ملکی ترقی کی داستانیں
دوسرے بے وقوف ملکوں میں ملکی ترقی کو ناپنے کے لیے یہ دیکھا جاتا ہے کہ عوام کی خوراک میں کتنی بہتری آئی ہے
ہمارے وزراء صاحبان ہر تقریر، ہر پریس کانفرنس، ہر ٹاک شو میں عوام کو یہ مژدہ ضرور سناتے ہیں کہ وزیراعظم کی قیادت میں ملک تیزی سے ترقی کر رہا ہے ایک اور وزیر باتدبیر نے یہ کہا ہے کہ ملک اپنے پاؤں پر کھڑے ہونے کی کوشش کر رہا ہے لیکن ملک دشمن ملک کو اپنے پاؤں پر کھڑے ہونے سے روک رہے ہیں۔
ملک بے شک ترقی کر رہا ہے کوئٹہ میں ایک سابق سیکریٹری خزانہ کے گھر سے 73 کروڑ سے زیادہ کی رقم برآمد ہوئی ہے، ٹی وی اسکرین پر جب عوام گھر کے کمروں میں ہزار ہزار پانچ پانچ ہزار کے نوٹ کی گڈیوں کو کچرے کی طرح پھیلے دیکھتے ہیں ایک سابق وزیر کی جب 462 ارب روپوں کی کرپشن کی داستانیں میڈیا کی زینت بنتے دیکھتے ہیں، ہر قومی ادارے میں اربوں کی کرپشن کی داستانیں سنتے ہیں، ایک ماڈل کو پانچ لاکھ ڈالر کے ساتھ ایئرپورٹ پر پکڑ لیتے ہیں۔ وزیراعظم کے صاحبزادوں اور صاحبزادیوں کو آف شور کمپنیوں کے مالک بنتے دیکھتے ہیں تو ملک کی ترقی سے انکار کی کس کو جرأت ہوسکتی ہے؟ کون اس دعوے سے انکار کرسکتا ہے کہ ملک تیزی سے ترقی کر رہا ہے اور اس ترقی کا سہرا وزیر اعظم نواز شریف کے سر پر بندھا ہے۔
دوسرے بے وقوف ملکوں میں ملکی ترقی کو ناپنے کے لیے یہ دیکھا جاتا ہے کہ عوام کی خوراک میں کتنی بہتری آئی ہے۔ عوام کے لباس میں کتنی بہتری آئی ہے، رہائش میں کتنی بہتری آئی ہے، تعلیمی سہولتوں میں کتنی بہتری آئی ہے۔ علاج معالجے کی سہولتوں میں کتنی بہتری آئی ہے، ٹرانسپورٹ کی سہولتوں میں کتنا اضافہ ہوا ہے، فی کس آمدنی میں کتنا اضافہ ہوا ہے۔ تفریحی سہولتوں میں کتنا اضافہ ہوا ہے، مہنگائی میں کتنی کمی آئی ہے، عوام کی غربت میں کتنی کمی آئی ہے، ملک میں جرائم کی صورتحال کیا ہے، ملک کی مارکیٹوں میں چہل پہل کی کیا صورتحال ہے؟
ترقی کو ناپنے کے پیمانے ترقی یافتہ ہی نہیں بلکہ کئی ترقی پذیر ملکوں میں بھی رائج ہیں اس حوالے سے اگر ہم اپنے تیزی سے ترقی کرتے ملک پر نظر ڈالیں تو یہ تصویر سامنے آتی ہے کہ اس ملک کا مزدور عشروں پہلے بھی روٹی پیاز یا روٹی چائے سے ناشتہ کرتا تھا اور آج بھی اس کا ناشتہ روٹی پیاز یا روٹی چائے ہی سے ہو رہا ہے بلکہ پہلے کے مقابلے میں اب دو وقت کی روٹی حاصل کرنا جوئے شیر لانا بن گیا ہے غریب کے جسم پر عشروں پہلے جو کپڑے نظر آتے تھے۔
آج اس کے کپڑوں کی حالت پہلے سے بدتر ہے غریب کی رہائش کا جو حال عشروں پہلے تھا اب اس سے بھی بدتر ہے غریب کے بچوں کو عشروں پہلے جو تعلیمی سہولتیں حاصل تھیں آج بھی وہی سہولتیں کالے پیلے اسکولوں کی صورتوں میں اسے میسر ہیں غریب عشروں پہلے علاج معالجے کی سہولتوں سے جس طرح محروم تھا آج اسے وہ سہولتیں بھی حاصل نہیں وہ اپنے علاج کے لیے سرکاری اسپتالوں میں دھکے کھاتا پھر رہا ہے غریب کھانسی سے لے کر کینسر جیسی بیماریوں کا علاج سرکاری اسپتالوں میں تلاش کرتا ہے۔ ہر دفتر ہر ادارے میں رشوت کا بازار گرم ہے ، ہر جائز کام کرانے کے ہر ادارے میں ریٹ مقرر ہیں ، فی کس آمدنی میں پہلے کے مقابلے میں عملاً کمی آئی ہے۔
یہ ہے ہمارے ملک کی تیزی سے ترقی کی بھیانک تصویر۔ پہلے ہمارے ملک کا ہر بچہ، بڑا، عورت، مرد اگر 70 ہزار کا مقروض تھا تو وہ اب ایک لاکھ سے زیادہ کا مقروض ہوگیا ہے۔ ہمارا حکمران طبقہ بڑے فخر سے یہ دعوے کرتا نظر آتا ہے کہ ہمارے زرمبادلہ کے ذخائر تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئے ہیں۔ اس حوالے سے پہلی بات تو یہ ہے کہ زرمبادلہ میں اضافے کی ایک بڑی وجہ بیرون ملک کام کرنے والوں کی طرف سے بھیجی جانے والی رقوم ہیں جو اربوں ڈالر پر مشتمل ہوتی ہیں۔ اس حوالے سے دوسرا المیہ یہ ہے کہ زرمبادلہ میں اضافے سے خواہ وہ کتنا ہی زیادہ کیوں نہ ہو عوام کو کوئی فائدہ پہنچ سکتا ہے نہ عوام کی زندگی میں کوئی تبدیلی آسکتی ہے یہ اعداد وشمار کا ایک گورکھ دھندا ہے ۔
جس سے اشرافیہ کو تو فائدہ ہوسکتا ہے لیکن عام آدمی کی بدتر زندگی میں کوئی تبدیلی نہیں آسکتی۔ہمارے ایک حکمران فیملی کے وزیر نے کہا ہے کہ ملک اپنے پاؤں پر کھڑے ہونے کی کوشش کر رہا ہے لیکن اپوزیشن اس نیک کام میں کھنڈت ڈال رہی ہے۔ اس حوالے سے اصل حقیقت یہ ہے کہ ملک کے پاؤں ہاتھ آنکھ کان عوام ہوتے ہیں جن کے ہاتھ پاؤں ان سے چھین لیے گئے ہیں جس ملک میں عوام کا ترقی میں سرے سے کوئی حصہ ہی نہیں وہ ملک بھلا کیسے اور کس طرح اپنے پیروں پر کھڑا ہوسکتا ہے؟
ہمارا حکمران طبقہ دن رات جمہوریت کے راگ ملہار گاتا رہتا ہے اور ہماری جمہوریت کا حال یہ ہے کہ جمہور کو پانچ سال میں ایک بار اپنا جمہوری حق ووٹ دینے کی شکل میں ملتا ہے اور سسٹم کچھ ایسا بنایا گیا ہے کہ عوام کے ووٹ عوام اور جمہوریت کے دشمنوں کے کھاتے میں چلے جاتے ہیں اور عوام کے ووٹوں سے منتخب ہونے والے عوام دشمن نمایندے عوام کے ووٹوں کی اس طاقت کو قومی دولت کی لوٹ مار اور بلیک میلنگ میں لگا دیتے ہیں۔ عوام اس اشرافیائی جمہوریت کے پہاڑ کے نیچے دبے سسکتے رہتے ہیں اس حقیقت کے پیش نظر یہ دعویٰ کرنا کہ ملک اپنے پیروں پرکھڑے ہونے کی کوشش کر رہا ہے ایک دھوکے کے علاوہ کچھ نہیں۔