہوتی ہے، پھر اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں اضافہ ان کی شرائط میں سے ایک اہم شرط ہوتی ہے اس کے علاوہ سبسڈی ختم کرنا جیسی کئی شرائط ہوتی ہیں جس کا عوام کو براہ راست سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ہماری موجودہ حکومت نے اقتدار میں آنے سے پہلے کشکول توڑنے کا اعلان کیا تھا لیکن آج اس کے ہاتھوں میں سب سے بڑا کشکول ہے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ نجکاری سرمایہ دارانہ نظام کی سب سے بڑی ضرورت ہے بلکہ نجکاری سرمایہ دارانہ نظام کے جسم میں سانس کی حیثیت رکھتی ہے، اس ڈنڈے کے ذریعے جہاں سرمایہ دارانہ نظام کے گدھے کو فائدہ پہنچایا جاتا ہے وہیں اس کارخیر میں شامل محترم لوگوں کی جیبیں بھی اس فراخدلی سے بھری جاتی ہیں کہ یہ بھری جیبیں نسلوں تک خالی نہیں ہوتیں۔

اس حوالے سے جو سوال پیدا ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ اگر کسی ادارے کو فروخت کیا جاتا ہے تو کیا خریدنے والا اس ادارے کو چلانے کے لیے فرشتے لاتا ہے؟ ظاہر ہے ایسا نہیں ہوتا بلکہ چھانٹیوں سے بچنے کے بعد جو ملازمین رہ جاتے ہیں وہ ان اداروں کے برسوں پرانے ملازمین ہی ہوتے ہیں۔ جو کچھ بدلا جاتا ہے وہ ہوتے ہیں اختیارات۔ کیا قومی اداروں کو منافع بخش بنانے کے لیے پرانی انتظامیہ کو اختیارات کے درست استعمال کے لیے آمادہ نہیں کیا جا سکتا؟

سرمایہ دارانہ نظام میں ترغیب کو پیداواری عمل کا سب سے بڑا محرک قرار دیا جاتا ہے جو مقابلے کو جنم دیتا ہے اور یہی مقابلہ ترقی کا ضامن ہوتا ہے اس گونگے بہرے اور اندھے نظام میں ترغیب یا مقابلے کا مطلب دوسروں کو روندتے ہوئے آگے بڑھنا ہوتا ہے اور سرمایہ دارانہ نظام اپنی ناجائز پیدائش کے بعد جو کام تواتر اور بے رحمی سے انجام دے رہا ہے وہ ہے مقابلہ اس مقابلے کی خصوصیت یہ ہوتی ہے کہ عوام صرف غریب عوام مقابلے کے ان ہاتھیوں کے پیروں تلے آ کر کچلے جاتے ہیں اور کچلے جا رہے ہیں۔

ہماری موجودہ سرکار اب تک درجنوں قومی اداروں کو کوڑیوں کے مول بیچ چکی ہے ۔میڈیا میں اب تک اس خرید و فروخت کی داستانیں گونج رہی ہیں۔ حکومتی حکام کے مطابق ابھی پچاس ساٹھ قومی اداروں کی فروخت کا اہتمام کیا جا رہا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں

رائے