بالی وڈ سٹارز بھی آرٹ فلم میں کام کرنا پسند کرتے ہیں

بھارتی سنیئر اداکار اوم پوری کی نیشنل سکول آف آرٹس کی ورکشاپ میں گفتگو


April 19, 2016
بھارتی سنیئر اداکار اوم پوری کی نیشنل سکول آف آرٹس کی ورکشاپ میں گفتگو ۔ فوٹو : فائل

KARACHI: اوم پوری بولی وڈ انڈسٹری کا ایک بڑا نام ہے ، جن کی جاندار اداکاری کی ایک دنیا فین ہے ۔ انہوں نے بولی وڈ ہی نہیں ہولی وڈ کی بھی بہت سی سپرہٹ فلموں میں کام کیا۔ کچھ عرصہ قبل انہوں نے پاکستانی فلم ''ایکٹر ان لاء'' سائن کی جس کی شوٹنگ کے لئے پچھلے دنوں کراچی آئے ہوئے تھے ۔اس دوران انہوں نے کراچی میں نیشنل اسکول آف آرٹس کی تقریب میں بھی شرکت کی۔

معروف ہندوستانی اداکار اوم پوری رواں برس کراچی تشریف لائے تھے اور انہوں نے نیشنل اکیڈمی آف پرفارمنگ آرٹس کے طلبا سے ورکشاپ میں گفتگو بھی کی، ہر چند کہ وہ اپنی ایک زیرتکمیل فلم کی عکس بندی کی غرض سے کراچی میں موجود تھے، حسن اتفاق ان دنوں یہاں تھیٹر فیسٹیول بھی جاری تھا، تو ان کو بھی ورکشاپ میں طلبا سے مخاطب ہونے کی دعوت دی گئی۔

اوم پوری پانچ مرتبہ پاکستان آچکے ہیں اور پہلی بار ''کارا فلم فیسٹیول'' کے سلسلے میں کراچی تشریف لائے تھے، انہوں نے پاکستانیوں کی مہمان نوازی کے متعلق اپنے جذبات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ میں پاکستان آئے بغیر بھی گزشتہ کئی برس سے بیرون ملک پاکستانیوں سے ملتا رہا ہوں۔ دیار غیر میں جب کسی پاکستانی ریستوران کی تعریف سنی، تو کھانا کھانے چلے گئے، دوران سفر ٹیکسی میں بیٹھ گئے، یا کوئی اور ہی ایسا موقع بنا، تو اگر وہ پاکستانی ہیں، تو مجھے مہمان کا درجہ ملتا اور مجھ سے پیسے نہیں لیے جاتے تھے۔

بولی وڈ سٹار اوم پوری نے طلباء کو اپنی جدوجہد اور کسی بھی اداکار کی فنی ریاضت کو بیان کرنے کی غرض سے اپنی انگریزی فلم ''سٹی آف جوائے'' کے چند منظر دکھائے اور پھر اسی تناظر میں اظہارخیال کرتے ہوئے کہا۔ ''یہ فلم 1999 میں بنی۔ کلکتے میں 3 مہینے تک مسلسل گلیوں، سڑکوں اوربازاروں میں اس فلم کی عکس بندی ہوئی۔

اس فلم میں نبھائے جانے والے کردار میں جان ڈالنے کے لیے حقیقی طور پر رکشہ چلانا سیکھا۔ ان دنوں میں حلیہ بدل کر کلکتے میں کئی کئی گھنٹے سائیکل رکشہ چلاتا اور صرف ایک کپ چائے پینے کا وقفہ لیا کرتا تھا، اسی حلیے میں ایک بار سیتاجیت رے کے گھر پہنچا اور چوکیدار سے کہا، ان کو اطلاع کرو، میں آیا ہوں، وہ مجھے جانتے ہیں، انہوں نے مجھے بلایا ہے۔ اس پر چوکیدار نے مجھے ڈانٹ پلا کر بھگا دیا، کیونکہ اس کو لگا کہ میں تو سائیکل رکشہ چلانے والا ہوں، وہ مجھے کیسے جانتے ہوں گے، شاید میں جھوٹ بول رہا ہوں۔

اوم پوری صاحب نے اداکاری کے شعبے کی طرف آنے اور زمانہ طالب علمی کے بارے میں دلچسپ گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ میں جب اسکول میں پڑھتا تھا، تو اس وقت سے میری دلچسپیاں مختلف شعبوں میں تھیں، خاص طور پر کھیلوں میں بہت سرگرم تھا، کبڈی کا کھلاڑی تھا، ہاکی کا کھیل مجھے بہت پسند تھا۔ اسی عرصے میں اسکول میں بننے والے دو مختصر ڈراموں میں بھی مجھے اداکاری کرنے کا موقع ملا، جس سے اداکاری کی طرف رجحان ہوا۔

ایک مرتبہ یوتھ فیسٹیول ہورہا تھا، اس میں جو ججز تھے، ان میں سے ایک جج کا تعلق نیشنل اسکول آف ڈراما سے تھا۔ فیسٹیول میں پہلا انعام حاصل کیا تھا، اس جج نے مجھے نیشنل اسکول آف ڈراما میں آنے کی پیشکش کی، مگر میں نے انکار کردیا، وجہ یہ تھی کہ میں اس وقت پڑھائی کے اخراجات پورے کرنے کے لیے کہیں ملازمت کرتا تھا۔ انہوں نے میری مالی معاونت کی اور یوں میں تھیٹر کی طرف آیا۔

یہ وہ وقت ہے جب تھیٹر میں دور دور تک بالخصوص پنجاب میں پیسے دینے کا رواج نہیں تھا، میں ہریانہ میں تھا، یہاں بھی وہی فضا تھی، مگر پھر راستہ بنتا چلا گیا۔ میں نے ترجمہ کیے ہوئے اور ماخوذ کردہ ڈراموں میں کام کیا، پنجابی ڈراموں میں کام کرنے کا موقع ملا۔ تھیٹر سے وابستگی ہوئی۔ ڈراموں میں کام کر کے میرے جذبات کی اخراج ہوتا تھا۔ ان ڈراموں سے ملنے والی داد مجھ میں نشے کی طرح سرایت کر گئی تھی، اسی لیے مستقل طور پر تھیٹر کی طرف لوٹ آیا، مجھے سرکاری نوکری بھی ملی، میں نے اس کو بھی چھوڑ دیا اور آخرکار وہیں پہنچا، جہاں کا خمیر تھا۔

ہندوستان میں 'نیشنل اکیڈمی آف ڈراما' تھیٹر کا ایک معتبر تعلیمی ادارہ ہے، وہاں کی یادوں اور فلم صنعت کی مختلف شخصیات سے دوستی کا تذکرہ کرتے ہوئے کہنے لگے کہ ''میں نے نیشنل اکیڈمی آف ڈراما میں باقاعدہ تربیت حاصل کی۔ نصیرالدین شاہ میرے ہم جماعت تھے۔ ہم نے تھیٹر کی تربیت ایک ساتھ حاصل کی، آج بھی ہم بہترین دوست ہیں۔ شبانہ اعظمی نے میری اورنصیر کی ایک پرانی تصویر کو دیکھتے ہوئے ایک عرصے کے بعد مجھ سے کہا ''تم دونوں کی ہمت کیسے ہوئی بمبئی آنے کی؟'' میں کبھی کسی پروڈیوسر سے کام مانگنے نہیں گیا، تین سال نیشنل اسکول آف ڈراما اور دو سال فلم انسٹیٹیوٹ میں پڑھا تھا،اسی بھروسے پر امید لگائی کہ کام ملے گا اور پھر مل بھی گیا۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ میں نے اداکاری پڑھائی تو میری پہلی کلاس میں انیل کپور، گلشن گروور جیسے طالب علم تھے، انیل کپور بہت سوال پوچھتا تھا، میں بھی اس کو جوابات دیتا رہتا تھا،اس کا مجھے اس وقت یہ فائدہ ہوتا تھا کہ مجھے چائے کے پیسے نہیں دینے پڑتے تھے۔

بولی وڈ میں آرٹ سینما کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ اب وہاں کے سپر اسٹارز بھی آرٹ فلموں میں کام کرنا پسند کرتے ہیں، کیوں کہ ان کو اندازہ ہو گیا ہے کہ کمرشل سینما میں کام کرنے والوں کو سنجیدگی سے اداکار نہیں سمجھا جاتا تو اس لیے وہ اپنا مقام حاصل کرنے کے لیے آرٹ سینما میں کام کرنے کے خواہش مند ہیں اور اب خوشی سے کرتے ہیں۔

بومن ایرانی، ونود چوپڑا، عامر خان اور دیگر اچھی فلمیں بناتے ہیں اور اس طرح کا کام بھی کرنا پسند کرتے ہیں، حالانکہ اب کمرشل سینما میں بھی اچھی فلمیں بن رہی ہیں، مگر جیسے اب مضافاتی علاقوں میں رہنے والے لوگ ان کے لیے کوئی فلم نہیں بنا رہا، ایسے بہت سارے موضوعات ہیں، جن پر کام نہیں ہو رہا، آرٹ سینما اس کمی کو پورا کرتا تھا۔

اوم پوری نے آرٹ سینما کو زندہ رکھنے کے لیے کچھ مشورے دیے اور اپنے تجربات بھی حاضرین کو بتائے کہ ہندوستان میں نیشنل فلم ڈوویلپمنٹ کارپوریشن کے پاس کم از کم دس فلمیں بنی پڑی ہیں، جو آرٹ سینما کے زمرے میں آتی ہیں، آج کے حالات کی منظر کشی کرتی ہیں۔ میں نے کہا، ان فلموں کو آزاد ڈسٹری بیوٹر نہیں لے گا، مگر آپ کے پاس ایک ذریعہ دور درشن ٹی وی ہے جس پر دکھائی جاسکتی ہیں۔ یہ واحد ذریعہ ہے جس کے ذریعے پورے ہندوستان میں یہ فلمیں دکھائی جاسکتی ہیں۔

مقبول خبریں