برصغیر کا مخدوش مستقبل
مقبوضہ کشمیر میں عوامی تحریک کے بے مثال ابھار نے بھارتی حکمران طبقے کی نیندیں حرام کردی ہیں
مقبوضہ کشمیر میں جیسے جیسے آزادی کی تحریک میں پھیلاؤ آرہا ہے ویسے ویسے ہندوستان اور پاکستان کے درمیان تناؤ اور بے اعتمادی میں اضافہ ہوتا جارہا ہے، اس حوالے سے یہ بھارتی اقدام کہ بھارتی حکام نے پاکستان میں متعین سفارتی عملے کے اسلام آباد کے اسکولوں میں زیر تعلیم بچوں کو واپس بلوالیا ہے، دونوں ملکوں میں موجود تناؤ اور بے اعتمادی کی فضا کو اور مستحکم کردے گا۔ اگرچہ اس مسئلے کو دونوں ملکوں کی وزارت خارجہ نے معمول کی کارروائی قرار دیا ہے اور ہوسکتا ہے کہ یہ معمول ہی کی کارروائی ہو لیکن مقبوضہ کشمیر میں تیزی سے بگڑتے ہوئے حالات کے تناظر میں بھارتی حکومت کے اس اقدام کو معمول کی کارروائی نہیں کہا جاسکتا۔
مقبوضہ کشمیر میں عوامی تحریک کے بے مثال ابھار نے بھارتی حکمران طبقے کی نیندیں حرام کردی ہیں، وہ حالات کو پرامن طریقوں اور بات چیت کے ذریعے بہتر بنانے کے بجائے طاقت کے اندھادھند استعمال سے حالات کو اور خراب کر رہے ہیں۔ پاکستان کے مشیر خارجہ سرتاج عزیز اس حوالے سے جو بیانات دے رہے ہیں وہ روایتی محتاط پالیسی کے برعکس زیادہ سخت ہیں۔
پاکستان کے اعلیٰ حکام بھی اب کھل کر کشمیری عوام کے حق خود ارادیت کی حمایت اور بھارتی حکام کی طرف سے عوامی تحریک کے خلاف طاقت کے اندھادھند استعمال کی مذمت کر رہے ہیں۔ بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ پاکستانی وزیراعظم کا کشمیر کو پاکستان بنانے کا خواب کبھی پورا نہ ہوگا۔ بھارتی وزیر خارجہ کا یہ بیان حقائق کے منافی اس لیے ہے کہ کشمیر کے مستقبل کا فیصلہ پاکستان کا وزیراعظم کرسکتا ہے نہ بھارت کا وزیراعظم، کشمیر کے مستقبل کا فیصلہ خواہ وہ آج ہو یا کل کشمیر کے عوام ہی کریں گے اور بھارتی حکام کی بدقسمتی یہ ہے کہ وہ نصف صدی سے زیادہ عرصہ گزرنے کے باوجود کشمیری عوام کی حمایت حاصل نہ کرسکے، اس کے برخلاف کشمیری عوام بھارتی پالیسیوں کے خلاف زیادہ مشتعل ہورہے ہیں۔
بھارت کا حکمران طبقہ بدقسمتی سے تقسیم ہند کے عوامل اور عوام کی نفسیات سمجھنے سے قاصر رہا ہے، بھارت کی اولین قیادت انگریزوں کی تقسیم کی سازش کو ناکام بنانے میں کامیاب نہ ہوسکی، ہندوستان سے نکلتے ہوئے نوآبادیاتی طاقتوں کا مفاد اس میں تھا کہ ہندوستان تقسیم ہو۔ سو انھوں نے اپنے ایجنٹوں کے ذریعے ایسے حالات، ایسی فرقہ وارانہ منافرتیں پیدا کیں کہ تقسیم ناگزیر ہوگئی۔ انگریزوں اور اس کے مقامی ایجنٹوں نے تقسیم ہی پر بس نہیں کیا بلکہ کشمیر کو بندر کا پھوڑا بناکر دونوں ملکوں کے حوالے کردیا۔ اور 68 سال سے دونوں ملک بندر کے اس پھوڑے کے بے معنی علاج میں مصروف ہیں، جو وقت کے ساتھ ساتھ ناسور بن گیا ہے۔
بھارت میں ترقی پسند طاقتیں بلاشبہ مضبوط تھیں لیکن وہ بھی انگریزوں کے مذہبی انتہاپسند ایجنٹوں کی سازشوں کو ناکام نہ بناسکیں اور لاکھوں انسان تقسیم ہند کی نذر ہوگئے۔ تاریخ کی اس بدترین خونریزی نے دونوں ملکوں کے عوام کے دلوں میں جو بدگمانیاں پیدا کردیں اس کا بہترین علاج یہ تھا کہ تقسیم کے بعد بھارت کی اولین حکومت برصغیر کے ڈیڑھ ارب عوام کے تابناک مستقبل کے حوالے سے مسئلہ کشمیر کے حل کو اپنی اولین ترجیح بنالیتی۔ تقسیم کے بعد کشمیر میں تیزی سے بگڑتے ہوئے حالات نے ہندو کو اس قدر خوفزدہ کردیا کہ وہ مسئلہ کشمیر کو اقوام متحدہ میں لے جانے پر مجبور ہوئے اور اقوام متحدہ نے فیصلہ کیا کہ رائے شماری کے ذریعے اس مسئلے کو حل کیا جائے۔
اگر بھارتی قیادت اقوام متحدہ ہی کی قراردادوں پر عمل کرتی تو آج برصغیر کی حالت بالکل مختلف ہوتی۔ لیکن بھارت کے دانشور وزیراعظم پنڈت نہرو نے اس خطے کے اجتماعی مستقبل کی بہتری کا خیال کرنے کے بجائے سرمایہ دارانہ نظام کی فراڈ لاجک ''قومی فساد'' کو ترجیح دی، جس کا عذاب دونوں ملکوں کے عوام 68 سال سے بھگت رہے ہیں اور مستقل کشیدگی کے ماحول میں زندہ درگور ہیں۔
اسے ہم حالات کی ستم ظریفی کہیں یا اس خطے کے عوام کی بدقسمتی کہ بھارت میں ایک ایسی حکومت برسر اقتدار ہے جو بھارت کو مذہبی ریاست بنانے کا منشور رکھتی ہے، اس حکومتی سیاست نے کشمیری عوام کو اور زیادہ بدظن کردیا ہے، انھیں بجا طور پر یہ خوف لاحق ہے کہ موجودہ بھارتی حکومت ان کے تشخص کو ختم کردے گی، اس خوف کو جواز یوں مل رہا ہے کہ مودی حکومت بھارتی آئین سے اس شق ہی کو ختم کرنے کی کوشش کر رہی ہے جو کشمیر کو معمولی حیثیت دیتی ہے۔ بھارتی حکمران بجائے پاکستان پر الزامات لگانے کی سیاست کرنے کے اگر مسئلہ کشمیر کے کسی منصفانہ حل کی کوشش کرتے تو نہ صرف بھارت اور پاکستان کے عوام کا مستقبل بہتر ہوجاتا بلکہ یہ خطہ جنگوں اور اسلحے کی بدترین دوڑ سے بھی نجات حاصل کرلیتا۔
بھارتی حکمران طبقہ کشمیر میں ہونے والی ہر گڑبڑ کی ذمے داری پاکستان پر ڈالتا آرہا ہے، بلاشبہ ایسی پالیسی سے بھارت کے جرائم کی پردہ پوشی ہوتی رہی لیکن اندر ہی اندر پکنے والا لاوا جب باہر آرہا ہے تو اب بھارتی حکمران طبقہ پریشانی کا شکار ہے۔ ماضی میں اکادکا ہونے والے دہشت گردی کے واقعات کو بھارتی حکمران گھس بیٹھیوں کی شرارت کا نام دیتے آرہے تھے لیکن اب جب کہ تین تین لاکھ کشمیری سڑکوں پر آرہے ہیں تو کیا بھارتی حکمران انھیں بھی گھس بیٹھیے ہی کا نام دیں گے۔
آج بھارتی افواج کی گولیوں سے پچاس ساٹھ کشمیری جاں بحق اور ہزاروں زخمی ہورہے ہیں، اگر بھارتی حکومت ہوش کے ناخن نہ لے تو آنے والے دنوں میں اس سے بہت بڑے ایسے المیے جنم لے سکتے ہیں جن کا مقابلہ بھارتی فوج نہیں کرسکتی۔ سب سے زیادہ تشویش کی بات یہ ہے کہ اس خطے میں سیکولرزم کو بھارتی پالیسیوں سے سخت نقصان پہنچ رہا ہے اور مذہبی انتہا پسندی فروغ پا رہی ہے۔ کیا بھارتی اہل علم، اہل دانش، اہل قلم کو اس نقصان کا ادراک ہے؟