گمبٹ میں جگر کا مفت آپریشن
ہم نے پچھلے ہفتے جگر کی پیوند کاری اور کینسر کی تشخیص کی سہولتوں کے حوالے سے ایک کالم لکھا تھا
ہم نے پچھلے ہفتے جگر کی پیوند کاری اور کینسر کی تشخیص کی سہولتوں کے حوالے سے ایک کالم لکھا تھا، نیاز کھوکھر نے اسلام آباد سے ہمیں فون پر یہ اطلاع دی کہ سندھ کے ایک شہر گمبٹ میں جگر کی پیوند کاری کی مفت سہولت فراہم کی جا رہی ہے۔ اس حوالے سے کھوکھر صاحب نے یہ بتایا کہ گمبٹ انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز نامی ایک ادارہ ہے، جہاں ڈاکٹر رحیم بخش کی زیر نگرانی جگر کی پیوندکاری کے آپریشن بلا معاوضہ کیے جا رہے ہیں۔ ہم نے گمبٹ ٹیلی فون کر کے ڈاکٹر رحیم سے اس حوالے سے بات کی، ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ ہمارے اسپتال میں یہ سہولت جگر کے مریضوں کو مفت فراہم کی جا رہی ہے، ہمیں بڑی مشکل سے یقین آیا کہ جس آپریشن پر 40 سے 60 لاکھ کا خرچ آتا ہے وہ سہولتیں ایک چھوٹے سے علاقے کے ایک اسپتال میں مفت فراہم کی جا رہی ہیں؟
کراچی کے ایک اسپتال میں بھی جگر کی پیوند کاری کے آپریشن ہو رہے ہیں، لیکن یہاں یہ سہولت مفت نہیں فراہم کی جا رہی ہے، سندھ کے گورنر ڈاکٹر عشرت العباد کی کوششوں سے کراچی میں جگر کی پیوند کاری کے آپریشن کا آغاز ہو گیا ہے اور تین کامیاب آپریشن ہو چکے ہیں جس کے اخراجات سندھ کے گورنر ڈاکٹر عشرت العباد خان نے ادا کیے ہیں۔ کھوکھر صاحب نے یہ انکشاف بھی کیا کہ کراچی میں معروف ڈاکٹر ادیب الحسن رضوی کی زیر سرپرستی جگر کی پیوند کاری کے آپریشن بغیر کسی معاوضے کے کیے جا رہے ہیں۔دنیا کے مختلف ملکوں میں جن میں ترقی یافتہ اور ترقی پذیر دونوں ملک شامل ہیں۔
عوام کو ہر طرح کے علاج کی سہولتیں مفت فراہم کی جاتی ہیں تعلیم اور صحت پر بجٹ میں بھاری رقمیں رکھی جاتی ہیں کہ عوام کی یہ بنیادی ضرورتیں پوری کی جا سکیں لیکن پاکستان غالباً دنیا کا واحد ملک ہے جہاں تعلیم اور صحت کی سہولتیں صرف ان لوگوں کو حاصل ہوتی ہے جو اس کے بھاری اخراجات برداشت کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں، لیکن اس حوالے سے پاکستان کے غریب عوام کا حال یہ ہے کہ اس ملک میں غریب عوام کھانسی، بخار جیسی معمولی بیماریوں کے علاج سے بھی محروم ہیں۔ سرکاری اسپتالوں کے نام سے جو کچرا کنڈیاں کھلی ہوئی ہیں.
ان کی حالت زار کی داستانیں ہمارے میڈیا کی زینت بنتی جا رہی ہیں۔ سرکاری اسپتالوں میں داخلے کے لیے مریضوں کو اسپتالوں اور ملحق فٹ پاتھوں پر ہفتوں انتظار کرنا پڑتا ہے۔ ہماری مہربان حکومتیں اسپتالوں کی سرپرستی جن مہاشوں کو سونپتی ہیں وہ اس قدر اہل ہوتے ہیں کہ اس کا اندازہ سرکاری اسپتالوں کی حسن کارکردگی کی داستانوں سے ہو سکتا ہے۔ کروڑوں کی کرپشن، بد انتظامی، سرکاری دواؤں کی فروخت، ڈاکٹروں کی مریضوں سے دلچسپی یہ ایسے اوپن سیکریٹ ہیں جن سے ملک کا بچہ بچہ واقف ہے۔
میڈیکل سائنس کے شعبے میں حیرت انگیز ترقی ہو رہی ہے، جو بیماریاں ماضی میں لا علاج سمجھی جاتی تھیں اب ان کا علاج ہر شہر میں دستیاب ہے جگر دل اور گردوں کی پیوند کاری اب ایک عام علاج ہے۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ اس قسم کی بیماریوں کے علاج اس قدر مہنگے ہیں کہ ایک غریب آدمی ہی نہیں بلکہ مڈل کلاس کا کوئی مریض اس قسم کے مہنگے علاج افورڈ نہیں کر سکتا۔ جگر کی پیوند کاری پر 40 سے 60 لاکھ کا خرچ آتا ہے کیا ایک غریب آدمی یہ خرچ برداشت کر سکتا ہے۔جگر کے مریضوں کو اپنے علاج کے لیے عموماً بھارت جانا پڑتا ہے کیوں کہ بھارتی حکومتوں نے مشکل بیماریوں کے لیے اپنے عوام کو علاج کی سہولتیں فراہم کر رکھی ہیں۔
69 سال گزر گئے لیکن ہمارے مہربان عوام کے غم خوار حکمرانوں کو علاج کے حوالے سے جدید اسپتالوں کے قیام کے توفیق نہ ہوئی۔ جس ملک کا وزیراعظم خود اپنا علاج مغربی ملکوں میں کراتا ہو ایسے ملکوں میں علاج کی سہولتوں کا اندازہ کرنا مشکل نہیں۔2016-2017ء کے بجٹ کا اعلان کر دیا گیا، اعداد و شمار کے اس گورکھ دھندے میں یہ نہیں بتایا گیا کہ اس کے دوران کراچی جیسے دو کروڑ آبادی کے شہر میں جناح اور سول جیسے کتنے اسپتال کھولے جائیںگے۔
حیدرآباد، سکھر، نواب شاہ میں کتنے جدید اسپتال اور یونیورسٹیاں کھولی جائیں گی۔ ملک کے دوسرے بڑے شہروں میں کتنے جدید اسپتال اور آکسفورڈ جیسی یونیورسٹیاں کھولی جائیں گی۔ زندگی کے بعض غیر پیداواری شعبوں کے بجٹ میں بھاری اضافہ کر دیا گیا ہے۔ دفاع کے شعبے کے بجٹ میں 11 فی صد اضافہ کیا گیا ہے لیکن صحت اور تعلیم کے بجٹ کا عالم یہ ہے کہ عشروں سے ان کا بجٹ جمود کا شکار ہے۔ ان شعبوں کے لیے اضافی رقوم کا جو اعلان کیا جاتا ہے وہ روایت کے مطابق میڈیا میں تو نظر آتی ہیں لیکن ان کے درست استعمال کی کوئی اطلاع باہر نہیں آتی۔
وزیراعظم کا بائی پاس لندن کے ایک غیر معروف اسپتال میں کامیابی سے ہو گیا ترقی یافتہ ملکوں میں دل جگر گردے کی پیوند کاری عام ہے۔ ہمارے وزیراعظم کے دل کا آپریشن کامیاب رہا یہ بڑی خوشی کی بات ہے لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ 69 سال گزرنے کے بعد پاکستان کے اسپتال اس قابل نہیں ہو سکے کہ یہاں کوئی مریض اعتماد کے ساتھ بائی پاس جیسے آپریشن کرا سکے۔
اگر پاکستان میں بائی پاس اعتماد کے ساتھ کرانے کا اہتمام ہوتا تو وزیراعظم کو لندن میں اپنا آپریشن کرانے کی ضرورت پیش نہ آتی۔ ایسا کیوں ہے پاکستان کے حکمران اس کے ذمے دار ہیں۔ اورنج اور گرین لائن بنانا اچھی بات ہے لیکن جدید اسپتال اور یونیورسٹیاں بنانا ملک کی سب سے بڑی ضرورت ہے۔ اس مایوس کن صورت حال میں گمبٹ جیسے چھوٹے سے شہر میں اگر جگر کی تبدیلی کا اہتمام کیا گیا ہے تو یہ قابل مبارکباد ہے۔ میں نے جب ڈاکٹر رحیم بخش سے پوچھا کہ کالم شایع ہونے کے بعد آپ کے اسپتال میں مریضوں کا ہجوم ہو سکتا ہے تو ڈاکٹر رحیم بخش نے کہا فکر کی کوئی بات نہیں۔ ہم ہر مریض کو یہ سہولت فراہم کریں گے۔