ابھی دو تین دن اور ہیں
بظاہر یہ اتنی آسان ، اچھی اور قابلِ عمل باتیں ہیں کہ کسی کو بھی اختلاف نہیں ہو سکتا۔
کچھ باتیں جو نسل در نسل منتقل ہوتی آئی ہیں اور ہوتی رہیں گی ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ رمضان المبارک امن ، حسنِ اخلاق ، رواداری ، سخاوت و خیرات ، اجنبیوں سے ہمدردی ، صلہ رحمی اور اندر کے نیک انسان کو بیدار کرنے کا احسن راستہ ہے۔سال بھر کسی مسلمان نے نجی و اجتماعی زندگی میں جو بے اعتدالیاں کیں اور جو غفلتیں سرزد ہوئیں ان کے محاسبے اور اس محاسبے کے نتائج کو آنے والے گیارہ ماہ پر منطبق کرنے کا موقع ہے۔رمضان ہاتھ ، زبان اور ذہن کی تطہیر کا مہینہ ہے۔دنیا داری کے جھنجھٹوں کو ایک جانب رکھ کے خالق سے لو لگانے اور خود کو اور اردگرد کو بہتر بنانے کے عمل کو عملی جامہ پہنانے کی منصوبہ سازی کا سنہری موقع ہے۔یہ نفسِ امارہ کو زنجیر پہنانے کی نادر تربیت گاہ ہے۔
بظاہر یہ اتنی آسان ، اچھی اور قابلِ عمل باتیں ہیں کہ کسی کو بھی اختلاف نہیں ہو سکتا۔ہر مسلک کے اہلِ علم ہر ابلاغی میڈیم کو استعمال کرتے ہوئے مسلسل ان باتوں کو تکراری انداز میں اس برس بھی انتیس یا تیس روز بطورِ خاص بیان کریں گے۔
مگر کیا کسی نے کبھی سروے کیا کہ ان میں سے کتنی باتیں اور نصائح ہماری انفرادی و اجتماعی زندگی کا حصہ بن جاتے ہیں اور ان کے ثمرات رمضان کے بعد کو تو چھوڑئیے خود اس ماہ کے دوران بھی چہار طرف دکھائی دیتے ہوں۔ اسے جانچنے کے لیے کسی راکٹ سائنس کی ضرورت نہیں۔ چھوٹے چھوٹے اشارئیے بتا سکتے ہیں کہ ہم پر رمضان اور اس سے منسلک انفرادی و اجتماعی تربیت کے پیکیج نے کیا کیا اثرات چھوڑے یا نہیں چھوڑے۔
ذرا یاد کیجیے کہ گزشتہ رمضان میں آپ نے کتنے ضرورت مندوں کی پوشیدہ مدد یا خبر گیری کی؟ اپنے ذمے جو بھی کام لیا اسے باقی مہینوں کی نسبت کتنی زیادہ ایمان داری و جانفشانی سے انجام دیا؟ اگر آپ ملازم ہیں تو آپ نے اپنی منصبی ذمے داریوں کو باقی دنوں کی نسبت دنیاوی صلے کی پرواہ اور دوسروں کو تلقین کیے بغیر کتنے بہتر انداز میں نبھایا ؟ اگر آپ کاروباری ہیں تو اپنے کاروبار میں حلال و حرام کے تناسب کو کس حد تک کم یا زیادہ رکھنے کی کوشش کی ؟ اگر آپ مذہبی عالم یا عام سی مسجد کے امام ہیں تو جو آپ نے دیگر کو تلقین کی اس میں سے کتنی تلقین آپ نے اپنی ذات اور نفس پر منطبق کرنے کی کوشش کی؟ کتنا وقت محض رسومات و ریاکاری میں گذرا اور کتنے وقت خود کو سامنے بٹھا کر اپنے سے ملاقات کی ؟
غصہ ہر کسی کو کسی بھی بات پر کبھی بھی آ سکتا ہے۔یاد کیجیے گزشتہ رمضان میں آپ نے کن کن مواقعے پر کس کس پر غصے میں اٹھے ہاتھ کو ہوا میں ہی روک لیا یا زبان پر آئے حرفِ ناشائستہ کو گرنے سے پہلے ہی سنبھال لیا؟ آپ کو غصے کے بعد اپنی زیادتی کا احساس ہوا تو کیا ندامت بھی ہوئی اور کیا اتنی ندامت بھی ہوئی کہ آپ نے مضروب سے معافی تلافی یا معذرت کی ہو یا پھر دل ہی دل میں نادم ہوئے ہوں یا پھر وقتی ندامت کے بعد آپ کو انا نے دوبارہ تھپکی دے کر سلا دیا ؟
آپ کو تو معلوم ہے نا کہ رمضان ان مہینوں میں شامل ہے جنھیں امن کے مہینے کہا جاتا ہے؟ کسی تھانے کا رجسٹر یا اخبارات کی فائل دیکھنے سے ہی معلوم ہو جائے گا کہ گزشتہ رمضان کے تیس دنوں میں چوری ، ڈاکے ، بدکاری ، قتل ، ریپ ، جعلسازی ، بلوے ، عمومی تشدد ، گھریلو تشدد کے واقعات کا گراف کتنا کم، زیادہ یا جوں کا توں رہا؟ یہ تھانہ رجسٹر اور اخباری فائل ہی بتا دیں گا کہ رمضان نے ہمارا کیا بال بیکا کیا۔
آپ کو ہر رمضان میں ہر بڑے چینل یا اخبار میں کبھی نہ کبھی ایسی خبر ضرور سنائی اور پڑھائی جاتی ہے کہ اس بار کس مسلمان ملک میں اشیائے خورونوش کے نرخ دیگر مہینوں کے مقابلے میں سرکاری یا رضاکارانہ طور پر کتنے کم یا زیادہ ہوئے اور روزہ داروں کی سہولت اور جیب کی آسانی کے لیے نجی و سرکاری فلاحی اداروں اور تاجر تنظیموں نے رضائے الہی کے حصول کے لیے کیا کیا اضافی رعایتیں دیں۔
ایسی خبریں محض دیگر مسلمان ممالک سے ہی کیوں آتی ہیں۔اندرونِ پاکستان سے اس نوعیت کی کتنی خبریں پڑھنے سننے کو ملتی ہیں ؟ زیادہ تر یہی کیوں آتی ہیں کہ فلانے بازار یا مارکیٹ پر چھاپہ مار کے مجسٹریٹ نے اتنے گراں فروشوں پر جرمانہ کر دیا؟ کبھی کسی نے پڑھا یا سنا کہ فلاں شہر یا قصبے کی انجمنِ تاجراں نے اپنے ارکان کو پابند کیا ہو کہ رمضان کے تیس دن اشیا کے نرخ گزشتہ ماہ کے برابر ہی رکھے جائیں۔
ایک رمضان میں نے استنبول میں بھی گذارا۔سب نہیں مگر بہت سی دکانوں اور ریستورانوں پر دکان داروں اور مالکان نے ازخود نوٹس آویزاں کر رکھے تھے کہ رمضان کی خوشی میں ہم نے اپنے نرخوں میں اتنے فیصد کی کمی کردی ہے۔ریڈی میڈ گارمنٹس کے ایک کلین شیو نوجوان دکان دار سے میں نے پوچھا کہ سال میں ایک مہینہ ہی تو آتا ہے کمانے کا۔اس میں بھی تم نے قیمت میں بیس فیصد کمی کا یہ نوٹس کیوں آویزاں کر دیا ہے۔کہنے لگا کہ اس کمی کے باوجود بھی ہمیں دیگر مہینوں سے زیادہ کمائی ہوتی ہے۔کیونکہ گاہکوں کی تعداد دگنی ہوجاتی ہے۔ہر شخص اپنے بال بچوں کے لیے کم ازکم ایک جوڑا تو خریدتا ہی ہے۔لہٰذا ہم پر بھی تو فرض ہے کہ ان کی جیب پر اضافی بار نہ ڈالیں۔رزق تو ملتا ہی رہے گا۔
ہاں پاکستان ان پانچ مسلمان ممالک میں ہر سال شامل ہوتا ہے جہاں لوگ رمضان کے دنوں میں سب سے زیادہ خیرات کرتے ہیں۔لمبے لمبے دسترخوان لگاتے ہیں۔ ہر مسجد کا صحن افطار کے لیے کھلا ہوتا ہے۔مگر یہ تیس دن باقی گیارہ مہینوں پر حقوق العباد کے تعلق سے کتنے دیرپا اثرات چھوڑتے ہیں ؟ کیا رضائے الہی حقوق ِ العباد سے الگ کوئی شے ہے ؟
اس پر غور فرمانے کے لیے ابھی دو تین دن اور باقی ہیں۔