باعزت زندگی عوام کا حق ہے

سزا جزا جنت دوزخ ہمارے مذہبی عقائد میں سرفہرست ہیں۔


Zaheer Akhter Bedari July 16, 2016
[email protected]

سزا جزا جنت دوزخ ہمارے مذہبی عقائد میں سرفہرست ہیں۔ نیک عمل کرنے والوں کے لیے جنت کی بشارت دی گئی ہے اور برے اعمال والوں کے لیے دوزخ کو ٹھکانہ بنایا گیا ہے۔ اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ جن لوگوں سے مسجدیں بھری رہتی ہیں ان میں صاحبان استطاعت بھی ہوتے ہیں۔ خیرات بلاشبہ نیکی کا کام ہے لیکن نیکی کے ان کاموں سے عزت نفس کے مجروح ہونے کا خدشہ موجود رہتا ہے۔ غریب طبقات میں شامل وہ لوگ جو خودداری اور عزت نفس کا مطلب ہی نہیں سمجھتے یا پھر غربت کے اس پاتال میں کھڑے رہتے ہیں جہاں عزت بے عزتی کی تفریق ختم ہو جاتی ہے وہ زکوٰۃ، خیرات، فطرے وغیرہ کی تلاش میں سرگرداں رہتے ہیں لیکن ان ہی غریب طبقات میں ایسے خود دار لوگ بھی ہوتے ہیں جنھیں بھوکے رہنا منظور ہوتا ہے لیکن انھیں زکوٰۃ فطرہ اور خیرات لینا ہرگز منظور نہیں ہوتا کیونکہ اسے وہ خودداری اور عزت نفس کی تضحیک سمجھتے ہیں۔

یہ تو ہوئیں انسانی ذات کے اوصاف اور عقائد کی باتیں لیکن اس حوالے سے اصل سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ محتاج و غنی کی یہ شرمناک تفریق میں خدا کی مرضی کا کوئی دخل ہوتا ہے؟ ہرگز نہیں ، محتاج و غنی ہمارے معاشی اور سماجی نظام کی پیداوار ہیں اور ہم اس معاشی اور سماجی نظام کو سرمایہ دارانہ نظام کے نام سے جانتے ہیں۔ اگر کسی ملک اور معاشرے میں انسان کو روزگار کی سہولت حاصل ہو اور اس کی محنت کا معاوضہ اتنا ملے کہ وہ آسانی سے اپنی بنیادی ضرورتیں پوری کر سکے تو پھر معاشرے کا کوئی فرد نہ زکوٰۃ کی طرف آنکھ اٹھا کر دیکھے گا نہ خیرات کی طرف نظر ڈالے گا حتیٰ کہ اگر پیشہ ور گداگروں کو بھی روزگار کے آسان مواقعے دستیاب ہوں تو وہ گداگری کو لات مار دے گا۔

ہمارے ملک میں جمہوری نظام قائم ہے اور جمہوری نظام عوام کے منتخب نمایندوں پر مشتمل ہوتا ہے جمہوری نظام میں انتخابات جمہوریت کا محور ہوتے ہیں اور ہر امیدوار خواہ وہ آزاد ہو یا اس کا تعلق کسی سیاسی جماعت سے ہو، عوام کے سامنے عوامی مسائل کے حل پرمشتمل ایک منشور پیش کرتا ہے اور عوام سے یہ درخواست کرتا ہے کہ اگر وہ اسے اپنے ووٹ دے کر برسر اقتدار کریں تو وہ عوام کے مسائل جن میں مہنگائی، بے روزگاری، غربت، بھوک، بیماری، بجلی گیس کی فراہمی وغیرہ جیسے مسائل شامل ہیں حل کرے گا۔

ہمارے حکمران طبقات جہاں کسی سیاسی خطرے کی بو محسوس کرتے ہیں فوری یہ بیان داغنا شروع کر دیتے ہیں کہ عوام نے انھیں مینڈیٹ یعنی پانچ سال تک حکمرانی کا حق دیا ہے لہٰذا کوئی انھیں اپنی مدت سے پہلے اقتدار سے نہیں ہٹا سکتا۔ یہ دھوکے باز کیا یہ نہیں جانتے کہ عوام کا مینڈیٹ ان کے مسائل کے حل اور ان کے انتخابی وعدوں سے مشروط ہوتا ہے؟ اگر حکمران اپنے منشور اور انتخابی وعدوں کے مطابق عوام کے مسائل حل کرنے میں ناکام ہوتے ہیں تو عوام اپنی اجتماعی طاقت سے انھیں اقتدار کے ایوانوں سے نکال باہر پھینک سکتے ہیں۔

عوام زکوٰۃ فطرہ خیرات کے لیے اس لیے مجبور ہیں کہ حکمران اپنے منشور اپنے انتخابی وعدوں کے مطابق ان کے مسائل حل کرنے سے قاصر رہتے ہیں اور اس لیے قاصر رہتے ہیں کہ ان کی ساری توجہ عوامی دولت کی لوٹ مار پر لگی رہتی ہے اگر حکمران اپنے وعدے اپنی ذمے داریاں پوری کرنے لگیں تو نہ عوام کو زکوٰۃ کی ضرورت رہے گی نہ فطرے اور زکوٰۃ کی۔ اس سادہ سی حقیقت کے پیش نظر زکوٰۃ فطرے اور خیرات کی حوصلہ افزائی کے بجائے حکمرانوں کو اپنی ذمے داریاں پوری کرنے پر مجبور کیا جانا چاہیے اور عوام کے حصے کی بھاری قومی دولت کو اس کے لٹیروں سے آزاد کرنے کی ترغیب فراہم کرنا چاہیے تاکہ معاشرہ باعزت اور خوشحال زندگی گزارنے کے قابل ہو سکے۔

ہمارے بہت سارے محترم لوگ زکوٰۃ، فطرہ اور خیرات کی تلقین کرتے ہیں جو بہ ظاہر ایک نیک کام ہے لیکن کیا ہی اچھا ہو کہ ان محترم معلمین کو یہ احساس بھی ہو جائے کہ عزت نفس اور خودداری انسان کا ایسا سرمایہ ہے جس کا کوئی بدل نہیں اور انسان کے ان دو بڑے اعزازات سے انسان کو نہ خدا محروم کرتا ہے نہ مذہب بلکہ انسان کو بے غیرت بنانے والا وہ طبقاتی نظام ہے جس کی جڑیں سرمایہ دارانہ نظام میں گڑی ہوئی ہیں۔ سماجی کام کرنے والوں کی زکوٰۃ، فطرے اور خیرات کے لیے اپیلوں سے اخبارات کے صفحات بھرے رہتے ہیں ان میں وہ ٹھگ بھی ہوتے ہیں جو لوگوں کے مذہبی جذبات سے فائدہ اٹھا کر اپنا الو سیدھا کرتے ہیں اور بھاری رقم جمع کر کے اس کا خودغرضانہ استعمال کرتے ہیں اور وہ لوگ بھی ہوتے ہیں جو زکوٰۃ، فطرہ وغیرہ کی بھاری رقوم کو انسانوں کی اجتماعی بھلائی کے کاموں میں استعمال کرتے ہیں۔ جن کی نیت اور خدمات پر شک نہیں کیا جا سکتا۔

ان نیک کاموں کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں لیکن کیا ہم ان مضمرات کو سمجھنے کی اہلیت نہیں رکھتے جو ان نیک کاموں کے پس منظر میں موجود ہوتے ہیں؟ ہمارے ملک کی کچھ سماجی تنظیمیں ہر روز ہزاروں بھوکوں کو کھانا کھلانے کا اہتمام کرتی ہیں جگہ جگہ بڑے بڑے دسترخوان لگے ہوتے ہیں جہاں ہزاروں لوگ کھانا کھاتے ہیں ان میں ایک بڑی تعداد ان لوگوں کی ہوتی ہے جو بے روزگاری اور غربت کے ستائے ہوئے ہوتے ہیں یہ خود پر جبرکر کے ان دسترخوانوں سے کھانا تو کھا لیتے ہیں لیکن یہ کھانا ان کے لیے زہر سے کم نہیں ہوتا۔ زکوٰۃ، فطرہ وغیرہ کی رقوم سے ضرورت مندوں کے لیے اسپتال اور اسکول بھی بنائے جاتے ہیں، بظاہر ان کاموں کا شمار نیک کاموں میں تو ہوتا ہے لیکن یہ کام نہ نیک دل لوگوں کا ہے نہ سماجی تنظیموں کی یہ ذمے داری ہے بلکہ ان سارے کاموں کی ذمے داری حکومت کی ہوتی ہے۔

مقبول خبریں