حسنین ہیکل ایک منفرد صحافی

اس اعتراض کے باوجود اس کی موقر اور ذمے دار حیثیت سے کسی کو انکار نہیں


Zahida Hina March 16, 2016
[email protected]

سوئز کی جنگ یوں تو چند دنوں پر محیط تھی لیکن اس نے ہمارے سیاسی منظر نامے پر گہرے اثرات مرتب کیے۔ جمال عبدالناصر نے مغربی طاقتوں سے اور اسرائیل سے لوہا لے لیا تھا۔ نہر سوئز قومیائی گئی اور اسے بند کرنے کے لیے اس میں بحری جہاز ڈبو دیے گئے، یوں جمال عبدالناصر راتوں رات ہمارے ہیرو بن گئے اور سوئز کی جنگ استعمار دشمنی کا استعارہ بن گئی۔

اس سے پہلے بھی گھر کے بڑوں سے 'الاہرام' اور حسنین ہیکل کا نام سنا تھا لیکن اس جنگ کے بعد یہ دونوں نام کچھ اور زیادہ قابل اعتبار ٹہرے ، اس وقت 'الاہرام' کا نام اس لیے یاد آرہا ہے کہ اس کا عالمی شہرت یافتہ مدیر اعلیٰ محمد حسنین ہیکل 92 برس کی زندگی گزار کر را ہئی ملک عدم ہوا۔

ہیکل صرف مصر ہی نہیں عرب سیاست پر اثر انداز ہوتے تھے اور مغربی دارالحکومتوں میں بھی ان کے موقف کو اہمیت دی جاتی تھی۔ انھیں بے مثال عروج اس زمانے میں ملا جب وہ 'الاہرام' کی ادارت کے فرائض انجام دے رہے تھے اور اس میں ایک ہفتہ وار کالم تحریر کرتے تھے جو بیس برس تک شایع ہوتا رہا۔

'الاہرام' کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ جس طرح انگریز کے لیے 'دی ٹائمز' اور 'نیویارک ٹائمز' امریکی کے لیے ہے وہی حیثیت پڑھے لکھے مصریوں اور عربوں کے نزدیک 'الاہرام' کی ہے۔ جمال عبدالناصر کے زمانے سے یہ سرکار کی ملکیت ہے، اسی لیے لوگوں کو اس پر عائد ہونے والے سنسر کی شکایت رہتی ہے۔

اس اعتراض کے باوجود اس کی موقر اور ذمے دار حیثیت سے کسی کو انکار نہیں۔ لبنان نے عرب دنیا کو دانشوری اور ادب میں جہاں خلیل جبران جیسا شاندار اور منحرف ادیب دیا، وہیں 'الاہرام' کی اشاعت بھی دو لبنانی بھائیوں کا تحفہ ہے جو 5 اگست 1876ء کو شایع ہونا شروع ہوا۔ اس کی مقبولیت میں اضافے نے سنہ جنوری 1881ء میں اسے روزنامہ کی شکل دی۔ 1937ء میں یہ 45 سے 50 ہزار فروخت ہوتا تھا، 1947ء میں اس کی فروخت 90.000 کو چھونے لگی۔ 1976ء میں اس کی اشاعت 5.20.000 کو پہنچی اور 2000ء میں یہ بارہ لاکھ چھپنے لگا۔

انیسویں صدی میں جب اس کا آغاز ہوا، اس کے کچھ دنوں بعد سے ہی اس پر دو مذہبی رہنماؤں کے گہرے اثرات مرتب ہوئے جن میں ایک جمال الدین افغانی اور دوسرے محمد عبدہ تھے۔ یہ دونوں نام برصغیر کے سیاسی اور مذہبی رجحانات رکھنے والے مسلمانوں کے لیے محترم تھے۔

60ء کی دہائی میں جمال عبدالناصر نے جب 'الاہرام' کو قومیا لیا تو اس کے ساتھ ہی حسنین ہیکل کو اس کا مدیر اعلیٰ مقرر کیا۔ حسنین ہیکل نے دیکھتے ہی دیکھتے اسے عرب دنیا کا اہم ترین اخبار بنادیا۔ اس کا ایک سبب ہیکل کا وہ ہفتہ وار کالم بھی تھا جس کا عنوان انھوں نے Frankly Speaking رکھا تھا۔ عرب دنیا کے دانشور ، ادیب اور صحافی اس کالم کا بے چینی سے انتظار کرتے تھے۔ ہیکل نے ناصر کی موثر ترین تقریریں لکھیں۔ کہا جاتا ہے کہ ناصر کا سیاسی منشور، فلسفہ انقلاب، بھی ان ہی کا تحریر کردہ تھا۔ مغربی دارالحکومتوں میں وہ نہایت اہم عرب دانشور کی حیثیت رکھتے تھے اور ان ہی کی وساطت سے ناصر کے پیغامات مغربی رہنماؤں تک پہنچتے اور ان کا جواب بھی وہی ناصر تک لے کر آتے۔

ناصر مصریوں اور عرب قوم پرست نوجوانوں کی آنکھوں کا تارا تھے۔ ناصر کا جنازہ اٹھا تو سر پر خاک ڈالتے اور ماتم کرتے تیس لاکھ سے زیادہ سوگواران اس جلوس شامل تھے۔ کہتے ہیں کہ اس سے پہلے اور اس کے بعد کسی مسلمان رہنما اور مدبر کے حصے میں ایسا جلوس جنازہ نہیں آیا۔ ناصر کے بعد بھی سالہا سال ہیکل مصری نوجوانوں کے مرشد و مولا اور سیاسی رہنما رہے۔

وہ ایک اعلیٰ درجے کے صحافی کے ساتھ ہی مصر کی ہم عصر تاریخ کے وقایع نگار بھی تھے۔ انھوں نے 40 سے زیادہ کتابیں تحریر کیں جن میں سے بیشتر وہ ہیں جو معاصر تاریخ کے چشم دید واقعات ہیں۔ انھوں نے اپنا صحافتی سفر 19 برس کی عمر میں دوسری جنگ عظیم کے دوران ایک رپورٹر کے طور پر شروع کیا۔ اپنی آیندہ زندگی میں انھوں نے ایرانی انقلاب ، اسرائیل فلسطین امن مذاکرات اور بہ طور خاص انورالسادات کی امن کوششوں کے بارے میں لکھا۔ یہی وہ امن کوششیں تھیں جن کے نتیجے میں انورالسادات قتل کیے گئے۔

اس کتاب کے بارے میں تجزیہ نگاروں نے لفظوں سے پیر پھیر کے ساتھ یہی لکھا کہ مصر کے سب سے اہم صحافی اور دانشور حسنین ہیکل نے بہت سلیقے سے ان بنیاد پرستوں کے موقف کو پیش کیا جنہوں نے سادات کو قتل کیا تھا۔

انورالسادات کا اقتدار آغاز ہوا تو ہیکل نئے مصری صدر کے اسی طرح حامی و مددگار تھے جیسے وہ جمال ناصر کے تھے لیکن آہستہ آہستہ وہ انورالسادات کی پالیسیوں سے برگشتہ ہوتے گئے۔ 1973ء میں اسرائیل اور مصر کے درمیان ہونے والی جنگ نے حسنین ہیکل کو دل برداشتہ کیا اور نوبت یہاں تک پہنچی کہ جب انورالسادات کے حکم سے ستمبر 1981ء میں بڑے پیمانے پر مخالفین کو گرفتار کیا گیا تو ان میں حسنین ہیکل بھی شامل تھے۔

وہ شخص جسے جمال ناصر اور کچھ عرصے تک انورالسادات کے بھی قریب ترین مشیر کی حیثیت حاصل رہی ہو، اس کے لیے یہ ایک بہت بڑا صدمہ تھا۔ وہ لوگ جو ہیکل سے ذاتی پر خاش رکھتے تھے، خوش ہوئے لیکن جن کے دلو ں میں ہیکل کی دانش و بینش اور سیاسی بصیرت کا احترام تھا، وہ اس گرفتاری سے بہت مضطرب ہوئے۔ ان کے خیال میں یہ عرب دانش کی توہین تھی۔ سادات کی زندگی کے آخری دن حسنین ہیکل نے قید و بند میں گزارے اور سادات کے قتل کے فوراً بعد برسر اقتدار آنے والے حسنی مبارک نے حسنین ہیکل کو فوری طور پر رہا کردیا۔

ان کی کتاب ' خزاں کا طیش' جو صدر سادات کی ذات اور پھر ان کے قتل کی وجوہ کا احاطہ کرتی ہے، اسے تبصرہ نگاروں نے بڑی حد تک یک طرفہ کہا ہے لیکن اس بات سے کوئی بھی انکار نہیں کرسکا ہے کہ انورالسادات نے جس بڑے پیمانے پر آزاد تجارت کو بڑھاوا دیا، اس کے نتیجے میں دیکھتے ہی دیکھتے مصر کے اندر نو دولتیوں کا ایک بڑا طبقہ ابھر کر سامنے آیا، رشوت کا بازار گرم ہوا، غریب اور متوسط طبقے کے لوگوں کی آنکھوں میں ناصر کے جلائے ہوئے سوشلسٹ سماج کے خواب بجھنے لگے۔

اسلام پسندوں کا عروج ہوا، اسرائیل سے صلح کا معاہدہ غداری سمجھا گیا اور کچھ لوگوں نے سادات کے قتل کو عین ثواب خیال کیا۔ حسنین ہیکل نے ان تمام باتوں کو دیانت داری کے ساتھ معروضی انداز میں بیان کیا ہے۔ اس کتاب کو پڑھتے ہوئے حسنین ہیکل سے یہ شکایت ضرور ہوتی ہے کہ انھوں نے انورالسادات کی روزمرہ زندگی جو تصویر کشی کی ہے، وہ دراصل کردار کشی ہے جس کی ان سے توقع نہیں کی جاتی تھی۔

حسنی مبارک نے حسنین ہیکل کو اس زندان سے آزاد کیا تھا جس میں انورالسادات نے انھیں قید کیا تھا۔ حسنی مبارک وقتاً فوقتاً ان سے رائے لیتے رہے لیکن ہیکل نے ان کے بارے میں بھی صاف گوئی سے کام لیا۔ ان کا خیال تھا کہ حسنی مبارک کو اگلے انتخابات میں حصہ نہیں لیٹا چاہیے جو 2005ء میں ہونے والے تھے۔

اسی طرح وہ اس بات کے بھی سخت خلاف تھے کہ حسنی مبارک آنے والے دنوں میں اپنے بیٹے کو اپنا جانشنین نامزد کریں۔ ان کے خیال میں یہ جمہوریت کی روح کے خلاف تھا۔ وہ یہ جانتے تھے کہ صدر مبارک کی پالیسیوں کا جمہوریت سے کوئی واسطہ نہیں اور مقررہ وقت پر انتخابات کرادینا اور اور اس میں دھاندلی سے 90 فیصد ووٹ حاصل کرلینا جمہوریت کی توہین کے سوا کچھ نہیں ۔ صدر مبارک کی معزولی سے 9 برس پہلے انھوں نے مصری صدر کو جو مشورے دیے تھے، اگر انھیں تسلیم کرلیا جاتا تو یقینا صدر مبارک کا یہ احوال نہ ہوتا آ ہنی پنجرے میں بند کرکے عدالت میں پیش کیے جائیں۔

یہ حسنین ہیکل کی دانش تھی جس کا اعتراف ان کے مخالفین نے بھی کیا۔ ان میں اخوان المسلمین کے رہنماؤں سے لے کر جنرل سیسی تک سب ہی شامل تھے۔ جنرل سی سی جنہوں نے جنرل مر سی کو اقتدار سے معزول کیا، وہ ستمبر 2013ء میں سالگرہ کا کیک لے کر بہ نفسِ نفیس حسنین ہیکل کے گھر پر حاضر ہوئے اور دریائے نیل کا نظارہ کرتے ہوئے انھوں نے اس شخص کی سالگرہ کا کیک کاٹا جس سے انھیں نظریاتی اختلاف تھا۔ اسی صورت حال کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ایک مصری دانشور اسٹیون اے کک نے لکھا کہ حسنین ہیکل آخر وقت تک مصری نوجوانوں ، انقلابیوں اور ادیبو ں کے ہیرو مرشد تھے جو یہ سمجھتے تھے کہ ہیکل تاریخ کے ایک ہنگامہ خیز دور میں ترقی ، عزت اور قومی وقار کا نشان رہے۔

حسنین ہیکل 92 برس کی ایک قابل رشک زندگی گزار کر رخصت ہوئے۔ وہ مصری ادیبوں، صحافیوں اور دانشوروں کے لیے وجہ افتخار تھے۔ ان کو مغربی دارالحکومتوں میں احترام کے ساتھ یاد کیا گیا، عرب دنیا میں ان کا سوگ منایا گیا۔ وہ چلے گئے اور ان کے پڑھنے والے ان کی تحریروں سے محروم ہوگئے ۔ ہمارے یہاں بھی ابوالکلام آزاد اور حسرت موہانی ایسے عقبری زندہ ہوتے تو ان کا غم مناتے لیکن ہمیں تو ان کی اہمیت کا ہی اندازہ نہیں تو ہم انھیں کیسے یاد کریں اور کس طرح خراجِ عقیدت ادا کریں۔

مقبول خبریں