سوات ملکی معیشت میں انقلاب برپا کرسکتا ہے لیکن ۔۔۔۔

ایچ ایم کالامی  پير 27 جون 2016
اسے ملکی معاشی بدقسمتی سمجھیں یا حکمرانوں کی نظر کا قصور کہ ان حسین وادیوں پر کسی بھی برسر اقتدار حکومت نے توجہ نہیں دی۔ فوٹو: ایکسپریس

اسے ملکی معاشی بدقسمتی سمجھیں یا حکمرانوں کی نظر کا قصور کہ ان حسین وادیوں پر کسی بھی برسر اقتدار حکومت نے توجہ نہیں دی۔ فوٹو: ایکسپریس

رمضان کا مقصد پیاس، بھوک اور گرمی کو اس ذات کی خاطر گوارا کرنے کا نام ہے جو انسان پر بے شمار رحمتیں اور نعمتیں نچھاور کرتا ہے، جس کے احسانات ان گنت ہیں، لیکن اس واحد معبود کی عبادت میں ایک انسان دوسرے انسان کے لئے ذہنی کوفت کا باعث بنتا ہے تو کوئی نہ کوئی ردِعمل ضرور سامنے آتا ہے۔ ملک بھر میں جھلستی گرمی میں رحمت و مغرت کے مہینہ رمضان کی آمد اور نااہل حکمرانوں کی جانب سے شہریوں پر لوڈ شیڈنگ کا جو عذاب مسلط کیا گیا ہے، اس کے ردِعمل میں مختلف شہروں میں روزہ داروں نے بھی احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے۔

لوڈشیڈنگ سے دلبرداشتہ مظاہرین پر اکثر پولیس کا تشدد بھی دیکھنے کو ملتا ہے۔ جس کے باعث روزہ دار شدید ذہنی تذبذب اور چڑچڑے پن کا شکار ہیں۔ ایسی صورت حال میں جن روزہ داروں کو مالی استطاعت اجازت دیتی ہے اور اپنے روزگار سے فراغت میسر حاصل ہے، انہوں نے قدرت کی عطا کردہ حسین و سحرانگیز وادی سوات میں اپنے خاندان سمیت ڈیرے ڈال دیئے ہیں اور بغیر کسی لوڈشیڈنگ و گرمی کے پرسکون ہوکر عبادات میں مصروف عمل ہیں۔ روزہ دار دن بھر سوات کے بالائی سیاحتی علاقوں، اشو، مٹلتان، مہوڈنڈ، اتروڑ اور گبرال کے خوبصورت علاقوں کے چکر کاٹتے ہیں اور روزے کی برکات کو سمیٹنے کے ساتھ ساتھ  خوبصورت مناظر سے بھی خوب لطف اندوز ہورہے ہیں۔

اکثر روزہ دار پُر فضاء مقامات پر اپنے ساتھ افطار کا سامان بھی ساتھ لے جاتے ہیں اور افطاری ان خوبصورت اور دلفریب مقامات پر کرکے واپس بحرین اور کالام بازار کا رخ کرتے ہیں۔ جہاں وہ ہوٹلوں میں یا فلیٹوں میں قیام پذیر ہوتے ہیں۔

(تصاویر: آفتاب احمد، شیر نواب)

افطاری کے بعد بحرین بازار اور کالام مال روڈ پر اتنی تعداد میں سیاح نکلتے ہیں کہ تل دھرنے کو جگہ نہیں ملتی۔ سحری تک بازاروں میں خوب رونق رہتی ہے۔ بازاروں میں سحری تک گرم سموسوں، باربی کیو اور جوس اسٹالز پر رش لگا رہتا ہے، جس کے باعث مقامی لوگوں کا کاروبار بھی عروج پر ہے۔ اشیائے خورد نوش کے علاوہ ہوٹل انڈسٹری اور فلیٹ مالکان کو بھی تھوڑا بہت کمانے کا موقع ہاتھ آتا ہے۔

اس بات سے کوئی انحراف نہیں کرتا کہ مملکت خدادا میں جس چیز کی مانگ میں اضافہ ہوتا ہے تو اس کی قیمتوں کو پر لگ جاتے ہیں۔ بس یہی حال آج کل سوات میں بھی ہے کہ مقامی انتظامیہ کی غفلت کی وجہ سے اشیائے خورد ونوش اور رمضان میں بالخصوص گوشت اور پھلوں کی قیمتیں آسمان کو چھونے لگتی ہے۔ اگر انتظامیہ کی جانب سے چیک اینڈ بیلنس ہو تو خود ساختہ مہنگائی پر کنٹرول چنداں مشکل نہیں۔ اس کے علاوہ سیاحوں کے لیے سب سے اہم ضرورت یہاں قیام کے لئے ہوٹلز یا فلیٹ ہیں، جن کا اگر دوسرے شہروں یا سیاحتی علاقوں سے موازنہ کیا جائے تو یہاں کرائے انتہائی سستے ہیں۔

مثنوی جو ایک فرنشڈ ہوٹل کے مالک ہیں کہتے ہیں کہ ہم پورے رمضان کے لئے تین بیڈ کا کمرہ 30 سے 35 ہزار میں دیتے ہیں۔ جبکہ اسلام آباد میں تین بیڈ روم ایک مہینہ کے لئے بھی 60 سے 70 ہزار سے کم قیمت میں دستیاب نہیں ہوتے۔ وہاں سال بھر ہوٹل کھلے رہتے ہیں اور سوات میں صرف تین چار مہینے ہوٹلوں کا کاروبار بمشکل جاری رہتا ہے۔ اسی طرح چار پانچ کمروں پر مشتمل گھر یا فلیٹوں کے کرائے سال بھر کے لئے 60 سے 70 ہزار میں میسر ہیں، جبکہ شہروں میں اس طرح کے گھروں کے ماہانہ کرایہ ہی 30 ہزار تک ہوتا ہے۔

شہروں میں بڑھتی ہوئی فضائی آلودگی کی وجہ سے سوات جیسے سرسبز و شاداب علاقوں کی اہمیت میں بدستور اضافہ ہوتا جارہا ہے، مگر  جس کی وجہ سے ایک طرف سیاحوں کو آمد میں مشکلات کا سامنا ہے تو دوسری طرف مقامی لوگ بھی غربت کی چکی میں پس رہے ہیں۔ فضل غنی جو نائٹ بازار کالام میں ایک چھوٹے سے جوس اسٹال کے مالک ہیں کہتے ہیں کہ ان کی دن بھر کی جو مزدوری بنتی ہے وہ سحر و افطار کے لئے ان کے گھر کا خرچہ نکالنے کے لئے کافی ہے۔ وہ مزید کہتے ہیں کہ ان کا کاروبار صرف موسم گرما کے تین مہینوں تک محدود ہے، سیزن ختم ہوتے ہی وہ شہری علاقوں کی طرف نقل مکانی کرتے ہیں اور وہاں کمانے کی کوشش کرتے ہیں۔

(تصاویر: آفتاب احمد، شیر نواب)

دوسری طرف سوات کوہستان میں سیاحت کے فروغ میں رکاوٹ بننے والے مسائل میں بنیادی مسئلہ بحرین تا کالام سڑک کی خستہ حالی ہے۔ پشاور سے تعلق رکھنے والے ایک سیاح عدنان کا کہنا تھا کہ وہ فیملی سمیت یہاں رمضان گزارنے آئے ہیں، یہاں موسم اور قدرتی مناظر کے ساتھ لوگ بھی بہت مہمان نواز ہیں، مہنگائی بھی کم ہے ہمیں ہر چیز پشاور کی قیمت پر یہاں دستیاب ہے، لیکن ہمیں جس دشواری کا سامنا ہے وہ یہاں تک پہنچنے میں اس خستہ حال سڑک پر سفر کرنا ہے۔ وہ مزید کہتے ہیں کہ بہت سے لوگ یہاں آنا چاہتے ہیں لیکن اگر کوئی مریض ہو یا کوئی معذور وہ یہاں آنے سے قاصر ہیں کہ یہاں کی سڑکیں سفر کرنے کے لائق نہیں ہیں۔ حکومت اگر شہروں کی طرح یہاں کی سڑکوں کو بہتر بنائے تو اس سے دوگنی تعداد میں لوگ یہاں کا رخ کریں گے۔

(تصاویر: آفتاب احمد، شیر نواب)

جب موسم سرما شروع ہوتا ہے اور سوات کی حسین وادیاں برف کی سفید چادر اوڑھ لیتی ہے تو یہاں کی خستہ حال سڑکیں مکمل طور پر بند ہوجاتی ہیں۔ بازاروں میں اشیائے خورد ونوش کی قلت اور اسپتالوں میں ادویات کی قلت پیدا ہوجاتی ہے۔ مقامی لوگوں کا کاروبار بھی ٹھپ ہوکر رہ جاتا ہے۔ موسم سرما میں جب یہ حسین وادیاں دل لبھانے والے مناظر پیش کرتی ہیں تو بدقسمتی کہیئے کہ بحرین تا کالام ناگفتہ سڑک کی وجہ سے سیاح ان مناظر سے لطف اٹھانے سے قاصر رہتے ہیں۔

اب ضرورت اس امر کی ہے کہ وفاقی و صوبائی حکومت شہروں میں بڑے بڑے منصوبوں کے ساتھ ان علاقوں میں سڑکیں تعمیر کرے اور سہولیات فراہم کرے تاکہ نہ صرف مقامی لوگوں کی مشکلات میں کمی آسکے بلکہ ساتھ ساتھ ملکی معیشت کے لئے بھی انتہائی بہترین اقدام ہوگا۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500  الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع  تعارف کے ساتھ [email protected]  پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس۔
ایچ ایم کالامی

ایچ ایم کالامی

ایچ ایم کالامی،خیبر پختونخوا, سوات کوہستان سے تعلق رکھنے والے نوجوان صحافی ہیں اور مختلف اخبارات کے لئے کالم لکھتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔