بلدیاتی نظام اور سول سوسائٹی

اصل مسئلہ یہ ہے کہ سیاسی شخصیات جمہوریت کے پردے میں خاندانی حکمرانی کے نظام کو جاری اور مستحکم کرنا چاہتی ہیں


Zaheer Akhter Bedari August 11, 2016
[email protected]

ہمارے سیاستداں اٹھتے بیٹھتے جمہوریت کے راگ الاپتے رہتے ہیں، جو بڑی اچھی بات ہے لیکن پہلے تو ان اکابرین نے کبھی جمہوریت کو دانستہ طور پر سمجھنے ہی کی کوشش نہیں کی اور چند خاندانوں کے سیاست اور حکومتوں پر قبضے کو جمہوریت کا نام دے دیا ہے۔

دوسرے جمہوریت کی اس نرسری کو ہمیشہ پیروں تلے کچلنے کی کوشش کی جس کے استحکام کے بغیر جمہوریت کا تصورہی احمقانہ سمجھا جاتا ہے یعنی بلدیاتی نظام۔ اس بدنما حقیقت کو بار بار دہرانے کی ضرورت اس لیے پیش آتی ہے کہ اشرافیہ کی جمہوریت سے دلچسپی کا اندازہ عوام کو ہوسکے۔ 1947 قیام پاکستان کے بعد 1958 تک سیاسی حکومتیں برسر اقتدار رہیں اور اس کے بعد اگرچہ دو بارغیر جمہوری قوتوں نے اقتدار پر قبضہ کیا لیکن ہر غیر جمہوری حکومت نے کسی نہ کسی شکل میں بلدیاتی نظام کو بلدیاتی انتخابات کے ذریعے فعال رکھا جب کہ 1947 کے بعد سے برسر اقتدار آنے والی کسی سیاسی حکومت نے نہ بلدیاتی انتخابات کروائے نہ بلدیاتی نظام کو قائم اور مستحکم کرنے کی کوشش کی۔

جمہوری سیاست میں بلدیاتی نظام کو جمہوریت کی نرسری اس لیے کہا جاتا ہے کہ ان اداروں ہی سے سیاسی قیادت ابھرتی ہے اور فطرتاً بلدیاتی اداروں سے ابھرنے والی قیادت ملکوں میں جمہوریت کی جڑیں مضبوط کرنے اور جمہوریت کو مستحکم کرنے کا اہم ترین کردار ادا کرتی ہے لیکن ہمارے سیاستدانوں نے کبھی ان اہم ترین اداروں کو مستحکم کرنے کی کوشش نہیں کی یہ کوئی نادانستہ حرکت نہیں ہے بلکہ ایک سوچی سمجھی سازش ہے۔ جس کا مقصد نچلی سطح سے سیاسی قیادت کو ابھرنے سے روکنا ہے تاکہ 20 کروڑ عوام کا یہ ملک چند خاندانوں کی چراگاہ بنا رہے۔ اگر کوئی شخص جاری جمہوریت کو جمہوریت ماننے سے انکارکرتا ہے تو اس کا مطلب جمہوریت کی مخالفت کرنا نہیں بلکہ خاندانی حکومتوں کے بدنما کلچرکی مخالفت کرنا ہوتا ہے جو کسی حوالے سے بھی جمہوریت دشمنی نہیں ہے۔

یہ کس قدر افسوس کی بات ہے کہ 68 سال گزرجانے کے باوجود جب عدلیہ اور میڈیا کے شدید دباؤ کے نتیجے میں بلدیاتی انتخابات کرائے توگئے لیکن ''بوجوہ'' بلدیاتی نظام کو فنکشنل ہونے نہیں دیا جا رہا ہے، جس کا سرے سے کوئی جواز ہی نہیں ہے۔ عدلیہ کی طرف سے بار بار اس حرکت کے خلاف تنبیہ کی جا رہی ہے اور بلدیاتی نظام کو روبہ عمل لانے کی ہدایت کی جا رہی ہے لیکن نہ مرکزی حکومت کے کان پر جوں رینگتی دکھائی دیتی ہے نہ صوبائی حکومتیں ٹس سے مس ہوتی دکھائی دیتی ہیں۔ اس حوالے سے ہمارے سیاستدان بھی چپ کا روزہ رکھے نظر آتے ہیں۔ پانامہ لیکس اورکرپشن کے حوالے سے تو تحریکیں چلانے کی بات بھی ہورہی ہے اور تیاریاں بھی جاری ہیں لیکن بلدیاتی نظام کو فنکشنل کرانے کے حوالے سے نہ کوئی بات کی جا رہی ہے نہ کسی تحریک کی تیاری کی جا رہی ہے پانامہ لیکس کے انکشافات اورکرپشن یقینا اہم مسائل ہیں لیکن یہ بیماریاں اس لیے پیدا ہو رہی ہیں کہ ملک اشرافیائی غلاظت کے جوہڑوں سے بھرا پڑا ہے اور اس گندگی کو صاف کرنے میں بلدیاتی نظام اہم کردار ادا کرسکتا ہے۔

ملک کے ہر شہری کو سیاست میں حصہ لینے اور اقتدار تک پہنچنے کا حق حاصل ہے خواہ اس کا تعلق اشرافیہ ہی سے کیوں نہ ہو لیکن ہر جمہوری ملک میں اس کا ایک طریقہ کار اور پراسس متعین ہے اور وہ یہ ہے کہ سیاست کرنے اوراقتدار میں آنے کے شوقین حضرات کو بلدیاتی اداروں میں ''ہاؤس جاب'' مکمل کرنی پڑتی ہے ۔ بلدیاتی ادارے دراصل جمہوریت کے ٹریننگ اسکول ہیں اس کورس کو مکمل کرنے والے اتنے اہل ہوجاتے ہیں کہ انھیں قانون ساز اداروں میں کسی قسم کی مشکل پیش آتی ہے نہ جمہوری ادارے چلانے میں انھیں کسی قسم کی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس کے برخلاف ہو یہ رہا ہے کہ اشرافیہ کے لاڈلے ٹارزنوں کی طرح خاندانی ٹہنیاں پکڑکر عوام کے سروں پر دھڑام کے ساتھ کودتے ہیں اورگلشن کا کاروبار چلتا رہتا ہے۔

اصل مسئلہ یہ ہے کہ سیاسی شخصیات جمہوریت کے پردے میں خاندانی حکمرانی کے نظام کو جاری اور مستحکم کرنا چاہتی ہیں اور بلدیاتی نظام کو اس نظام کے لیے سنگین خطرہ سمجھتی ہیں کیونکہ بلدیاتی نظام فعال اور مستحکم ہوتا ہے تو خاندانی نظام کے تار پود بکھر جاتے ہیں۔ نچلی سطح سے سیاسی قیادت کے ابھرنے کے ہر راستے کو بند کردیا گیا ہے اور یہی نہیں بلکہ ملک میں ماضی بعید کے ولی عہدی نظام کو دیدہ دلیری کے ساتھ پروان چڑھایا جا رہا ہے اور پانامہ لیکس اور کرپشن کے خلاف عوام کو سڑکوں پر لانے والے عمائدین پانامہ لیکس اور کرپشن کو جنم دینے والے نظام کے خلاف زبان کھولنے کے لیے تیار نہیں۔

مسئلہ صرف بلدیاتی نظام کی راہ میں رکاوٹیں ڈالنے کا ہی نہیں ہے بلکہ پاکستان میں عوامی جہوریت کا راستہ روکنے کا ہے ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ جمہوریت کے نام پر مر مٹنے کا دعویٰ کرنے والے اکابرین بھی چہروں کی تبدیلی کو جمہوریت کا نام دے رہے ہیں اور اسی حوالے سے تحریکیں چلانے اور عوام کو سڑکوں پر لانے کی تیاریاں بھی کر رہے ہیں۔ کیا یہ عمائدین واقعی اتنے سادہ لوح ہیں کہ اشرافیائی جمہوریت اور عوامی جمہوریت کے درمیان پائے جانے والے فرق کو نہیں سمجھتے یا سب کچھ سمجھتے ہوئے چہرے بدلو کی سیاست اس لیے کرتے ہیں کہ خود بھی باریوں کی لائن میں لگ سکیں؟

اس مایوس کن پس منظر میں یہ بات بڑی حوصلہ افزا ہے کہ کراچی میں کچھ دوست بلدیاتی نظام کو فعال کرنے کے حوالے سے سنجیدہ اور منظم کوششیں کر رہے ہیں اس حوالے سے ہونے والی ایک نشست میں ہمیں شرکت کرنے کی پرزور دعوت بھی ملی تھی لیکن ہم اپنی طبیعت کی خرابی کی وجہ سے اس نشست میں شرکت نہ کرسکے جس کا ہمیں افسوس ہے لیکن ہمیں امید ہے کہ جمہوریت اور بلدیاتی نظام کے حقیقی حامی اس حوالے سے متحرک رہیں گے اور اندھیرے دور کرنے کی کوشش کریں گے۔ نئے شیڈول کے مطابق اگر میئر، ڈپٹی میئر کے تقرر ہوں تو بات آگے بڑھ سکتی ہے۔

مقبول خبریں