کامیاب ترین ڈرامہ ’دھواں‘ کے بعد باری ہے فلم ’مالک‘ کی

سید عون عباس  منگل 5 اپريل 2016
فلم مالک ان لوگوں کے لئے ایک جواب ہے جو ہمیشہ نظام کی برائی تو کرتے ہیں لیکن وہ کبھی اپنے آپ پر نگاہ نہیں ڈالتے۔

فلم مالک ان لوگوں کے لئے ایک جواب ہے جو ہمیشہ نظام کی برائی تو کرتے ہیں لیکن وہ کبھی اپنے آپ پر نگاہ نہیں ڈالتے۔

چلیں ماضی میں چلتے ہیں، بات ہے سن 1994ء کی جب گلیاں سنسان، محلے ویران اور شہر بھر میں ہو کا عالم ہوا کرتا تھا۔ مانو لوگ کہیں غائب ہوگئے ہوں، نہیں نہیں کرفیو نافذ ہونے کی بات نہیں ہورہی، دراصل معاملہ کچھ یوں تھا کہ عوام گلی، محلے اور شہر کو چھوڑ کر کہیں نہیں جاتے تھے بلکہ یہ سب اپنے اپنے گھروں میں ایک ڈرامے کے شروع ہونے کا انتظار کرتے تھے۔۔۔ جی ہاں قارئین یہ ڈرامہ ابھی شروع بھی نہیں ہوتا تھا کہ امی اپنی جگہ سنبھال لیتی تھیں اور والدِ محترم فوراً ٹی وی کی اوپر لگے انٹینے کی پوزیشن کو سدھارنے کا کام شروع کردے تھے کہ کہیں ڈرامہ شروع ہونے کے بعد کوئی مشکل درپیش نہ آئے، اور تو اور دادی اماں بھی اپنے پان دان کو سرھانے رکھ کر خاموشی سے بیٹھ جاتیں کہ بیچ ڈرامے میں پان اور چھالیہ لینے کے لیے اٹھنا نہ پڑے۔

جب ڈرامہ اتنا خاص ہو تو بھلا اتنا اہتمام کیوں نہ ہو، جس میں نبیل اور عاشر عظیم جیسے اداکار موجود تھے ۔ جی ہاں بالکل آپ ٹھیک ہی سمجھے ہیں، میں یہاں ڈرامہ سیریل ’دھواں‘ ہی کی بات کر رہا ہوں۔ اس ڈرامے کی کہانی پانچ لوگوں کے گرد گھومتی ہے جو معاشرے کی فلاح کی خاطر اس میں موجود کرپشن کے ناسور کو ختم کرنے کی جستجو میں مگن رہتے ہیں۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ عاشر عظیم کی تحریر اور سجاد احمد کی ڈائریکشن کے امتزاج نے اس ڈرامے میں ایسا اثر قائم کیا جو لوگوں کے دلوں میں اتر گیا۔ اِس ڈرامے کے بعد حق تو یہ تھا کہ عاشر عظیم اِسی طرح کے مزید ڈرامے بناتے لیکن اچانک عاشر عظیم کہیں غائب ہوگئے۔ نہ وہ ٹی وی پر نظر آئے نہ ہی اخباروں میں۔

لیکن 22 سال عوام کی خوشی ایک بار پھر اس وقت دوبالا ہوگئی جب ذرائع ابلاغ پر اس بارے میں خبر چلی کہ عاشر عظیم کی تحریر کردہ ایک فلم 8 اپریل کو پاکستان بھر کے سنیما گھروں میں لگنے جا رہی ہے جس کا نام ہے ’مالک‘۔ یہ فلم جذبہ حب الوطنی اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی عکاسی کرتی ہے۔ اس فلم کی کہانی پاکستانی کے سیاسی نظام کے گرد گھومتی ہے۔ پھر سیاسی نظام اور جاگیردارانہ نظام کی چکی میں پسنے والی عام عوام کا استحصال، محبت، وفاداری، غیرت، گھریلو اقدار اور سماجی برائیوں سے عوام کے درمیان رہتے ہوئے مقابلہ کرنا فلم ’مالک‘ کا موضوع ہے۔

اس فلم کی ایک خاص بات یہ بھی ہے کہ اس کی تیاری سے قبل اس فلم کے لکھاری اور ڈائریکٹرعاشر عظیم نے سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر ایک مہم چلائی جس میں عوام سے یہ کہا گیا تھا کہ جو یہ سمجھتا ہے کہ وہ فلم کے پردے پر کام کرسکتا ہے تو وہ اپنی ایک ویڈیو کلپ بھیجے جس کے بعد یہ فیصلہ کیا جائے گا کہ آیا وہ واقعی فلم میں کام کرسکتا ہے یا نہیں۔ مزے کی بات یہ ہے کہ یہ اعلان صرف شوشا یا سستی مقبولیت کے لیے نہیں تھا بلکہ اس پر عمل بھی ہوا اور ہزاروں لوگوں نے اداکاری پر مبنی اپنی ویڈیوز فلم مالک کی ٹیم کو بھیجیں جس میں سے میرٹ پر اچھے اور نئے کرداروں کو چن لیا گیا جنہوں نے اس فلم میں اپنا کردار بھی ادا کیا ہے۔ ساتھ ہی اس فلم میں کام کرنے والوں میں عاشر عظیم، فرحان علی آغا، ساجد حسن، محمد احتشام الدین، حسن نیازی، عدنان شاہ ٹیپو، بشریٰ عاشر عظیم، لبنیٰ اسلم، مریم انصاری اور دیگر شامل ہیں۔

اس فلم میں میجر حیدر کا کردار ادا کرنے والے فرحان علی آغا کہتے ہیں ایس ایس جی کمانڈو کا کردار ادا کرنے کے لئے فوجیوں کے ساتھ وقت گزارا تاکہ ان کے کام اور ان کے طرزِ زندگی کو سمجھنے کا موقع مل سکے۔ فلم کی کہانی لکھنے والے عاشر عظیم کا کہنا ہے کہ مالک فلم ان لوگوں کے لئے ایک جواب ہے جو ہمیشہ نظام کی برائی تو کرتے ہیں لیکن وہ کبھی اپنے آپ پر نگاہ نہیں ڈالتے، کوئی بھی ملک صرف دریا، پہاڑ اور درختوں پر منحصر نہیں ہوتا بلکہ اس کا اصل تو وہ عوام ہوتی ہے جو اس میں رہتے ہیں۔ حب الوطنی کا صرف یہ مطلب نہیں ہے کہ آپ ہوا اور پانی سے محبت کریں بلکہ اس کا مطلب تو یہ ہے کہ آپ ایک دوسرے کے دکھ درد، خوشی غمی میں ایک دوسرے کے ساتھ کاندھے سے کاندھا ملا کر کھڑے ہوں۔ عاشر عظیم نے اپنی اس فلم میں یہی پیغام دیا ہے کہ ہمارے لوگ کسی مسئلے کے حل کے لئے ایک مسیحا کا انتظار کرتے ہیں جو آئے اور ان کے مسائل حل کرے، جبکہ ان کو یہ سمجھنا چاہئے کہ وہ بھی اس ملک پر اتنا حق رکھتے ہیں کہ جتنا کسی اور کا ہوتا ہے کیونکہ ہم ہی پاکستان کے شہری، اس کے مالک اور اس کی بقاء کے حتمی ضامن ہیں۔

اِس فلم کی ایک اور خاص بات یہ بھی ہے کہ پوری فلم کی شوٹنگ پاکستان میں ہوئی ہے، جس میں بلوچستان اور سندھ کو زیادہ حصہ ملا ہے۔ صرف یہی نہیں بلکہ وزیراعلی سندھ ہاوس میں بھی شوٹنگ کی گئی ہے۔ چونکہ اِس فلم میں ایس ایس جی کمانڈوز کا بھی بڑا کردار ہے اِس لیے فلم کی تیاری میں پاکستان آرمی کے شعبہ تعلقات عامہ کے ادارے آئی ایس پی آر کی بھی مدد حاصل رہی ہے۔

پاکستان میں گزشتہ دو سالوں سے فلم انڈسٹری ایک نئے سفر پر گامزن ہے جہاں نہ صرف اچھی کوالٹی کی فلمیں بن رہی ہیں بلکہ لوگوں کو بھی متاثر کرنے میں بہت حد تک کامیاب ہورہی ہیں۔ دو سال پہلے تک ہم شاید یہ سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ پاکستان میں بھارتی فلموں کے مقابلے میں کبھی پاکستانی فلموں کو ترجیح دی جائے گی لیکن یہ سب کچھ اب ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں۔ لیکن چونکہ یہ سب نیا نیا ہے اس لیے اچھی کہانی کی کمی شدت سے محسوس کی جارہی ہے، پھر فلموں کی کامیابی کے لیے غیر ضروری ’آئٹم سانگ‘ کو بھی لازم و ملزوم قرار دے دیا گیا ہے، لیکن مالک کے حوالے سے علم ہوا ہے کہ نہ صرف یہ فلم اچھی کہانی پر مبنی ہے بلکہ غیر ضروری ’آئٹم سانگ‘ کو بھی شامل نہیں کیا گیا ہے۔

تو پھر کیا آپ تیار ہیں پاکستانی کمانڈوز کی جراٗت اور بہادری کے گرد گھومتی کہانی پر مبنی اس فلم کو دیکھنے کے لئے جو 8 اپریل کو ملک بھر کے سنیما گھروں میں نمائش کے لئے پیش کی جائے گی۔

کیا آپ سمجھتے ہیں کہ فلم ’مالک‘ کامیابی کے جھنڈے گاڑھ سکے گی؟

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500  الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع  تعارف کے ساتھ [email protected]  پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس۔
سید عون عباس

سید عون عباس

بلاگر نے جامعہ کراچی سے ابلاغ عامہ اور سیاسیات میں ایم اے کیا۔ اس وقت وفاقی اردو یونیورسٹی سے ابلاغ عامہ میں ایم فل جا ری ہے۔ ریڈیو پاکستان، جامعہ کراچی کے شعبہ تعلقات عامہ سے منسلک رہنے کے علاوہ مختلف اخبارات اور رسالوں میں تحقیقی علمی و ادبی تحریریں لکھتے ہیں۔ ایک کتاب کے مصنف بھی ہیں۔ پیشے کے لحاظ سے صحافی اور ایک نجی چینل سے وابستہ ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔