منجمدمعاشرے
اس کی تصنیف شدہ کتابیں ہر اسپتال میں پڑھائی جاتی تھیں۔ طب کے اندرحرفِ آخر قراردیاجاتاتھا
ہمارامعاشرہ مکمل جمود کا شکار ہے۔ روایتیں، قصے،کہانیاں،داستانیں اورافسانوی باتوں کی خوراک پر زندہ رہنے والاخودروجنگل۔مسئلہ یہ نہیںکہ بیس کروڑ شہریوں میں لائق یاذہین دماغ نہیں۔نکتہ یہ ہے کہ "سوال"کی اجازت سے ہرکوئی محروم کردیا گیا ہے۔ مجھے اب بہتری کی کوئی صورت نظرنہیں آتی۔ ہم دائروں میں چکرلگانے والے بیل بن چکے ہیں۔ کوئی بھی ہلکی سی نئی بات کہنے کامتحمل نہیں ہوسکتا۔
مسلمان معاشرے چندصدیاں قبل انتہائی غیرروائتی اورترقی پسندتھے۔کوئی نئی سوچ پرکفرکافتویٰ صادرنہیں کر سکتاتھا۔ایسے لگتاہے کہ ماضی کے اندلس،شام اور ایران آج کے دورکے امریکا یامغربی یورپ کے برابر تھے۔ مسلمانوںکے اس آزادماحول میں بے مثال سائنسدانوں، مفکرین، فلسفی اورعلمی اکابرین نے جنم لیا اور دنیاکونئی نئی ایجادات اورخیالات سے روشن کیا۔
ابن النفس دمشق کارہنے والاتھا۔صرف آٹھ سوسال پہلے کی بات ہے۔اپنے علاقے کے ایک مطب میں جسے "نوری"کہاجاتاتھا،طب کی ابتدائی تعلیم حاصل کی۔پیچیدہ سے پیچیدہ امراض کوٹھیک کردیتاتھا۔شخص میں حیرت انگیزصلاحیتیں تھیں۔طب کی دنیامیں آٹھ صدیاں قبل صرف ایک محترم نام تھااوروہ گیلن (Galan) کا تھا۔ گیلن اپنے وقت کا بااثر ترین فلسفی،محقق اورڈاکٹرتھا۔
اس کی تصنیف شدہ کتابیں ہر اسپتال میں پڑھائی جاتی تھیں۔ طب کے اندرحرفِ آخر قراردیاجاتاتھا۔مگرابن النفس نے علم،تحقیق اورتجربہ کی بنیاد پرگیلن کومکمل طورپرغلط ثابت کردیا۔گیلن کاکہناتھاکہ انسانی دل میں خون دائیں طرف سے بائیں طرف نظرنہ آنے والے سوراخوں کے ذریعے سفرکرتاہے اوراس طرح انسان کوبہترصاف خون دستیاب ہوتاہے۔النفس نے گیلن سے بالکل مختلف بات کی۔ انسانی دل کے مختلف حصے بتائے،انکو نام دیے۔دل اور پھیپڑوں کے ربط کوواضح کیا۔ثابت کیاکہ دل کے بائیں حصے میں صاف خون موجودہوتاہے اوروہ انسان کوزندہ رکھتاہے۔اس کی تحقیق آج تک قائم ودائم ہے۔ آج کی اَناٹومی میں دوران خون کاپورانظام دریافت کرنے کا سہرااس مسلمان سائنسدان کوجاتاہے۔سب سے اہم بات یہ ہے کہ اس وقت کسی نے اسے مذہبی حوالے سے خراب نہیں کہا۔
اب اَل بتانی کی طرف آئیے۔مجھے یقین ہے کہ اَل نفس کی طرح کسی نے بھی اسکانام نہیں سنا ہوگا۔ یا شائد چند لوگوںکے علم میں ہوگا۔عرفہ میں پیداہونے والا سائنسدان۔اپنی تمام عمر"رقہ"میں گزاردی۔"رقہ"وہی شہر ہے جوآج کل داعش کادارلخلافہ گردانا جاتا ہے۔ مگر سیکڑوں سال پہلے والااَل بتانی کے"رقہ"کاتشددسے کوئی تعلق نہیں تھا۔اَل بتانی کا "رقہ" تو تحقیق،علم اورتجسس کا دارالخلافہ تھا۔عظیم سائنسدان نے سیکڑوں برس پہلے، سال کو365دنوں پر تقسیم کیا۔ایک شمسی سال میں 365دن، 5گھنٹے، 46منٹ اور 24سیکنڈکاوقت ترتیب دیا۔بیسویں اوراکیسویں صدی میں اس تحقیق میں صرف2منٹ اور22سیکنڈکافرق نکلا۔اَل بتانی نے حساب میں Tangents اورSinesکومتعارف کروایا۔اس عظیم سائنسدان نے کاپرنیشیس (Copernecious)کے کام کوبھی بہت بہتراور مستند کیا۔ تمام سائنسدانوں نے اَل بتانی کوسائنس اورفلکیات کاجدِامجدقراردیا۔
فزکس میں سنیل لا(Snell Law)سب نے پڑھا ہوگا۔یہ بنیادی طورپرشیشوں پرروشنی کے سفرکے متعلق ایک قانون کا درجہ رکھتا ہے۔ آج کی تمام کتابوں میں Refractionکے قانون کااصل موجدابن سہل تھا۔عباسی دورمیں بغدادمیں رہنے والا یہ سائنسدان بلاکاذہین انسان تھا۔اس نے سب سے پہلے روشنی کے سفر،اس کی طاقت اور شیشوںکے درمیان ربط کو ظاہر کیا۔ ثابت کیاکہ روشنی کوایک خاص جگہ پر مرکوز کیا جاسکتا ہے۔ سیدھے سادے شیشوں کے بجائے Curved شیشوں کا کلیہ دیا۔
میرے پاس مسلمان سائنسدانوں کی ایک طویل فہرست ہے۔جنہوں نے کمال کارنامے سرانجام دیے ہیں۔مگر کالم کامقصدقطعاًیہ نہیں ہے کہ یہ ثابت کر دکھاؤں کہ مسلمان سائنسدانوں نے آج کے علمی ذخیرہ کی بنیادرکھی تھی۔یہ بات تواپنی جگہ بالکل درست ہے۔ مگرمیرانکتہ یہ ہے کہ مسلمان معاشروں کوجوفکری آزادی ایک ہزارسال پہلے حاصل تھی،وہ آج بالکل موجود نہیں ہے۔میں نے کوئی ایسی کتاب نہیں پڑھی جس میں بغیرحجاب پہننے والی خواتین کوغیرمسلم قرار دیدیا گیا ہو۔
میں نے کوئی ایسی سطرنہیں پڑھی،جس میں نئے نئے تجربات، دلیل اورمنطق کے زاویے سے کیے گئے مشکل کام کرنے والوں کومذہب کے خلاف قرار دیا گیاہو۔میں نے یہ بحث ہی نہیں دیکھی کہ سائنس اورہمارے عظیم دین میں کوئی تضادہے۔آج کل کے نیم خواندہ رہنماؤں اور تفرقہ کی بنیادپردکان چلانے والے مذہبی علماء کااس زمانے میں کوئی وجودہی نہیں تھا۔پورے کاپورادین جدت پسندی کے ساتھ موجود تھا۔ پوری دنیاکے لیے قابل تقلید تھے۔ علمی، فکری اور انتظامی لحاظ سے پوری دنیاپرحکومت کررہے تھے۔ اصل میں ہم ایک ہزارسال پہلے زندہ تھے۔اب تعداد کے لحاظ سے ایک ارب سے زیادہ ہونے کے باوجودبھی ہم منجمد معاشرے ہیں!مکمل طورپرگھٹن کاشکار!