خواتین کرکٹ ٹیم کی کامیابی

خواتین کی کرکٹ ٹیم نے تہلکہ مچا دیا۔ بھارت کی ٹیم کو نئی دہلی کے فیروز شاہ کوٹلہ میدان میں شکست دے دی


Dr Tauseef Ahmed Khan March 26, 2016
[email protected]

خواتین کی کرکٹ ٹیم نے تہلکہ مچا دیا۔ بھارت کی ٹیم کو نئی دہلی کے فیروز شاہ کوٹلہ میدان میں شکست دے دی۔ پھر جمعرات کو بنگلہ دیش کو ہرا دیا۔ پاکستانی خواتین کی ٹیم کو بین الاقوامی کرکٹ میں شامل ہوئے بہت زیادہ عرصہ نہیں گزرا، مگر اس کی کارکردگی کو اب بین الاقوامی کرکٹ کے عہدیدار بھی تسلیم کرتے ہیں۔

چند سال قبل ایک پاکستانی ایتھلیٹ نسیم حمید نے جنوبی ایشیائی ممالک کے سیف کھیلوں کے مقابلے میں سونے کا تمغہ حاصل کیا، اس وقت بھی خواتین کھلاڑیوں کی دھوم مچ گئی۔ شرمین عبید چنائے کی ڈاکومنٹری فلموں نے دو دفعہ عالمی فلمی دنیا کا سب سے بڑا اعزاز جیت لیا۔ ایک پاکستانی لڑکی ڈاکٹر نرگس ماول والا نے فزکس کے عظیم سائنسدان البرٹ آئن اسٹائن کے نظریے کی تصدیق کرنے والی ٹیم میں کام کر کے بہت سے لوگوں کو حیران کر دیا۔ پاکستانی خواتین نے نہ صرف کھیلوں، فلموں اور سائنس کے شعبوں میں ہی تہلکہ مچایا بلکہ جبر و استبداد کے خلاف اور بنیادی حقوق کے لیے بھی آوازیں بلند کیں۔

ان خواتین میں ایک اہم نام ملالہ یوسف زئی کا ہے۔ ملالہ نے سوات میں خواتین کے تعلیم کے حق کے لیے طالبان کو چیلنج کیا اور اپنی زندگی کو داؤ پر لگا دیا۔ عالمی برادری نے ملالہ کو نوبل انعام دے کر اس کی جدوجہد کو تسلیم کیا۔ عاصمہ جہانگیر نے نوجوانی سے آئین کی بالادستی اور انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے جدوجہد کی۔ انھوں نے 1971ء میں اپنے والد معروف سیاستدان ملک غلام جیلانی کی یحییٰ خان کے مارشل لا کے تحت نظربندی کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا۔ ملک غلام جیلانی یحییٰ خان کی فوجی حکومت کی مشرقی پاکستان کی نمایندہ تنظیم اور ملک کی اکثریتی جماعت عوامی لیگ کو اقتدار نہ دینے اور مشرقی پاکستان میں فوجی آپریشن میں مخالفت پر پابند سلاسل ہوئے تھے۔ عاصمہ جہانگیر اس وقت عاصمہ جیلانی کہلاتی تھیں۔

انھوں نے جبرواستبداد کے ماحول میں سپریم کورٹ میں یحییٰ خان کے مارشل لا کو غیر آئینی قرار دینے کے لیے عرضداشت داخل کی۔ سپریم کورٹ کے فل بینچ نے ایوب خان اور یحییٰ خان کے مارشل لا کو غیر آئینی قرار دے دیا، پھر عاصمہ وکیل بن گئیں، انھوں نے جنرل ضیا الحق کے دور میں خواتین اور اقلیتوں کے خلاف متنازعہ قوانین کو چیلنج کیا۔ خواتین کو منظم کیا اور مال روڈ پر احتجاج کی نئی روایت ڈالی۔ پولیس نے ڈنڈوں اور آنسو گیس کے گولے برسائے۔ عاصمہ اور دوسری خواتین کے ساتھ عوامی شاعر حبیب جالبؔ بھی پولیس کی لاٹھیوں کا شکار ہوئے۔ عاصمہ آج بھی انسانی حقوق کی جدوجہد کی علامت ہیں۔

1973ء کے آئین کی بحالی کی جدوجہد میں سب سے بڑا کردار محترمہ بے نظیر بھٹو شہید کا ہے، بینظیر بھٹو نے 1977ء سے مارشل لا کے خلاف آواز اٹھائی، اپنی والدہ نصرت بھٹو کے شانہ بشانہ جدوجہد کی، جب ان کے والد ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دی گئی تو فوجی حکومت نے بینظیر اور ان کی والدہ کو اپنے والد اور شوہر سے آخری ملاقات کی اجازت نہیں دی۔ بینظیر بھٹو کے والد اور دونوں بھائی اس جدو جہد میں شہید ہوئے، انھیں سندھ کی مختلف جیلوں میں قید تنہائی میں رکھا گیا، مگر بینظیر کے عزم میں کبھی کمی نہیں آئی۔ بینظیر کو 27 دسمبر 2007ء کو راولپنڈی کے لیاقت باغ میں شہید کر دیا گیا۔

ان تمام خواتین کو نام نہاد مذہبی جماعتوں کی جانب سے مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔ پاکستان کی مذہبی جماعتوں نے خواتین کے کھیلوں میں حصہ لینے کے حق کو کبھی تسلیم نہیں کیا، وہ کبھی کھلے عام اور کبھی پس پردہ خواتین کے کھیلوں کے خلاف پروپیگنڈہ کرنے میں مصروف رہے۔ جب کسی خاتون نے کوئی نمایاں کارنامہ انجام دیا تو کبھی کسی جماعت نے انھیں مبارکباد نہیں دی۔ ان جماعتوں کے رویے کے تجزیے سے یوں محسوس ہوتا ہے کہ خواتین کی ترقی کے ہر معاملے کو وہ خلاف اسلام قرار دیتے ہیں۔

ملالہ کے خلاف ایک مذموم مہم ابتدا سے جاری ہے۔ سینئر صحافی مظہر عباس کا کہنا ہے کہ ملالہ کے خلاف مہم چلانے والے دراصل فضل اﷲ کے حامی ہیں۔ شرمین نے غیرت کے نام پر قتل کے موضوع پر ڈاکومنٹری بنائی، اس ڈاکومنٹری میں ایک ایسی لڑکی کا انٹرویو شامل ہے جس کو اس کے والد نے قتل کرنے کی کوشش کی اور اس والد کا انٹرویو بھی شامل ہے جو آج بھی جیل میں رہ کر اپنی بیٹی کو قتل کرنے کی کوشش پر شرمندہ نہیں ہے۔ پاکستان کے دیہی علاقوں میں غیرت کے نام پر قتل عام سی بات ہے۔

اس موضوع پر تحقیق کرنے والے ماہرین کا کہنا ہے کہ شہروں میں بھی قریبی رشتے دار غیرت کے نام پر ماں، بیٹی، بہن، بیوی کو قتل کرنے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ غیرت کے نام پر قتل صرف خواتین کے پسند کی شادی کے حق کو استعمال کرنے پر نہیں ہوتا بلکہ دشمن کو قتل کرنے کے نام پر اپنی عزیزہ کو قتل کرنا ایک آسان نسخہ سمجھا جاتا ہے۔ اگر خاندان کا سربراہ یعنی باپ اپنی بیٹی، بہن، ماں، بیوی کو قتل کرنے کے ساتھ اپنے کسی دشمن کو قتل کر دیتا ہے تو وہ اسے غیرت کا قتل قرار دیتا ہے، اس کا بیٹا اس کو معاف کر دیتا ہے۔ یہی صورتحال کسی اور قریبی عزیز کے قاتل بننے کی صورت میں ہوتی ہے۔

شرمین نے خواتین کی زندگی سے متعلق اس اہم مسئلے کو اپنی ڈاکومنٹری کے ذریعے عالمی منظر نامے پر پیش کر کے پاکستانی ریاست کی فیصلہ ساز مقتدرہ کو جھنجھوڑ دیا۔ شرمین کی مذمت کرنے والے بعض دانشور یہ دلیل دے رہے ہیں کہ برائی کو عام کرنے سے برائی ختم نہیں ہوتی۔ مگر ان کے پاس اس حقیقت کا کوئی جواب نہیں ہے کہ غیرت کے نام پر قتل کا سلسلہ جو صدیوں سے جاری ہے پہلے تو اس کا اخبارات میں ذکر بھی نہیں ہوتا تھا، کیا اس برائی کو چھپا کر رکھنے سے یہ ختم ہو گئی؟ ابلاغ عامہ کے ماہرین کہتے ہیں کہ برائی کے بارے میں حقائق بیان کرنے سے رائے عامہ ہموار ہوتی ہے اور یہ رائے عامہ ہی برائی کو ختم کر سکتی ہے۔

ابلاغ عامہ کی استاد ڈاکٹر آزادی کا کہنا ہے کہ مذہبی جماعتوں کو شاید اقلیتی فرقے سے تعلق رکھنے والی ڈاکٹر نرگس کے کارناموں کا ابھی علم نہیں ہوا، اس لیے ابھی تک نرگس کو امریکا کا ایجنٹ قرار نہیں دیا۔پاکستان کی تاریخ گواہ ہے کہ مذہبی جماعتوں نے ہمیشہ بینظیر بھٹو کی مخالفت کی، جنرل ضیا الحق کے دور میں دائیں بازو کے ایک اخبار نویس نے بینظیر بھٹو اور ان کی والدہ کی کردار کشی کی مہم برسوں جاری رکھی، مگر یہ ساری کوششیں عوام کو بینظیر سے بدظن نہیں کر پائیں اور بینظیر حکومت میں آنے کے بعد اپنی کمزوریوں کے باوجود مقبولیت کے ریکارڈ قائم کرتی رہیں۔

جب مذہبی انتہاپسندوں نے بینظیر بھٹو کو شہید کر دیا تو اب یہ جماعتیں بھی بینظیر کی عظمت کا اقرار کرتی ہیں۔ ڈاکٹر آزادی کا کہنا ہے کہ مذہبی جماعتوں کی جانب سے پنجاب میں خواتین پر تشدد کے خلاف قانون کی مہم کی پس پشت وہی سوچ ہے جو ہر خاتون کی اپنے شعبے میں کامیابی کے بعد ان جماعتوں کی جانب سے نظر آتی ہے۔ ماہرین پنجاب میں خواتین پر گھریلو تشدد روکنے کے بل کو ایک بہتر قانون قرار دیتے ہیں۔ نفسیات کی استاد پروفیسر شاہین احمد قادری کا کہنا ہے کہ مذہبی جماعتیں گھریلو تشدد کے مضمرات کو اہمیت نہیں دیتیں، گھریلو تشدد ایک نسل سے دوسری نسل کو منتقل ہوتا ہے۔

پاکستانی خواتین محنت اور جدوجہد کی علامت ہیں، وہ ہر قسم کے سماجی دباؤ کے خلاف مزاحمت کر رہی ہیں اور مختلف شعبوں میں کامیابیاں حاصل کر رہی ہیں، ان کی کارکردگی کو اب مسلح افواج میں بھی سراہا جا رہا ہے، بری اور بحری فوج کے بعد فضائیہ میں بھی خواتین پائلٹ اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا رہی ہیں۔ خواتین کا کہنا ہے کہ ان جماعتوں کو خواتین کی مسلح افواج میں شمولیت پسند نہیں مگر وہ مصلحت کی بنا پر خاموش ہیں۔ خواتین کا تحفظ کر کے ہی انھیں معاشرے میں متحرک کیا جا سکتا ہے۔ غربت کے خاتمے اور خاندانوں کی ترقی کا عمل تیز ہو سکتا ہے۔ بہرحال خواتین کی کرکٹ ٹیم نے بھارتی ٹیم کو شکست دے کر جو کارنامہ انجام دیا ہے وہ ہر معقول پاکستانی کے لیے فخر کی بات ہے۔

مقبول خبریں