یوم دستور

عدنان اشرف ایڈووکیٹ  بدھ 13 اپريل 2016
advo786@yahoo.com

[email protected]

اس سال پاکستانی قوم اپنا 43 واں یوم دستور منا رہی ہے۔ موجودہ آئین 10 اپریل 1973ء کو قومی اسمبلی سے پاس ہوا اور 12 اپریل 1973ء کو صدر مملکت کے دستخط کے بعد ملک میں نافذ العمل ہوا۔ 43 ویں یوم دستور کے موقعے پر اخبارات و رسائل  حکمرانوں، ممبران اسمبلی و سینیٹ، سیاست دانوں، قانون دانوں اور دانشوروں کی قوم کو مبارکباد، عزم اور دعوؤں سے بھرے پڑے ہیں۔

اس کی افادیت و اہمیت کو اجاگر کیا جا رہا ہے، اس کی شقوں کو زیر بحث لایا جا رہا ہے، اس کی تدوین و تشکیل کے صبر آزما اور دقت طلب مراحل کو بیان کیا جا رہا ہے اور ان عظیم لوگوں کو خراج تحسین پیش کیا جا رہا ہے جن کی انتھک کوششوں کے نتیجے میں پاکستان کو استحکام بخشنے والا آئین ملا۔ بلا شبہ 1973ء کا متفقہ آئین ہماری پارلیمانی تاریخ کا ایک بڑا کارنامہ ہے، اس آئین میں جمہوریت، مساوات، رواداری، شخصی آزادی، اسلامی معاشرے کے قیام، اقلیتوں سے مساوی سلوک، بنیادی انسانی حقوق وغیرہ کی ضمانت فراہم کی گئی ہے اور خود دستور کے تحفظ کی شق بھی شامل کی گئی ہے لیکن کیا خود حکمرانوں، سیاست دانوں، قانون سازوں نے اس دستور پر عمل کیا؟ قطعی نہیں اس آئین کو بار بار مسخ کیا گیا۔

اس میں سیاسی و ذاتی مفادات کے تحت ترامیم اور قانون سازی کی گئی۔ اس کی توہین و تضحیک کی گئی، طاقت کے زور پر منہ چڑایا گیا اور اس کو ختم کرنے کی کوشش بھی کی جا رہی ہیں۔ اس آئین کی منظوری کے وقت اس کے خالق ذوالفقار علی بھٹو نے کہا تھا کہ ’’کیا یہ آئین اپنے طور پر قائم رہنے کی صلاحیت رکھتا ہے؟ اس کے قابل حیات ہونے کا دار و مدار عوام کے ہاتھ میں ہے، عوام کے شعور سے ممکن ہے اور اپنے مسائل کو سمجھنے پر ہے۔‘‘

بھٹو چونکہ پاکستان کے سابق دساتیر کا حشر نشر دیکھ چکے تھے اس لیے انھوں نے بجا طور پر 1973ء کے دستور کی حکمرانی، بقا اور تحفظ کو عوام کے شعور سے مشروط قرار دیا تھا۔ جو حرف بہ حرف صحیح نظر آتا ہے۔ آج سیاسی کشمکش، توڑ جوڑ، مفادات کی سیاست اور پروپیگنڈا وار میں بے خبر عوام جمہوریت اور آئین دونوں سے بیزار نظر آتے ہیں اور آمریت کو اچھا سمجھتے ہیں، حکمرانوں اور سیاست دانوں نے کردار نے عوام کو جمہوریت سے بدظن کر دیا ہے یہاں تک کہ وہ آئین کی اہمیت و افادیت کو بھی بھلا بیٹھے ہیں، جو ان کے حقوق کا ضامن ہے اگر اس ہفتے کی چند اہم خبروں پر ہی نظر ڈالیں تو ہمیں اندازہ ہو جائے گا کہ اس ملک میں آئین و قانون کی کس قدر پاسداری ہے۔

ایک خبر ہے کہ پی پی پی کے رکن سندھ اسمبلی کا استحقاق مجروح کرنے پر شہداد پور انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز کے بورڈ آف گورنرز کے وائس چیئرمین اور گریڈ 20 کے ڈاکٹر عبدالحمید چھٹو کو ایک ہفتے کی علامتی قید اور پانچ ہزار روپے جرمانہ کی سزا دی جائے گی، کمیٹی نے یہ بھی سفارش کی کہ مذکورہ ڈاکٹر کو کسی قسم کی تقرری نہ دی جائے کیوں کہ ان کا رویہ متکبرانہ ہے اور وہ سرکاری ملازمت کے لیے موزوں نہیں ہیں۔

ڈاکٹر عبدالحمید نے کمیٹی کے سامنے اپنے بیان میں کہا ہے کہ انھیں میرٹ سے ہٹ کر بھرتیاں کرنے کے لیے ایک فہرست دی گئی تھی انھوں نے یہ بھرتیاں کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ اس خبر سے محسوس ہوتا ہے کہ ارکان اسمبلی نے ہر جائز و ناجائز کو اپنا حق ٹھہرا لیا ہے ان کی کمیٹی نے ایک ایماندار اور فرض شناس افسر کو بے ایمانی نہ کرنے پر متکبر قرار دے کر سرکاری ملازمت کے لیے غیر موزوں اور کسی قسم کی تقرری نہ دینے کی سفارش کی ہے حالانکہ یہ شخص سرکاری ملازمت کے لیے انتہائی موزوں اور قابل ستائش ہے پھر کمیٹی کو یہ اختیار کس نے دیا کہ مذکورہ ڈاکٹر کو ایک ہفتے کی علامتی قید دے یا پانچ ہزار روپے کا جرمانے کی سزا سنائے؟

جب قانون ساز اسمبلی کے ارکان اس ڈگر پر چلیں گے تو آئین و قانون کی بالادستی کیونکر ممکن ہو گی؟دوسری خبر یہ ہے کہ جماعت الدعوۃ ملک میں اپنی عدالت چلا رہی ہے لوگوں کو نوٹسز جاری اور فیصلے کیے جا رہے ہیں، لاہور میں اس کا دارالقضا شریعت قائم ہے یہ جماعت وزارت داخلہ کی واچ لسٹ پر ہے لیکن محسوس ہوتا ہے کہ اس کی سرگرمیوں کی نگرانی کرنے والا کوئی نہیں ہے، خبر کے مطابق اس بات کا انکشاف ایک شخص خالد کی شکایت کرنے پر سامنے آیا کہ اسے نوٹس کے ذریعے عدالت میں پیش ہونے کا کہا گیا ہے جس پر وفاقی شرعی عدالت نے لکھا ہوا ہے کہ اس شخص کے مطابق اسے فون پر دھمکی بھی دی گئی ہے کہ عدالت میں پیش نہ ہونے کی صورت میں اسے دفتر سے اٹھا لیا جائے گا۔

اس نے چیف جسٹس، چیف آف آرمی اسٹاف، وزیراعظم سمیت ہر جگہ درخواستیں دیں ہیں چیف جسٹس کی جانب سے متعلقہ تھانے کو کارروائی کی ہدایت کی گئی ہے صوبائی وزیر قانون نے DIG کو غیر قانونی عدالت بنانے کی تحقیقات کی ہدایت کی ہے اور یقین دہانی کرائی ہے کہ اگر خبر درست ہوئی تو ذمے داروں کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے گی جماعت الدعوۃ کی جانب سے اس بات کی تردید کی گئی ہے کہ ان کی کوئی شرعی عدالت ہے، علما کا ثالثی پینل ہے جو لوگ قرآن و سنت کیمطابق فتوے لینے آتے ہیں ان کی راہنمائی کی جاتی ہے جو فریقین کی باہمی رضامندی سے کی جاتی ہے۔

جس کی کوئی فیس ہے نہ یہ متوازی عدالت ہے، میڈیا پر جو سمن دکھائے جا رہے ہیں جعلی ہیں۔تیسری خبر یہ ہے کہ ساہیوال کے کسان ارشاد نے تھانہ میں شکایت درج کرائی کہ دھنیا کاٹ کر منڈی میں فروخت کے لیے لے جا رہا تھا کہ راستے میں افضل نامی شخص نے پستول دکھا کر دھنیا چھین لیا جس کی مالیت ہزار روپے ہے پولیس نے ملزم سے ایک ہزار روپے برآمد کیے کوئی پستول برآمد نہیں کیا مقدمہ درج کر کے ملزم کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے بھیج دیا۔ ایک سال سے جیل میں قید اس شخص کی ضمانت مسترد ہوتی رہی گزشتہ ہفتے سپریم کورٹ سے اس کی ضمانت ہوئی جس پر سپریم کورٹ نے حیرت اور غصے کا اظہار کیا۔

پولیس بڑی بڑی وارداتوں کی ایف ائی آر تو درج نہیں کرتی لیکن ہزار روپے کا دھنیا چھیننے پر مقدمہ درج کر لیتی ہے اور مورد الزام شخص سال بھر جیل میں پڑا رہتا ہے جس کو ضمانت بھی نصیب نہیں ہوتی۔ پولیس کا یہ رویہ اور عدالتوں کے صبر آزما مراحل ہی عوام کو مجبور کرتے ہیں کہ جرگوں، پنچائیت، کمیٹیوں، پولیس، غنڈوں اور رشوت کے ذریعے اپنے مسائل حل کروائیں یا قانون کو اپنے ہاتھوں میں لے کر انصاف یا انتقام لیں، روایتی جرگے اور پنچائیت کمیٹیاں بلاشبہ بہت سے معاملات احسن طریقے سے حل بھی کرتی ہیں لیکن شعور و آگہی اور قانون و دانش کی کمی کی وجہ سے یا بااثر افراد کے زیر تسلط ہونے کی وجہ سے انصاف کا خون بھی کر ڈالتی ہیں جس کی وجہ سے ظلم و نا انصافی کے نئے باب کھلتے ہیں جن کی روح فرسا خبریں میڈیا میں آتی رہتی ہیں۔

انصاف، صحت اور تعلیم وہ بنیادی سہولیات ہیں جن کی ذمے داری آئینی طور پر ریاست کے کاندھوں پر آتی ہے جب ریاست اپنے فرائض پورا کرنے میں ناکام رہے تو جرگہ، پنچائیت کمیٹیاں، عطائی ڈاکٹر، پیشہ ور تعلیمی ادارے و مدارس ظہور پذیر ہوتے ہیں بلکہ ضروری ہوتے ہیں ملک کے کروڑوں افراد کو اس قسم کے ادارے صحیح یا غلط سستی خدمات مہیا کر رہے ہیں۔ ان کے مضمرات سے اس وقت بچا جا سکتا ہے جب کہ ریاست کم از کم انصاف، صحت اور تعلیم جیسی بنیادی آئینی سہولیات تو عوام کو فراہم کرے لیکن اس کے لیے جیسا کہ ذوالفقارعلی بھٹو نے کہا تھا کہ عوام کو اپنے اندر شعور اور اپنے مسائل کو سمجھنے کی صلاحیت اور جد وجہد پیدا کرنا ہو گی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔