بجٹ کس کا دوست کس کا دشمن

ویسے تو بجٹ پر بحث کار عبث کے سوا کچھ بھی نہیں کیوں کہ جس پتھر کو گرنا تھا وہ تو کھوپڑی پر گر چکا ہے


Saad Ulllah Jaan Baraq June 13, 2016
[email protected]

لاہور: ویسے تو بجٹ پر بحث کار عبث کے سوا کچھ بھی نہیں کیوں کہ جس پتھر کو گرنا تھا وہ تو کھوپڑی پر گر چکا ہے۔اب یہ بحث کرنا کہ پتھر کتنا بڑا ہے، کتنا بھاری ہے، اور کتنا نوک دار ہے، کالا ہے بھورا ہے یا سفید ، گول ہے چپٹا ہے یا تکون، اور پھر یہ بھی ہے کہ بجٹ میں ہندسے ہی ہندسے ہوتے ہیں اور ہندسوں کے ساتھ ہماری دشمنی اس دن سے چلی آرہی ہے جس دن حساب کا مضمون ہمارے سامنے کسی بدمعاش کی طرح کھڑا ہو گیا تھا اور پھر یہ جو بجٹ ہوتا ہے یہ ہاتھی کے وہ دانت ہوتے ہیں جو اس نے بطور فیشن کے منہ سے باہر رکھے ہوئے ہوتے ہیں اصل ''چبانے والے'' دانت تو اس کے پیچھے نیپرا، پیپرا، اوگرا، ڈوگرا نام کے ہوتے ہیں جو مسلسل چباتے رہتے ہیں۔ کسے چباتے ہیں؟ یہ بھی کوئی پوچھنے والی بات ہے ، ایک ہی تو جانور ہے جس کی اون، کھال، گوشت، ہڈیاں سب بڑی لذیذ اور قیمتی ہوتی ہیں، لیکن پھر بھی بجٹ پر عبث ہی سہی بحث کرنا اس لیے ضروری ہو جاتا ہے کہ کل کلاں کوئی یہ نہ کہے کہ

کچھ تو کہیے کہ لوگ کہتے ہیں
آج غالب ''بجٹ سرا'' نہ ہوا

یہ بات آج تک ہماری چکنا چور (بجٹ کے پتھر سے) کھوپڑی میں نہیں آئی کہ یہ بجٹ ہوتا ''کیا''ہے اور اس سے بھی زیادہ ہوتا ''کیوں'' ہے کیوں کہ اس غالب خستہ کے بغیر حکومت کے کوئی کام بند نہیں، جب جی چاہے جہاں جی چاہیے اور جتنا جی چاہیے کسی محکمے کا بندوق نکال راستے میں بیٹھ سکتی ہے اور جو بھی ہاتھ لگے اسے سرعام لوٹ سکتی ہے پھر یہ بجٹ کا ٹنٹنا کیوں؟ ہمیں تو بے چارے وزیر ہائے خزانہ پر ترس آتا ہے کہ بغیر کچھ سمجھے بوجھے اتنا بڑا طومار پڑھنا ، بے چاروں کو تو دانتوں پسینے آجاتے ہوںگے۔ عین ممکن ہے کہ بجٹ پڑھنے سے پہلے مٹھی بھر درد کش، سمجھ کش اور ٹینشن کش گولیاں بھی پھانک لیتے ہوں کیوں کہ صرف سن کر ہی اگر عوام کو اس قسم کی گولیوں کی ضرورت پڑتی ہے تو وہ بھی تو بھلے ہی وزیر ہوں لیکن انسان بھی تو ہوتے ہیں اور پھر وفاقی وزیر بجٹ جناب اسحاق ڈار کے نام میں ''ڈراوا''ہے تو کام میں کیوں نہ ہو گا،

کام اس سے آپڑا ہے کہ جس کا جہاں میں
لیوے نہ کوئی نام ''بجٹ گر'' کہے بغیر

اپنی بجٹ بلکہ بجٹ پر بحث ناپسندی کا تو ہم نے بتا دیا ہے لیکن بجٹ پر عبث بحث کرنے سے بھی ہمیں الرجی ہے اس لیے بجٹ سے چند روز پہلے اور چند مہینے بعد تک اخباروں کا پہلا صفحہ بالکل ہی نہیں پڑھتے کیونکہ بجٹ کے بارے میں یہ جو مذکر مونث کی بحث شروع ہو جاتی ہے اسے پڑھنے کے لیے لوہے کا جگر اور پتھر کا کلیجہ چاہیے ہوتا ہے۔ اکبر الہ آبادی نے کہا تھا کہ

مذہبی بحث میں نے کی ہی نہیں
فالتو عقل مجھ میں تھی ہی نہیں

خاص طور پر یہ مذکر مونث مطلب یہ کہ عوام دوست، خاص دوست، سرکار دوست، مزدور دوست وغیرہ کا دم چھلہ اس کے ساتھ ہوتا ہے اور آپ تو جانتے ہیں کہ بعض چیزوں کی دم سیدھی تو ہوتی ہی نہیں ہے اس لیے ہمیں آج تک یہ پتہ نہیں چلا کہ عوام دوست بجٹ کیسا ہوتا ہے اور کوئی ''اور دوست'' کی کیا نشانیاں ہیں، اس سلسلے میں اکثر ہمیں ایک بزرگ یاد آجاتے ہیں ۔ ویسے دوست دشمن کا پتہ لگانے کے لیے ایک اور فارمولا بھی ہے اور وہ یہ کہ جس نے اسے دوست کہا اس کا دوست ہو گا اور جس نے دشمن کہا اس کا دشمن ہو گا یا جو اسے دوست کہہ رہے ہیں ۔

ان کا دوست ہو گا اور جو دشمن بتا رہے ہیں ان کا دشمن سمجھ لیجیے گا، اس لحاظ سے جب ہم نے سروے کیا تو کچھ اچھا رزلٹ نہیں آیا کیوں کہ جو لوگ اسے عوام دوست کہہ چکے، یا کہہ رہے ہیں یا کہنے والے ہیں ان میں سے کوئی بھی ''عوام'' نہیں ہے یہ تو مدعی سست اور گواہ چست والی بات ہو گئی، بے چارے عوام کو تو سرے سے یہ بھی پتہ نہیں کہ بجٹ ہوتا کیا ہے یہ کوئی چڑیا ہے جانور ہے یا مچھلی، زیادہ سے زیادہ جب وہ بازار سے کچھ خریدنے جائیں گے اور کسی چیز کی قیمت پر ان کی چیخ نکلے گی تو دکاندار اسے بتا سکتا ہے کہ یہ میرا قصور نہیں بجٹ کا کیا دھرا ہے، بے چارا عوام زیادہ سے زیادہ یہ سمجھ سکتا ہے کہ بجٹ کسی سرکاری چیز کا نام ہے اور بس ... اور سرکاری چیزوں کے بارے میں عوام کو پہلے سے پتہ ہوتا ہے کہ

تو دوست کسی کا بھی ستمگر نہ ہوا تھا
اوروں پہ ہے وہ ظلم کہ مجھ پر نہ ہوا تھا

یا یہ کہ ہم کو ان سے وفا کی ہے امید ...بہرحال معاملہ پھر ویسے کا ویسے رہ گیا کسی کی دوستی اور دشمنی کا فیصلہ تو وہ شخص خود ہی کر سکتا ہے کہ فلاں میرا دوست ہے یا دشمن، کوئی اور اسے کیسے بتا سکتا ہے کہ تم ''اسے'' جانتے نہیں ہو یہ تمہارا دوست ہے اس کا جواب وہ یہی دے سکتا ہے کہ جب میں اسے جانتا تک نہیں ہوں پہچانتا نہیں ہوں اس سلسلے کبھی ملاقات نہیں ہوئی ہے تو میرا دوست کیسے ہوا ۔لیکن درمیان والا بدستور یہی رٹ لگائے رہے گا کہ نہیں مان لو کہ یہ تیرا دوست ہے کیوں کہ میں کہہ رہا ہوں تو پھر تمہیں اس میں ''میں میں'' کرنے کی ضرورت نہیں ہے، لیکن چلیے فرض کیے لیتے ہیں کہ یہ خواص لوگ جو بجٹ کو عوام دوست کہہ رہے ہیں یہ ضمانت دے سکتے ہیں کہ دوستی کے پردے میں دشمن اور دشمنی کے پردے میں دوست نہیں ہو سکتا کیوں کہ،

تم تکلف کو بھی اخلاص سمجھتے ہو فراز
دوست ہوتا نہیں ہر ہاتھ ملانے والا

بلکہ اب تو یہ بات ایک دنیا کو معلوم ہے کہ جس آسانی سے کوئی دوست بن کر کسی کا بیڑا غرق کر سکتا ہے اس آسانی سے دشمن کبھی نہیں کر سکتا، سیکڑوں ہزاروں واقعات ہوئے ہیں ہوتے ہیں اور ہوتے رہے ہیں کہ دوستوں ہی نے دوستوں کو دشمنی کا خنجر گھونپاہے۔

مقبول خبریں