مردم دیدہ

رفیع الزمان زبیری  جمعرات 3 مارچ 2016

آغا حشر سے اپنی ملاقات کا ذکر کرتے ہوئے اپنی کتاب ’’مردم دیدہ‘‘ میں چراغ حسن حسرت لکھتے ہیں ’’ایک وسیع کمرہ تھا، اس میں ایک چارپائی اور دو تین کرسیاں پڑی تھیں۔ چارپائی پر آغا صاحب لنگی باندھے ایک کرتا پہنے لیٹے تھے۔ ہمیں دیکھتے ہی اٹھ بیٹھے، اب جو دیکھتا ہوں تو بھنگ بیچنے والے آغا اور اس آغا میں زمین آسمان کا فرق ہے سر پر انگریزی فیشن کے بال داڑھی منڈی ہوئی چھوٹی چھوٹی مونچھیں، دہرا جسم، سرخ سفید رنگ، درمیانہ قد، ایک آنکھ میں نقص تھا۔ محفل میں بیٹھے ہوئے ہر شخص کو لگتا تھا کہ وہ میری طرف ہی دیکھ رہے ہیں۔ تپاک سے ملے‘‘

حسرت بتاتے ہیں کہ آغا حشر بڑے حاضر جواب، بذلہ سنج شخص تھے۔ محفل میں سب پر چھا جاتے، مطالعے کا بہت شوق تھا ہر قسم کی کتابیں پڑھتے تھے، طب ہو یا فلسفہ، شاعری ہو یا ادب کسی موضوع میں بند نہیں، جہاں علم ساتھ نہ دیتا وہاں ذہانت کام آ جاتی، اپنی تعریفیں خود کرتے اور کہتے کہ دنیا میں کامیابی حاصل کرنے کے لیے اپنی تعریف کرنا بہت ضروری ہے۔ آغا جوانی سے شراب کے عادی تھے اور روز کے پینے والے تھے۔ دن ڈھلتے ہی پینا شروع کر دیتے تھے، وہ چھپ کر پینے کے قائل نہیں تھے سب کیسامنے پیتے تھے اور بوتلوں کی بوتلیں خالی کر دیتے تھے لیکن موت سے تین سال پہلے شراب چھوڑ دی۔

شفاء الملک حکیم فقیر محمد چشتی سے چراغ حسن حسرت کو تعلق قلبی تھا۔ وہ طبیب بھی تھے اور ادیب بھی۔ حسرت لکھتے ہیں ’’طبیب کی حیثیت سے حکیم صاحب کا جو مرتبہ تھا اس کے متعلق کوئی طبیب ہی اظہار رائے کر سکتا ہے۔ مجھے کچھ کہنا زیب نہیں دیتا البتہ اتنا ضرور ہے کہ ہمارے سامنے انھوں نے ایسے ایسے مریضوں کا علاج کیا جنھیں ڈاکٹر متفقہ طور پر ناقابل علاج بتا چکے تھے‘‘حسرت بتاتے ہیں کہ شفاء الملک مرنج مرنجاں انسان اور راسخ العقیدہ مسلمان تھے۔ دوسروں کے مذہبی عقائد سے انھیں کوئی سرکار نہ تھا۔ وہ لکھتے ہیں ’’حکیم صاحب کی زندگی افکار و آلام سے خالی نہیں تھی سب سے بڑا داغ تو بے اولادی کا تھا لیکن اس کے باوجود ان کی طبعی شگفتگی کا یہ حال تھا کہ میں نے انھیں کبھی ملول نہیں دیکھا‘‘

آغا حشر سے حکیم صاحب کی بے تکلفی تھی، حسرت لکھتے ہیں ایک دفعہ آغا حشر اور حکیم صاحب آم کھا رہے تھے آغا آم کھاتے جاتے تھے اور اپنی عادت کیمطابق کہتے جاتے تھے کہ بھئی حکیم! ممبئی کے الفانسو کا جواب نہیں، لکھنو کا سفیدہ اس کے آگے کیا چیز ہے۔ حکیم صاحب نے کہا جی ہاں لیکن ہم تو بنارس کے لنگڑے پر لٹو ہیں۔ آغا پھڑک گئے، بات یہ تھی کہ آغا مرحوم بنارس کے رہنے والے اور ایک ٹانگ میں نقص تھا اس لیے لنگڑے کی پھبتی ان پر ایسی بیٹھی جسے انگشتری میں نگینہ بیٹھتا ہے۔‘‘

علامہ اقبال سے حسرت کی پہلی ملاقات 1930ء میں ان کی میکلوڈ روڈ والی کوٹھی میں ہوئی۔ وہ سالک صاحب کے ساتھ ان کی خدمت میں حاضر ہوئے لکھتے ہیں ’’ان کے دروازے غریب و امیر، ادنیٰ و اعلیٰ سب پر کھلے تھے، نہ کوئی حاجب نہ دربان نہ ملاقات کے لے کارڈ بھجوانے کی ضرورت، نہ تعارف کے لیے کسی واسطے کی حاجت، جو آتا ہے کرسی کھینچ کر بیٹھ جاتا ہے اور یا تو اپنا تعارف خود کر دیتا ہے یا چپ چاپ بیٹھا باتیں سنتا رہتا ہے۔

علامہ اقبال باتیں کرتے کرتے تھوڑی دیر کے لیے رکتے ہیں تو اس کی طرف توجہ فرماتے ہیں اور پوچھتے ہیں فرمایے کہاں سے آنا ہوا؟ وہ اپنا نام بتاتا ہے، کوئی حاجت ہوتی ہے تو بیان کر دیتا ہے‘‘حسرت بتاتے ہیں کہ انھوں نے علامہ اقبال کو اس حالت میں دیکھا ہے جب ان کی بیگم کی تدفین ہو رہی تھی، لکھتے ہیں مرحومہ کی قبر کھودی جا رہی تھی اور وہ پیشانی پر ہاتھ رکھے پاس بیٹھے تھے اس وقت وہ بہت بوڑھے معلوم ہو رہے تھے، کمر جھکی ہوئی تھی اور چہرہ زرد تھا‘‘

مولانا ظفر علی خاں سے حسرت کی بڑی قربت تھی، لکھتے ہیں ان کی سیرت چند لفظوں میں بیان کرنا ہو تو یوں کہنا چاہیے کہ وہ ہاتھ کے سخی، دل کے نرم، کان کے کچے اور دھن کے پکے ہیں۔ جس طرف جھک پڑے جھک پڑے۔ جو کچھ دل میں ہے وہی زبان پر ہے۔ موقع و محل کا کیا ذکر گھر کے اندر یا گھر کے باہر سیاسی صحبتیں ہوں یا ادبی محفلیں، دلی دروازے کے جلسے ہوں یا ’’زمیندار‘‘ کے صفحات، نثر میں یا نظم میں، تقریر میں یا گفتگو میں بس ایک ہی رٹ لگی ہے۔ آپ کچھ کہے جائیں ادھر سے ایک ہی جواب ملے گا‘‘

مولانا ابوالکلام آزاد کے عقیدت مندوں میں چراغ حسن حسرت کا اپنا ایک مقام ہے مولانا سے ان کی پہلی ملاقات شملہ میں ہوئی، ایڈورڈ گنج میں ان کی تقریر تھی، تقریر ہو چکی تو حسرت ان کی خدمت میں حاضر ہوئے یہ ملاقات چند منٹ ہی کی تھی اور ملنے والوں میں یہ اکیلے نہ تھے بہت سے لوگوں کا ایک وفد سا تھا، اس کے اگلے سال جب حسرت کلکتہ گئے تو مولانا آزاد سے ان کی ملاقات اس وقت ہوئی جب مولانا نے الہلال دوبارہ نکالنے کا ارادہ کیا اور ساتھ ہی پیغام کے نام سے ایک روزنامہ اخبار بھی نکالنے کا فیصلہ کیا۔

انھوں نے حسرت کو اور ان کے ساتھ غلام احمد جامعی کو اخبار میں کام کرنے کے لیے بلایا۔ یہ اخبار ایک مہینہ چل کر بند ہو گیا بعد میں حسرت کی مولانا سے مستقل ملاقاتیں ہوتی رہیں، حسرت لکھتے ہیں ’’میرے دل میں مولانا کی جس خصوصیت کا اثر سب سے زیادہ ہے وہ ان کی ذہانت اور علمی تبحر، مطالعے کا انھیں بہت شوق ہے وہ ہر قسم کی کتابیں پڑھتے ہیں اور ہر فن کے متعلق معلومات رکھتے ہیں ان کا حافظہ بہت اچھا ہے، عربی، فارسی، اردو کے ہزاروں شعر بلکہ عربی کی بڑی بڑی کتابوں کی طویل عبارتیں بھی انھیں زبانی یاد ہیں تقریر اور تحریر دونوں کا جامع ہونا مشکل ہوتا ہے لیکن ہندوستان میں شاید وہ تنہا ہیں جسے زبان اور قلم پر یکساں قدرت حاصل ہے‘‘ حسرت نے مولانا آزاد کے دو وصف اور بیان کیے ہیں سنجیدگی اور استثنیٰ وہ ہنستے ہیں تو اس میں بھی وقار ہوتا ہے۔

ہندوستان کے مشہور اخبار نویس اور ’’ریاست‘‘ کے ایڈیٹر دیوان سنگھ مفتون پر حسرت کا ایک مضمون ان کی اس کتاب میں شامل ہے وہ لکھتے ہیں کہ ’’دیوان سنگھ کا علم کتابی نہیں بلکہ اس نے گھوم پھر کر حاصل کیا ہے اس نے زندگی کو بہت قریب سے دیکھا ہے ہر طبقے اور گروہ کے لوگوں سے ملا ہے، ان کے دل کی دھڑکنیں سنی ہیں، ریاستوں اور ان کے حکمرانوں کا سخت مخالف ہے پولیس والوں سے سخت دشمنی ہے ان سب کے خلاف وہ اپنے اخبار میں لکھتا رہتا ہے، دوستوں کی خاطر سب کچھ کر گزرتا ہے لیکن دشمن کو کبھی معاف نہیں کرتا۔‘‘

چراغ حسن حسرت گوجرانوالہ میں ہونے والی سیتہ گرہ کانفرنس میں اپنے اخبار کے نمایندے کی حیثیت سے گئے تھے۔ اس کا ذکر کرتے ہوئے کیا سچی بات کہہ گئے ہیں، لکھتے ہیں ’’گوجرانوالہ کانفرنس کے موقع پر پہلی مرتبہ مجھے یہ احساس ہوا کہ اخبار نویس، مورخ، شاعر اور فلسفی ہی حقیقی انسان ہیں، باقی انسانوں کی حیثیت محض ایکٹروں کی ہے جو رنگا رنگ سوانگ بھر کر زندگی کے اسٹیج پر آتے ہیں اور اپنا پارٹ ادا کر کے چلے جاتے ہیں۔ اسمبلی کے اجلاس وزرا کی پارٹیاں، بیاہ شادی کی محفلیں جلوس، جلسے اور کانفرنسیں کیا ہیں؟ محض ایک سیمیائی نمود جس کی اصل کچھ نہیں۔ حقیقی انسان تو صرف ہم ہیں ہم جنھیں دو وقت کا کھانا میسر نہیں جن کے بچوں کو تن ڈھانکنے کے لیے کپڑا نہیں ملتا۔‘‘

ان لوگوں کا کام طرح طرح کے روپ بھر کر نقل اتارنا ہے اور ہمارا کام ان پر تنقید کرنا۔ کبھی کبھی یہ نقلیں، یہ سوانگ اور ڈرامے ہمیں دلچسپ معلوم ہوتے ہیں اور ان میں حقیقی زندگی کی ہلکی سی جھلک نظر آ جاتی ہے لیکن ان کی یکسانی ہمیں اکتا دیتی ہے کیوں کہ ان سب ناٹکوں کا مرکزی تخیل ایک ہے اور وہ سب کے سب ایک ہی محور پرگھوم رہے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔