رائے ونڈ مارچ

ہمارے قومی مسائل میں سرفہرست مسئلہ زرعی اصلاحات کا ہے۔


Zaheer Akhter Bedari September 23, 2016
[email protected]

KARACHI: کسی بھی ملک میں اگر سیاستدان باشعوراور عوام ملک وملت کے بہی خواہ ہوں تو وہ اہم قومی مسائل کا تعین کرتے ہیں اور ان کو حل کرنے کے لیے موثر اقدامات کرتے ہیں۔ پاکستان کو قائم ہوئے اب 69 سال ہو رہے ہیں، لیکن اس طویل عرصے میں نہ قومی مسائل کا تعین کیا گیا نہ انھیں حل کرنے کی کوئی مخلصانہ کوشش کی گئی۔ ہمارے قومی مسائل میں سرفہرست مسئلہ زرعی اصلاحات کا ہے۔

ایوب خان، بھٹو نے اگرچہ زرعی اصلاحات کے لیے اقدامات کیے لیکن ملک پر قابض جاگیردار طبقے نے ان زرعی اصلاحات کو ناکام بنا دیا آج بھی سندھ اور جنوبی پنجاب میں جاگیردارانہ وڈیرہ شاہی نظام موجود ہے اور ماضی کی طرح سیاست اور اقتدار پر ان ہی طبقات کا کنٹرول ہے۔ جس کی وجہ ہم سیاسی حوالے سے انتہائی پسماندہ قوموں میں شمار ہوتے ہیں۔ جاگیردارانہ نظام کسی بھی ملک کو ترقی کی جانب پیش قدمی میں ایک بڑی رکاوٹ بنا رہتا ہے۔ اس کا اندازہ اس حقیقت سے لگایا جا سکتا ہے کہ دیہی زرعی معیشت پر قابض جاگیردار اور وڈیرے نہ صرف سیاست پر کنٹرول رکھتے ہیں بلکہ دیہی علاقوں کو نام نہاد جمہوری الیکشن میں ایک موثر حلقہ انتخاب کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔

ہماری حالیہ سیاست میں طاہر القادری کی اور عمران خان کی تحریک انصاف ملکی نظام بدلنے کے نعروں کے ساتھ متحرک اور فعال ہیں۔ چہروں کی تبدیلی کے پرانے اور فرسودہ نظام کو بدلنے کی باتیں ہمارے دونوں طاقتور رہنما کر رہے ہیں لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ ان کے منشور میں زرعی اصلاحات کا ذکر نہیں ملتا اور عملی سیاست میں بھی ان دونوں اکابرین نے زرعی اصلاحات کو سرے سے نظرانداز کیا ہوا ہے۔ ان کے علاوہ دوسری سیاسی اورمذہبی جماعتیں بھی نظام کی تبدیلی کی بات تو کرتی ہیں لیکن نظام کی تبدیلی کی راہ میں حائل سب سے بڑی رکاوٹ کو دورکرنے کے لیے زرعی اصلاحات کے مطالبے سے گریزاں رہتی ہیں۔

عمران خان آج کی ملکی سیاست میں سب سے زیادہ مقبول سیاستدان مانے جاتے ہیں اور ان کے ہر جلسے ہر ریلی میں عوام کی بہت بڑی تعداد شامل ہوتی ہے۔ طاہرالقادری سیاستدان ہونے کے ساتھ ساتھ ایک مضبوط اور منظم مذہبی جماعت منہاج القرآن کے سربراہ بھی ہیں اور ان کے کارکنوں میں خواتین کی ایک بڑی تعداد بھی ہے جو اپنے قائدکے ہر فرمان پر لبیک کہتی ہے 2014ء کی دھرنا تحریک میں منہاج القرآن کی خواتین نے جس استقامت اور نظم و ضبط کا مظاہرہ کیا اگر اس منظم اور نظریاتی طاقت کو طاہر القادری زرعی اصلاحات کے ساتھ جاگیردارانہ نظام کی تبدیلی کے لیے استعمال کریں اور عمران خان بھی زرعی اصلاحات کو اپنے سیاسی ایجنڈے میں سرفہرست رکھیں تو عوام کی بھاری تعداد اس تحریک میں شامل ہو سکتی ہے۔ ہماری زرعی معیشت سے جڑے ہوئے کسان اور ہاری جو صدیوں سے غلاموں کی طرح جاگیرداروں اور وڈیروں کی گرفت میں ہیں، وہ اس نظام سے چھٹکارا پانے کے لیے عمران خان اور طاہرالقادری کے گرد جمع ہو سکتے ہیں۔

ماضی میں صرف بائیں بازو کی سیاسی جماعتوں اور سیاسی رہنماؤں نے جاگیردارانہ نظام کے خاتمے کے لیے موثر جدوجہد کی پنجاب میں چوہدری فتح محمد خیبرپختونخوا میں میجر اسحق مرحوم نے اور سندھ میں ہاری تحریک کے رہنما حیدربخش جتوئی نے اس فرسودہ جاگیردارانہ نظام کو بدلنے کی بہت کوشش کی اس کا نتیجہ تھا کہ ایوب خان اور بھٹو کو زرعی اصلاحات کا اعلان کرنا پڑا لیکن تحریک پاکستان اور قیام پاکستان کے بعد سیاست پر حاوی جاگیردار طبقے نے ان زرعی اصلاحات کو ناکام بنا دیا۔ ہمارے ملک میں دو جماعتیں باری باری اقتدار میں آتی رہی ہیں، جن میں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) شامل ہے، لیکن ان دونوں جماعتوں نے کبھی زرعی اصلاحات جیسے اہم اور بنیادی مسئلے پر بوجوہ توجہ نہیں دی۔

پیپلز پارٹی پر ابھی تک وڈیروں کا گہرا اثرورسوخ ہے۔ اس لیے اس سے یہ توقع بے کار ہے کہ وہ زرعی اصلاحات کو اپنے ایجنڈے کا حصہ بنائے گی لیکن مسلم لیگ (ن) کی قیادت ایک صنعتکارکے ہاتھوں میں ہے اور صنعتکار طبقاتی طور پر جاگیردارانہ نظام کا دشمن ہوتا ہے لیکن یہ کیسی مفاد پرست اور موقع پرست ہے کہ ایک صنعتکار کی جماعت مسلم لیگ (ن) زرعی اصلاحات کا نام تک لینے کی روادار نہیں۔اس کی وجہ یہ ہے کہ اس صنعتکارکو جاگیرداروں کی پشت پناہی حاصل ہے اور وہ ان ہی سہولت کاروں کی مدد سے یہ صنعتکار اقتدار پر قابض ہے۔

اس میں شک نہیں ہے کہ عمران خان اور طاہر القادری آج کی سیاست میں ایک موثر سیاسی طاقت کے مالک ہیں اوراگر وہ اہم قومی مسائل کا تعین کرکے ان مسائل کو اپنے ایجنڈے میں شامل کریں تو عوام کی توجہ حاصل کرسکتے ہیں۔ پاکستان کی موجودہ سیاست میں اگرچہ عمران خان اور طاہر القادری طاقتورسیاستدان کی حیثیت سے موجود ہیں لیکن بدقسمتی سے وہ اب تک نان ایشوز کی سیاست کر رہے ہیں۔ عمران خان کو ہماری انتخابات میں دھاندلی کی شکایت ہے لیکن موصوف صرف دھاندلی کے خلاف چار حلقے کھولنے کا مطالبہ کرتے ہیں ۔

انھیں اس حقیقت کا کیا ادراک نہیں کہ ہمارا پورا انتخابی نظام اشرافیہ کا خدمت گزار ہے۔ عمران خان کی ذمے داری ہے کہ وہ ہمارے انتخابی نظام میں ایسی تبدیلیاں لانے کی کوشش کریں کہ ہاریوں ،کسانوں، مزدوروں ڈاکٹروں وکلا کے نمایندے قانون ساز اداروں میں پہنچ سکیں۔ رائے ونڈ مارچ جن مطالبات کے ساتھ کیا جا رہا ہے اگر عمران خان ان مطالبات میں زرعی اصلاحات اور انتخابی نظام میں تبدیلی کے اہم اور بنیادی مسائل کو شامل کرلیں تو نہ صرف یہ مارچ بامعنی ہوسکتا ہے بلکہ عوام بھی اس مارچ کا حصہ بن سکتے ہیں کیونکہ ان مطالبات کا تعلق غریب طبقات کے لیے قانون ساز اداروں کے دروازے کھولنا ہوگا اور یہ مطالبات مزدوروں کسانوں کو متحرک کرسکتے ہیں۔ کیا عمران خان ان مطالبات کو رائے ونڈ مارچ میں شامل کریں گے؟

مقبول خبریں