ایک متنازعہ سزائے موت

جماعت اسلامی مذہب کے حوالے سے جو نظریات رکھتی ہے، اس سے بے شمار لوگ سخت اختلاف رکھتے ہیں


Zaheer Akhter Bedari May 21, 2016
[email protected]

DUNEDIN: بنگلہ دیش میں جماعت اسلامی کے 73 سالہ امیر مطیع الرحمٰن کو 1971ء میں قتل و غارت جیسے الزامات کے تحت پھانسی کی سزا دے دی گئی۔ کسی بھی ملک کے عدالتی نظام میں جرم ثابت ہونے پر سزائیں دی جاتی ہیں، جن میں سزائے موت بھی شامل ہے۔ مطیع الرحمٰن کی سزا سے پہلے بھی جماعت اسلامی کے بعض رہنماؤں کو ان ہی الزامات کے تحت ماضی قریب میں سزائے موت دی گئی ہے۔

جماعت اسلامی مذہب کے حوالے سے جو نظریات رکھتی ہے، اس سے بے شمار لوگ سخت اختلاف رکھتے ہیں اور اس پر یہ الزام لگاتے ہیں کہ وہ دنیا کے تیزی سے بدلتے ہوئے معاشرتی منظر نامے پر نظر ڈالے بغیر ماضی کو حال پر مسلط کرنے کی سیاست کرتی ہے، جو عوام کے مستقبل اور عوام کے اجتماعی مفادات کے خلاف ہے۔ ہمیں بھی جماعت اسلامی سے نظریاتی اختلافات ہیں لیکن اس کے ساتھ ہونے والی کسی سنگین زیادتی پر اس لیے خاموش رہنا کہ وہ ہماری نظریاتی مخالف ہے ایک اخلاقی ناانصافی ہی کہلا سکتی ہے۔

1971ء متحدہ پاکستان کی ٹوٹ پھوٹ اور دولخت ہونے کا سال ہے، 1971ء کو بنگلہ دیش میں آزادی کے سال کے طور پر منایا جاتا ہے تو پاکستان میں اس سال کو پاکستان کے دولخت ہونے کے طور پر منایا جاتا ہے۔

نقطہ نظر کا یہ اختلاف جماعت اسلامی کے رہنماؤں کی سزاؤں میں بنیادی اہمیت کا حامل سمجھا جاتا ہے اس میں کوئی شک نہیں کہ قیام پاکستان کے بعد اس وقت کے مشرقی پاکستان کے ساتھ ہم نے بہت زیادتیاں کیں جن کا میں بھی ایک عینی شاہد ہوں کیونکہ 1970ء میں مجھے ایک وفد کے ساتھ مشرقی پاکستان جانے کا اتفاق ہوا جہاں مولانا بھاشانی کے جلسوں میں شرکت کے علاوہ زندگی کے مختلف شعبوں کے عوام اور خواص سے ملنے کا اتفاق ہوا لیکن اس وقت کا مسئلہ صرف مشرقی پاکستان کے ساتھ مغربی پاکستان کی سول اور فوجی ایلیٹ کی زیادتیوں کا تھا۔

مذہبی یا لبرل جماعتوں کی سیاست کا مسئلہ نہیں تھا۔ جماعت اسلامی پر یہ الزام تھا کہ اس نے بنگالیوں کے قتل عام میں حصہ لیا اور انھی جرائم کے حوالے سے آج کل جماعت اسلامی کے رہنماؤں کو سزائیں دی جا رہی ہیں لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مغربی پاکستان کی ایلیٹ کے گناہوں کی سزا اہل سیاست کو کیوں دی جا رہی ہے اگر جماعت اسلامی نے بنگالیوں پر مظالم ڈھائے تھے تو متحدہ پاکستان کے حامیوں کا جس بڑے پیمانے پر قتل عام کیا گیا اس کے کتنے مجرموں کو سزا دی گئی۔

1971ء کا المیہ نظریاتی حوالے سے ایک متنازعہ المیہ ہے مشرقی پاکستان کے ساتھ جو زیادتیاں کی جاتی رہیں وہ عموماً سیاسی اور معاشی تھیں جس سے نجات حاصل کرنے کے لیے مشرقی پاکستان کی قیادت نے بھارت سے براہ راست فوجی مدد حاصل کی۔ کیا یہ فوجی مدد متحدہ پاکستان کے حوالے سے جائز اور قانونی تھی۔ مشرقی پاکستان کے عوام کی ناراضی کا سیاسی لیکن غیر قانونی اور غیر اخلاقی فائدہ بھارت نے اٹھایا۔ کیا مشرقی پاکستان میں بھارتی مداخلت کا کوئی قانونی جواز تھا؟ یہ ایسا سوال ہے جس پر سنجیدگی اور غیر جانبداری سے غور کرنے کی ضرورت ہے۔

بنگلہ دیش کی حسینہ واجد حکومت ملک کو جس نظریاتی سمت میں لے جانا چاہتی ہے جماعت اسلامی اس کی مخالف ہے بلکہ جماعت اسلامی اس حوالے سے بنگلہ دیشی حکومت کو بھارتی ایجنٹ ہونے کا الزام بھی دیتی ہے۔ اس سے قطع نظر کہ 1971ء میں کیا ہوا اور اس کی ذمے داری کس پر آتی ہے۔ 45 سال پہلے ہونے والے کسی جرم میں 45 سال بعد سزا دینا کیا قرین انصاف کہلا سکتا ہے۔

جماعت اسلامی کے امیر ایک 73 سالہ ضعیف العمر انسان تھے اگر ان پر 1971ء کے قتل عام میں حصہ لینے کا جرم ثابت ہو بھی جاتا ہے تو ان کو سزا دینے میں 45 سال کیوں لگائے گئے 1971ء کے فوری بعد ان پر مقدمہ چلا کر سزا دی جا سکتی تھی اور اگر ایسا کیا جاتا تو بات آئی گئی ہو جاتی لیکن 45 سال بعد 45 سال پہلے کیے جانے والے کسی جرم میں دی جانے والی سزائے موت کا متنازعہ بننا ایک فطری بات ہے اور اس کے خلاف احتجاج ہو رہا ہے تو اسے کوئی نہ غیر قانونی کہہ سکتا ہے نہ غیر اخلاقی۔

آج کے پاکستان میں جماعت اسلامی کے نظریات کو بے شمار لوگ اور حلقے عوام دشمنی سے تعبیر کرتے ہیں اور 2014ء کی جماعتی پالیسی کے مقابلے میں جماعت کی آج کی پالیسی سخت حکومت مخالف نظر آتی ہے لیکن نظریاتی حوالے سے جماعت اسلامی اور مسلم لیگ (ن) ایک ہی وژن رکھتے ہیں۔ ہماری مذہبی جماعتوں کا المیہ یہ ہے کہ وہ اکیسویں صدی کی دوسری دہائی میں 1947ء کی سیاست کر رہی ہیں آج دنیا سائنس و ٹیکنالوجی، زمینی اور خلائی شعبوں میں جو ناقابل یقین پیش رفت کر رہی ہے کیا جماعت کا پڑھا لکھا طبقہ اس سے نابلد ہے۔ اب آج کے گلوبلائزیشن کے دور میں مذہب کے نام پر نفرت کی سیاست کسی بھی مذہبی جماعت کو زیب دیتی ہے۔

اس بحث سے قطع نظر اس بات کی حمایت نہیں کی جا سکتی کہ 45 سال قبل کیے جانے والے جرائم میں 45 سال بعد موت کی سزائیں دی جائیں۔ اگر جرم اس قدر سنگین تھا تو مطیع الرحمٰن کی عمر اور بڑھاپے کے پیش نظر انھیں عمر قید کی سزا دی جاتی تا کہ وہ اس سنگین سزا کا شکار نہ ہوتے۔ پاکستان کی حکومت نے بنگلہ دیش کی حکومت سے اس حوالے سے سخت احتجاج کیا ہے۔ پاکستان کے مختلف علاقوں میں جماعت کے احتجاج کا سلسلہ جاری ہے۔ ترکی کی حکومت نے مطیع الرحمٰن کی سزائے موت کے خلاف احتجاجاً بنگلہ دیش سے اپنا سفیر واپس بلا لیا ہے۔

ان اقدامات سے جماعت اسلامی کو عوامی حمایت ملنا ایک فطری بات ہے۔ بہتر ہوتا کہ بنگلہ دیش کی حکومت اس اقدام کے بجائے سیاسی میدان میں جماعت اسلامی کی سیاست کا مقابلہ کرتی۔ کیا حسینہ واجد اس حقیقت سے ناواقف ہیں کہ امیر جماعت کو سزائے موت دینے سے جماعت اسلامی کی نظریاتی سیاست ختم نہیں کی جا سکتی۔ آج دنیا کو جس مذہبی انتہا پسندی کا سامنا ہے اسے اس قسم کے غیر عاقلانہ اقدامات اور سنگین سزاؤں سے اور تقویت ملتی ہے۔ پاکستان میں مذہبی جماعتیں عوامی حمایت سے محروم ہیں، اس کی وجہ عوامی شعور ہے کیا بنگلہ دیش کی قیادت نظریاتی محاذ پر جماعت کا مقابلہ نہیں کر سکتی؟

مقبول خبریں