کشمیر اور جنوبی ایشیا کا مستقبل

ایڈمرل (ر) رام داس سے اس حوالے سے ہماری گفتگو ہوتی رہی ہے


Zaheer Akhter Bedari August 20, 2016
[email protected]

بیسویں صدی کے آخری حصے میں ہندوستان کے وہ اکابرین جو دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کی بہتری کے خواہش مند تھے بار بار پاکستان کے دورے پر آتے تھے اور ان لوگوں سے ملاقاتیں کرتے تھے جو دونوں ملکوں کے درمیان موجود خلیج کو پاٹنے میں دلچسپی رکھتے تھے۔ اس حوالے سے جو بھارتی اکابرین فعال کردار ادا کر رہے تھے ان میں بھارتی نیوی کے سابق چیف ایڈمرل (ر) رام داس اور نرملا دیش پانڈے وغیرہ سرفہرست تھے۔ ان دوستوں کی بڑی خواہش تھی کہ کسی طرح دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات بہتر ہو جائیں۔

ایڈمرل (ر) رام داس سے اس حوالے سے ہماری گفتگو ہوتی رہی ہے، لیکن مجبوری یہ دیکھی گئی کہ کشمیر کے حوالے سے بھارتی حکومت جس پالیسی پر گامزن ہے اس سے انحراف یا اس میں کوئی بامقصد تبدیلی کے حوالے سے یہ اکابرین جمود کا شکار تھے، جب کہ وقت اور حالات کا تقاضا یہ رہا ہے کہ دونوں پڑوسی ملکوں کے درمیان مسئلہ کشمیر فریقین کے مفادات کے تحفظ کے ساتھ حل ہو۔ ایڈمرل رام داس، نرملا دیش پانڈے نے اپنی سی کوششیں کیں، لیکن بدقسمتی یا مجبوری سے ان کی کوششیں کامیاب نہ ہو سکیں۔

اب صورتحال میں ایک بامعنی تبدیلی آ گئی ہے، ماضی میں کشمیر کی آزادی کے حوالے سے جو مجاہدین کشمیر میں سرگرم رہتے تھے بھارت انھیں گھس بیٹھیے اور پاکستان کے ایجنٹ کہا کرتا تھا اور اس کی بات میں وزن اس لیے محسوس ہوتا تھا کہ مقبوضہ کشمیر کے عوام اس جنگ میں زیادہ متحرک اور فعال نظر نہیں آتے تھے۔ لیکن اب صورتحال میں ایک معنوی تبدیلی آ گئی ہے اب مقبوضہ کشمیر میں مجاہدین انڈین سیکیورٹی فورسز سے برسر پیکار نہیں بلکہ لاکھوں کشمیری سڑکوں پر آ رہے ہیں اور اپنی جانوں کی قربانیاں دے رہے ہیں۔ پچھلے چند ہفتوں کے دوران ہونے والی جدوجہد میں 100 کے لگ بھگ کشمیری عوام جاں بحق اور ہزاروں زخمی ہو گئے ہیں۔

صورت حال کی سنگینی کا اندازہ اس حقیقت سے لگایا جا سکتا ہے کہ وہاں لگ بھگ ڈیڑھ ماہ سے کرفیو نافذ ہے اور سارا کاروبار زندگی ٹھپ پڑا ہے۔ روز ٹی وی اسکرین پر کشمیری عوام کو بھارتی سیکیورٹی فورسز سے لڑتے ہوئے اور بھارتی فورسز کے کشمیری عوام پر تشدد کے جو مناظر دیکھے جا رہے ہیں وہ دنیا بھر کے انسان دوست لوگوں کے لیے سخت تشویش کا باعث بنے ہوئے ہیں۔

انسانی حقوق کی تنظیمیں بھارتی فوج کے مظالم پر سخت احتجاج کر رہی ہیں اور امریکا سمیت مغربی ممالک بھارت اور پاکستان کی حکومتوں پر زور دے رہے ہیں کہ وہ اس خون آموز مسئلے کو حل کرنے کے لیے مذاکرات کا راستہ اختیار کریں۔ لیکن مغربی ملکوں کی خارجہ پالیسیوں کا عالم یہ ہے کہ اسرائیل پر فلسطینی اگر کوئی چھوٹا سا حملہ بھی کرتے ہیں تو وائٹ ہاؤس میں زلزلہ آ جاتا ہے اور مغربی ملکوں کے حکمرانوں کی نیندیں حرام ہو جاتی ہیں لیکن کشمیر میں اب تک 80-70 ہزار کشمیری بھارتی فوجوں کے ہاتھوں مارے جا چکے ہیں اور آج کشمیر بارود کا ڈھیر بنا ہوا ہے لیکن ان حکمرانوں کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی۔ مغربی ملکوں کے اس دوہرے معیار کی وجہ سے کشمیر اور فلسطین خون میں نہائے کھڑے ہیں۔

بھارت کی پہلی حکومت سے لے کر آج کی بی جے پی کی حکومت تک سب کی پالیسی کشمیر کے حوالے سے غیر حقیقت پسندانہ اور جارحانہ رہی ہے۔ بھارت کی کسی حکومت نے کشمیر کے مسئلے کو کشمیری عوام کا مسئلہ نہیں سمجھا، بلکہ بھارتی حکمرانوں نے اس مسئلے کو ہمیشہ زمین کے مسئلے کی طرح دیکھا، جس سے ان کے قومی مفادات جڑے ہوئے ہیں۔ سیاستدان خواہ اس کا تعلق کسی ملک سے کیوں نہ ہو اس کی پہلی ترجیح ''قومی مفادات'' ہوتی ہے اور سرمایہ دارانہ استحصالی نظام میں قومی مفادات کا مطلب اشرافیہ کے مفادات ہوتا ہے۔

اس پس منظر میں بھارتی سیاستدانوں اور حکمرانوں سے یہ توقع نہیں کی جا سکتی کہ وہ کشمیری سرزمین سے جڑے ہوئے اپنے نام نہاد قومی مفادات سے ہٹ کر کشمیری عوام کے حقوق اور ان کے مستقبل کے حوالے سے مسئلہ کشمیر پر غور کرے۔ اس بدنما حقیقت کا تقاضا یہ ہے کہ برصغیر اور جنوبی ایشیا کے دو ارب کے لگ بھگ عوام کے بہتر مستقبل کے پس منظر میں بھارت کے اہل علم، اہل قلم، اہل دانش، ادیب، شاعر، فنکار آگے بڑھیں اور حکومت پر دباؤ ڈالیں کہ وہ اس خطے کے مفادات اور بہتر مستقبل کے تناظر میں مسئلہ کشمیر کو کشمیری عوام کی مرضی کے مطابق حل کرنے کی کوشش کرے۔ اس کی ضرورت اور اہمیت اس لیے بھی ہے کہ بھارت دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہے اور جمہوریت کی اساس رائے عامہ کا احترام ہے۔

آج کی سر سے پیر تک بدلی ہوئی دنیا میں قوم پرستی نظریات و عقائد ماضی کی داستانیں بنتے جا رہے ہیں۔ دنیا بھر کے عوام ملک و ملت عقائد و نظریات کی حد بندیوں کو توڑ کر انسانیت کے عالمگیر رشتے کی طرف پیش قدمی کر رہے ہیں، لیکن کشمیر اور فلسطین جیسے تنازعات اس مثبت پیش قدمی کی راہ میں حائل ہو رہے ہیں۔ بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ دنیا کا حکمران طبقہ جو اپنی اصل میں سرمایہ دارانہ نظام کا ایجنٹ ہے، اس نئے عالمی کلچر کو اپنے مفادات کے خلاف سمجھتا ہے۔ بھارت کا حکمران طبقہ بدقسمتی سے ابھی تک مذہبی انتہاپسندی کی برائی میں گرفتار ہے اور ماضی کے مقابلے میں اس کی نظریاتی ترجیحات بہت مختلف ہیں۔ ماضی کی غیر جانبدار سیاست کے حوالے سے پہچانے جانے والا بھارت اب امریکا کا فوجی اتحادی ہے اور امریکا اسے چین کے خلاف استعمال کر رہا ہے۔ بھارت کے غیر سیاسی طبقات کو اس موقع پر خود بھارت اور جنوبی ایشیا کے مفادات کی خاطر مسئلہ کشمیر کے حل میں موثر کردار ادا کرنا ہو گا۔

مقبول خبریں