ڈاکو بھائی کو ایک عرضی

من کہ مسمی للّو پرشاد یہ اعتراف کرنے میں کوئی عار نہیں سمجھتا کہ مجھے ڈاکو بننے کا شوق بچپن سے تھا۔


شکیل صدیقی April 24, 2016

من کہ مسمی للّو پرشاد یہ اعتراف کرنے میں کوئی عار نہیں سمجھتا کہ مجھے ڈاکو بننے کا شوق بچپن سے تھا۔ ڈاکو ایک عدد گھوڑے کی پیٹھ پر بیٹھتا، منہ پر ڈھاٹا باندھتا ہے اور اپنی راہ میں آنے والی ہر رکاوٹ کو طاقت کے ذریعے ختم کردیتا ہے۔ پیسے بچا کر میں نے ایک ائیر گن بھی خرید لی تھی، تاکہ بچوں کو ڈرایا جاسکے۔ یوں محلے میں میری دھاک بیٹھ گئی اور بچے واقعی مجھے ڈاکو سمجھنے لگے۔ میرے دوستوں کا کہنا تھا کہ انھیں بھی حصہ ملنا چاہیے۔ میں اپنے محلے میں تو ڈاکہ نہیں مار سکتا تھا، لہٰذا دوسرے محلوں میں چلا جاتا تھا اور پوری معلومات حاصل کرنے کے بعد ہی ہاتھ مارتا تھا۔

یوں میں ادنیٰ پیمانے کا ایک ڈاکو بن گیا۔ مگر کچھ بچتا نہیں ہے۔ تھانے والے لے جاتے ہیں اور ان کے ادلی۔ یعنی اگر کوئی یہ سمجھ لے ڈاکے ڈالنے سے میرے حالات درست ہوسکتے ہیں تو یہ اس کی غلط فہمی ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ ڈاکو ہلاک نہیں ہوتے، البتہ جب قانون کے رکھوالوں سے ان کی اٹی شٹی ختم ہوجاتی ہے یا یہ کہ ڈاکو اپنے پاؤں پر کھڑا ہوجاتا ہے اور طاقت حاصل کرنے کے لیے اپنا گروپ بنانے لگتا ہے۔

یقیناً آپ کا دل بھی چاہتا ہوگا کہ ڈاکو بن جائیں اور دس بارہ بینک لوٹ لیں۔ پولیس کو اس کا حصہ دے کر سوئٹزرلینڈ چلے جائیں اور پھر کبھی واپس نہ آئیں۔ وہاں دنیا کے نام گرامی بدمعاش، غنڈے بھرے ہیں، لیکن پولیس انھیں کچھ نہیں کہتی۔

گزشتہ دنوں ایک دلچسپ واقعہ ہوگیا۔ مجھے بالغ جان کر میری والدہ کو میرے ہاتھ پیلے کرنے کی فکر ہوگئی۔ وہ رشتہ لے کر اپنے واقف کاروں میں گئیں۔ ان کی آؤبھگت ہوئی۔ لڑکی والوں نے پوچھا کہ آپ کا لڑکا کیا کرتا ہے؟ تو ان کے منہ سے بے ساختہ نکل گیا کہ ڈاکو ہے اور ڈاکے ڈالتا ہے، اچھی آمدنی ہے۔

لڑکی کی ماں سناٹے میں رہ گئی۔ اس کے منہ سے ایک بھی لفظ نہیں نکلا۔

میری والدہ کا خیال تھا کہ انھوں نے کوئی غلطی نہیں کی۔ انھوں نے سمجھانے والے انداز میں کہا ''راج کرے گی تمہاری لڑکی، راج۔ حقیقت تو میں نے تمہیں بتادی ورنہ میں کہہ دیتی ہوں کہ امپورٹ ایکسپورٹ کرتا ہے، یعنی مال گھر لایا پھر اچھے داموں سے اسے ٹھکانے لگادیا۔ کچھ ہم رکھ بھی لیتے ہیں۔ یہ جو سونے کا سیٹ تم میرے گلے میں دیکھ رہی ہو امپورٹیڈ ہے۔''

''ایں! مگر اس کی مالکہ نے دیکھ لیا تو؟''

''کچھ نہیں ہوگا، اس لیے کہ للّو پرشاد کراچی جاکر اس میں تبدیلیاں کرا لایا تھا۔ دلہن کو تو سونے سے لاد دے گا۔''

''دو روز بعد جواب دیں گے۔'' لڑکی کی ماں نے کہا۔

والدہ واپس آگئیں۔ دو روز بعد ادھر سے نفی میں جواب آیا۔ اس وقت مجھ پر شدید ردعمل ہوا۔ گویا معاشرتی طور پر ڈاکو کو اچھی نظروں سے نہیں دیکھتے اور حد ہے کہ اپنی لڑکی کا رشتہ تک دینا ہمیں گوارا نہیں ہوتا۔

جب ڈاکو بننا ہی ٹھہرا تو باقاعدہ کچھ کرنا چاہیے۔ اگر میں کسی بڑے گروہ میں شامل ہوجاؤں تو میرے پاؤں مضبوط ہوجائیں گے۔ میرے علاقے میں طارق سولنگی کی دھوم تھی۔ چنانچہ میں نے اسے عرضی لکھی:

عالی جناب! میرے نام اور کارناموں سے ممکن ہے آپ کماحقہ واقف نہ ہوں مگر میں پورے اعتماد کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ آپ کے گروہ میں شامل ہونے کے بعد اہمیت اختیار کرجاؤں گا۔ اس لیے کہ میں تعلیم یافتہ ہوں۔ میرے پاس میٹرک کا سر ٹیفکیٹ ہے، جو بالکل اصلی ہے۔ حالانکہ میرے دوستوں نے مشورہ دیا تھا کہ اگر میں کچھ روز صبر کرلوں تو ڈگری بھی دلوا سکتے ہیں، ان کے بورڈ میں اچھے تعلقات ہیں۔ بس کچھ خرچہ کرنا پڑے گا۔ میں نے اس سے انکار کردیا۔ جعلی کام تھا۔ پھر یہ کہ مجھے کوئی سرکاری کلرک تھوڑا ہی بننا تھا۔

ممکن ہے میٹرک کا سن کر آپ میرا مذاق اڑائیں۔ لیکن آپ کو کسی مرحلے پر اس کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی کہ آپ کی جمع شدہ دولت کا حساب بھی رکھا جائے؟ اگر نہیں رکھیں گے تو اس میں گھپلا ہوسکتا ہے۔ میں انگریزی میں خط و کتابت بھی کرسکتا ہوں۔ حالانکہ اس کی کوئی ضرورت نہیں پڑے گی، اس لیے کہ علاقے کے تھانے دار اور اس کے عملے کو تو اردو بھی اچھی طرح سے نہیں آتی۔

تعلیم یافتہ ہونے کا یہ مطلب نہیں ہے میں آپ کے ساتھ کسی مہم پر نہیں جاؤں گا۔ مہم جوئی کا تو مجھے بچپن ہی سے شوق ہے۔ دراصل ڈاکہ ڈالنے اور چھیننے کا جذبہ اس لیے پیدا ہوا کہ میں ایک بار اپنی مٹھی میں دس کا نوٹ دبائے کھڑا تھا کہ کسی طرح سے فلم کا ٹکٹ حاصل کرلوں کہ کسی نامعلوم سمت سے ایک لڑکا آیا اور دس روپے کا نوٹ چھین کر رفو چکر ہوگیا۔ بس اس روز سے میں نے تہیہ کرلیا کہ میں پیسے جمع نہیں کروں گا بلکہ چھین لیا کروں گا۔ اس میں کافی کامیابی ہوئی۔ میں بڑا تو نہیں البتہ چھوٹا موٹا ڈاکو ضرور ہوں۔ مجھے اپنے گروہ میں شامل کرلیں اور ثواب دارین حاصل کریں۔

والسلام
للو پرشاد

مقبول خبریں