اردو بے قاعدہ چ سے چاندی

چنانچہ اس سے بھی بنا کر رکھنا پڑتی ہے اور تھوڑی بہت چاندی اس کی جیب میں ڈالنا پڑتی ہے۔


شکیل صدیقی February 11, 2016

یہ وہ سونا چاندی نہیں ہے جوکبھی ڈرامے کی صورت میں پیش کیا جاتا تھا۔یہ وہ والی چاندی بھی نہیں ہے جو سونا بازارمیں فروخت ہوتی ہے اور خواتین اس کے زیورات بنواتی تھیں ، اگرکسی نے غربت کا طعنہ دیا تو اس پر سونا پھروالیا اورصاحب ثروت افراد کی لائن میں جاکرکھڑے ہوگئے ،لیکن اس وقت وہ چاندی موضوع نہیں ہے۔مثلاً آپ ٹھیکیدار ہیں اور آپ کوحکو مت کے چیف انجینئرکی عنایتوں سے سرکاری عمارت بنانے کا ٹھیکہ مل گیا ۔

(وہ ٹھیکہ نہیں ہے جو ضیا محی الدین میں اپنے شو میں لگایا کرتے تھے اور تنبیہہ کیا کرتے تھے کہ آدمی سے ڈرتے ہو،آدمی تو تم بھی ہو) بات کہا ں سے کہاں چلی گئی۔جب آپ کو ٹھیکہ مل جاتا ہے تو چاندی ہوجاتی ہے۔دو نمبر مال استعمال کیجیے، سیمنٹ کم ، سریا کم ، بجری زیادہ ۔فکروتردد کا شکار کیوں ہیں؟آپ کو اس عمارت میں تھوڑا ہی رہنا ہے؟آپ کے پہلے ہی دو بنگلے پوش علاقے میں ہیں۔ پارکنگ میں دوگاڑیاں ہیں، جس میں بچے بیٹھ کر رولنگ کلاس کے اسکول ''گرامر اسکول'' میں جاتے ہیں اور آپ کی اہلیہ دوسری کار میں شاپنگ کرتی ہیں۔

میں پھر بہک کر کہاں سے کہاں چلا گیا۔ موضوع ہے چاندی۔ ٹھیکہ ملنے پر چیف انجینئر ،ٹھیکے دار اور آڈٹ آفیسرکی چاندی ہوجاتی ہے۔عمارت کی تعمیر مکمل ہوجاتی ہے تو آپ کو اپنا بل بھی منظورکرانا ہوتا ہے۔آڈٹ آفیسر بھی بلا کی شئے ہوتا ہے۔ عقابی نظریں اور ذہن رسا ایسا کہ شرلک ہومز بھی پیچھے رہ جائے۔منٹوں میں دودھ کا دودھ اور پانی کرنیوالا،عمارت کوکرید کرید کردیکھتا ہے اور حساب لگا لیتا ہے کہ آپ نے کتنی چاندی بنا لی۔

چنانچہ اس سے بھی بنا کر رکھنا پڑتی ہے اور تھوڑی بہت چاندی اس کی جیب میں ڈالنا پڑتی ہے۔(ہر مقام پر قانون موجود ہے اور قانون کے رکھوالے مستعد، مگر چاندی کے کمالات سے الٹے کا سیدھا ہوجاتا ہے،کایا پلٹ ہوجاتی ہے۔زندگی کے بیشترکاروبار اسی ڈھب پر چل رہے ہیں) چاندی کے زور پر آڈٹ آفیسر آپ کے بل پر دستخط کر دیتا ہے۔آپ کاغذات جمع کراتے ہیں تو آپ کو محنتانہ مل جاتا ہے اورآپ کی چاندی ہوجاتی ہے۔''میا ں کلّو! صاف ستھرا گوشت، بغیر ہڈی اور چکنائی کا ،دوکلو۔ ''

''ابھی لیجیے سرکار''کہہ کرکلّوگوشت کی بوٹیاں بنا دیتا تھا۔چکنائی ایک طرف پھینک دیتا تھا اور ہڈیاں دوسری طرف، لیکن اب یہ بہت پرانی بات ہوچکی اور تاریخ کی کتابوں میں درج ہے۔ہمیں اس کے پیچھے نہیں بھاگنا چاہیے۔ فی زمانہ قصائی اپنی چاندی بنانے کے چکر میں ذبیحے میں پانی کا انجکشن لگا کر جانورکا وزن بڑھا دیتے ہیں۔ایک کلو گوشت ہانڈی میں جانے کے بعد نصف کلو رہ جاتا ہے۔قصائی سے گھگھیاتے ہوئے استفسارکرو تو وہ جواب دیتا ہے کہ اللہ کی مرضی۔ میں کیا کرسکتا ہوں۔

کچھ دن یہ قصہ چلتا رہا۔قریشیوں (جن کا اہل قریش سے کوئی تعلق نہیں یہ اور ذات ہے۔) نے سوچا کہ بات نہیں بن رہی ہے۔ ہونا ایسا چاہیے کہ پانچوں انگلیاں گھی میں اور سرکڑھائی میں ہوجائے۔چنانچہ انھوں نے گدھے اللہ کی راہ میں قربان کر ڈالے۔کھال دساور بھیج دی اور گوشت... گوشت خوروں کو کھلا دیا۔نہاری، پائے، حلیم اورکبابوں کی شکل میں۔اسطرح سے کہ آپ کے فرشتوں کو بھی خبر نہ ہوسکے۔ہنرمندی اسی کوکہتے ہیں(خوشبودار مصالحوں سے ذائقے دار کھانے تیار) پردہ پوشی ستار العیوب کرتا ہے۔

گزشتہ دنوں یہ خبر شایع ہوئی کہ گدھوں کی اتنی کھالیں بیرونی مارکیٹ میں بھیجی گئیں ،مگر ان کا مجموعی گوشت جو تقریباً ایک کروڑ ٹن بنتا ہے کہاں گیا؟ لاہور میں بھی گوشت پکڑا گیا۔جو سور کا تھا(ہمیں ان پیچیدہ معاملات میں نہیں الجھنا چاہیے ۔ لوگوں کو تو سوئی کا بھالا بنانے کی عادت ہوتی ہے۔) قصے کومختصر کرکے بیان کریں تو اس طرح کا بیان سامنے آتا ہے کہ آج کل اس کاروبار میں چاندی ہی چاندی ہے۔(آپ کے پاس تو صرف اپنی ہی کھال ہے، التماس ہے کہ اسے بچا کر رکھیں)

سرکاری افسران کی چاندی ذرا مختلف ہوتی ہے (ڈالروں کی شکل میں)چنانچہ وہ اسے غیر ملکی بینکو ں میں رکھتے ہیں، دانشمندی کا تقاضا بھی یہی ہے۔کیا پتا کب حکومت بدل جائے اور لینے کے دینے پڑجائیں (یہ محض ان کا وسوسہ ہے ، ورنہ کسی کوآج تک لینا پڑا نہ دینا۔آنیوالا جانے والے کو پورا تحفظ دے کر ہی کرسیٔ اقتدار پر بیٹھتا ہے۔

مثال کے طور یحیی نے ایوب کو دیا۔ان سے قطعی نہ پوچھا کہ انھوں نے بڈبیرکا علاقہ امریکیوں کے حوالے کیسے کردیا؟ بھٹو نے یحیی کو ایک بنگلے میں بند کر دیا اور باقی کو ریٹائرکردیا۔ان سے کوئی پوچھ گچھ نہ ہوئی۔بھٹو کا ضیاء الحق نے کوئی احتساب نہ کیا۔ضیاء الحق کا احتساب جونیجو نے نہیں کیا۔ آگے کس نے کیاکیا، یہ آپ کو بخوبی معلوم ہوگا۔اس لیے کہ آپ کی یادداشت اچھی ہے اور آپ سیاسی تاریخ کے اچھے طالب علم بھی ہیں)

ان صاحبان اختیارکے لیے یہ کہہ دینا کافی ہے کہ سب نے چاندی بنائی اورخوب بنائی۔(امید ہے کہ اقتدار حاصل کرنے والے اسی گٹھ جوڑ پر عمل پیرا رہیں گے اور چاندی بنا کر غیر ملکی بینکوں میں جمع کرتے رہیں گے۔غیر ملکی بینکوں میںآپ کی محنت کمائی محفوظ رہتی ہے اور وہ قطعی نہیں بتاتے کہ آپ کے اثاثے کتنے ہیں۔)

وفاق سے صوبوں میں مختلف منصوبوں کو پایۂ تکمیل تک پہنچانے یا منصوبہ سازی کرنے کے بعد رقم(فنڈز) منظورکرتی ہے۔صوبوں میں سب منہ پھاڑکر بیٹھ جاتے ہیں، لیکن وقت گزرنے پرکچھ نہیں ہوتا توکھلبلی مچ جاتی ہے۔ دونوں طرف سے بیان بازی شروع ہوجاتی ہے۔کوئی سیانا فون کر کے بتاتا ہے کہ چیک تیار پڑا ہے۔

ہمارے کمیشن کے بارے میں بھی تو سوچو، ایسے کیسے کام چلے گا؟چنانچہ اِدھر سے کچھ جاتا ہے تو اُدھر سے بہت کچھ آتا ہے۔وفاق اور صوبے دونوں کی چاندی ہوجاتی ہے۔کسی کا کچھ نہیں بگڑتا ۔سرکاری خزانہ البتہ خالی ہونے لگتا ہے۔(بھئی پیسے تو ہوتے ہی اس لیے ہیں کہ خرچ کیے جائیں)وزیروں کے بنگلے کہاں سے بنیں گے ؟ان کی آرائش کیسے ہوگی؟دفاترکو کیسے سجایا جائے گا؟ان کے لیے نئے ماڈل کی کاریں خریدنا ہوتی ہیں ، اس کے لیے بھی پیسادرکارہوتا ہے۔

یہ سب کہاں سے آتا ہے؟حکومت کے خزانے سے ؟ وزیر پبلک فنڈزکوکیوں خرچ کرتے ہیں؟اس لیے کہ وہ انتخابات پر رقم جو خرچ کر بیٹھتے ہیں۔ (دانستہ)اس کی بھی تو واپسی ہونا چاہیے۔اب اگرہم یہ کہنا چاہیں کہ وزیروں کی چاندی ہے توآپ وزیر بننے کے لیے بھاگ دوڑ نہیں کرسکتے۔اس لیے کہ اب اس کا وقت گزرچکا ہے۔

مرکزی حکومت سے صوبائی حکومت کے پاس پیسا آتا ہے تو فلاحی کاموں میں خرچ ہونے کے بجائے اپنی فلاح میں خرچ ہونا شروع ہوجاتا ہے۔اس لیے کہ پبلک کی فلاح تو ہوچکی۔سڑکیں بن چکیں،عمارات بن چکیں، مساجد بن چکیں(اس سے زیادہ بنا کرکیاکریںجو پہلے والی ہیں، ان میں ہی نمازی نہیںآتے) اسکول بھی کافی بن چکے ۔پیلے اسکول ، جہاں کوئی اپنے بچوں کو داخل نہیں کرواتا۔البتہ دیہی علاقوں میں بننے والے اسکولوں کوجاگیردار اوطاق بنا دیتے ہیں یا بھینس باڑہ (بہرحال اس کی بھی ضرورت ہوتی ہے ، ورنہ بھینسیں کہاں باندھی جائیں گی؟ کون کس چکرمیں ہے، ہمیں اس چکر میں نہیں پڑنا چاہیے۔

مقبول خبریں