شہید ہوش محمد شیدی

لیاقت راجپر  جمعرات 29 ستمبر 2016

انگریزوں نے جب سندھ پر قبضہ کیا تو اس سے آزادی پانے کے لیے کئی جوانوں نے اپنی جان کا نذرانہ دیا مگر کچھ ایسے بھی ہیرو تھے جنھوں نے ان سے مقابلہ کیا اور شہید ہو گئے۔ تا کہ وہ یہ نہ سمجھیں کہ انھیں روکنے والے نہیں ہیں۔ ان میں ایک شہید ہوش محمد شیدی بھی تھا جس نے انگریز فوج کو للکارا اور لڑتے لڑتے اپنی جان قربان کر دی۔

اس مہان ہستی نے ایک نعرہ بلندکیا تھا کہ ’’مرسوں مرسوں سندھ نہ ڈیسوں‘‘ یہ نعرہ سرائیکی زبان میں ہے، کیونکہ جب انگریزوں نے سندھ پر حملہ کیا تو اس وقت ٹالپروں کی حکومت تھی جو سندھی اور سرائیکی زبانیں بولتے تھے۔ سرائیکی زبان بہت کثرت کے ساتھ سندھ میں بولی جاتی تھی اور اس وقت بھی سندھ میں سرائیکی بولنے والوں کی ایک بڑی تعداد رہتی ہے۔

ہوش محمد جسے ’’ہوشو‘‘ کہا جاتا تھا اس کا تعلق شیدی قوم سے تھا۔ شیدی قوم سندھ میں کئی صدیوں سے آباد ہے۔ وہ افریقن جیسے لگتے ہیں، شاید ان کے آباؤ اجداد کئی صدیاں پہلے سندھ میں آئے ہوں۔ اس وقت بھی اس نسل کے لوگ سندھ میں ایک اچھی خاصی تعداد میں موجود ہیں۔ اس وقت بھی حیدرآباد کے قریب ایک شیدی گاؤں ہے جہاں پر ہوشو کے خاندان کے لوگ بستے ہیں جنھیں سندھ سے بے حد محبت ہے اور وہ کہتے ہیں کہ سندھ کے لیے وہ بھی اپنی جان دینے کے لیے ہر وقت تیار ہیں۔

ہوشو کے والد کا نام سبھاگو اور ماں کا نام دائی تھا۔ جب کہ اس کے بھائی کا نام نصیبو اور بہن کا نام سیتاجی تھا۔ یہ نام بالکل سندھیوں کا ہے جس سے ان لوگوں کی محبت سندھ کے ساتھ ظاہر ہوتی ہے۔

تاریخ میں ہوشو کے بارے میں کچھ باتیں مختلف ہیں اور خاص طور پر اس کے جنم کے بارے میں اور اس کے مزار کے بارے میں۔ بہر حال کہتے ہیں کہ ہوشو میر فتح علی ٹالپر کے گھر میں ہی پیدا ہوئے تھے کیوںکہ ان کی والدہ میرکے گھر کے نظام کو چلانے میں خاص اہمیت رکھتی تھی اور اس کے پاس گھرکی ہر چابی ہوتی تھی۔

ہوش محمد پیدا ہوئے تو ان کی پرورش بھی ٹالپر کے گھر میں ہوئی اور انھیں گھرکا فرد سمجھا جاتا تھا۔ جب وہ جوانی میں داخل ہوئے تو انھیں فوج میں بھرتی کیا گیا، اس کی کارکردگی اتنی اچھی تھی کہ اسے جلد ہی ایک پلاٹون کا انچارج بنایاگیا جس کی دوسری وجہ یہ بھی تھی کہ وہ بہت وفادار تھے، ان کے آباؤ اجداد شروع ہی سے فوج میں رہے ہیں اورکہتے ہیں کہ وہ کلہوڑہ دور میں بھی آرمی میں کام کرتے تھے۔

ہوشو اپنی بہادری کے کارنامے دکھاتے دکھاتے جنرل کے عہدے تک پہنچ گیا، کسی نے لکھا ہے کہ ہوشو افریقا سے آئے تھے اور وہ مسقط آرمی میں تھے جہاں پر انھوں نے لڑائی میں مہارت حاصل کی اور اس پر عبور پایا۔کہتے ہیں جب نپولین کے ساتھ لڑائی ہوئی تو وہ اس میں شریک ہوئے تھے جس کے لیے انھیں مصر بھیجا گیا تھا جیسا کہ مسقط کے سلطان سے ٹالپروں کی دوستی تھی اور وہاں پر جب انھوں نے ہوشو کو دیکھا تو سلطان سے اسے خرید کر سندھ لے آئے لیکن یہ حقیقت صحیح نہیں لگتی کیوںکہ شیدی قبیلہ سندھ میں صدیوں سے آباد ہے اور ان کے پچھلے اور اگلے سب سندھی بولتے رہے ہیں اور اس وقت بھی بڑی تعداد یہاں پر آباد ہیں جن کا کہناہے کہ ہوشو یہیں پیدا ہوئے اور اسے سندھ سے اس لیے بے حد محبت اور عقیدت تھی۔

ہوشو کے خاندان کے پرانے لوگ اور وہاں پر بسنے والے اور لوگ کہتے ہیں کہ وہ 1801ء میں پیدا ہوئے تھے اور واقعی ٹالپر کے گھر پلے بڑھے ہیں اور وہ میر صوبیدار کے ساتھی تھے جو میر فتح علی خان کا بیٹا تھا اور سندھ کے اس وقت حکمران تھے۔

انگریزوں نے سندھ کی خوش حالی دیکھ کر اس پر قبضہ کرنے کا منصوبہ بنایا اور یہ کوشش کی کہ ٹالپر حکمرانوں میں ان لوگوں کو اپنے ساتھ ملایا جائے جو آسانی کے ساتھ ان کی جھوٹی باتوں میں آ جائیں اور پھر اس سلسلے میں انھوں نے سب سے پہلے صوبیدار ٹالپر کے ساتھ دوستی کا ہاتھ بڑھایا اور اس کی حمایت حاصل کر کے ٹالپروں کے خلاف سازش شروع کر دی جب اس بات کا پتہ ہوشوکو چلا تو انھوں نے صوبیدار کو انگریزوں کی سازشوں سے آگاہ کیا اورکہاکہ انگریز اس طرح سے سندھ پر حملہ کر کے حکومت پر قبضہ پر قبضہ کر لیں گے۔

صوبیدار نے ہوشوکی اس بات پر کان نہیں دھرا اور انگریزوں کے ساتھ دوستی کو بڑھاتا گیا چنانچہ اس طرح سے انگریزوں نے اور کئی ٹالپر خاندان کے با اثر افراد کو اپنے ساتھ کر لیا اب انگریزوں نے سب کو راضی کر لیا کہ وہ ان کے ساتھ ایک معاہدہ کریں جس سے ٹالپر حکمرانوں کو فائدہ ملے گا۔ اب جب برٹش گورنمنٹ نے ٹالپروں کا اعتماد پا لیا تو انھوں نے 11 جنوری 1943ء میں سندھ پر حملہ کر دیا اور فتح کر کے اس پر قبضہ کر لیا۔

اس سلسلے میں میانی کے میدان میں ایک فیصلہ کن لڑائی انگریز فوج اور ٹالپر فوج کے درمیان ہوئی، دوبارہ ہوشو نے صوبیدار سے کہا کہ وہ کھل کر اپنا کردار ادا کریں ورنہ ہمارے نوجوان مفت میں مارے جائیںگے۔ اس کے بعد انگریز فوج نے امام گھاڑہ قلعہ پر حملے تیز کر دیے اور آخر کار میرصوبیدار اور دوسرے سرداروں کو اپنا قیدی بنا لیا۔

یہ صورتحال دیکھ کر ہوشو میں حب الوطنی کا جذبہ سمندر کی لہروں کی طرح امنڈ پڑا اور اس نے کئی جگہوں سے بہادر اور وفادار سپاہی اکٹھے کیے۔ نفرت اور غصہ کی آگ نے ہوشو کو اس بات پر طیش دلایا کہ اب انگریزوں سے آمنے سامنے مقابلہ کرینگے چاہے کچھ بھی ہو جائے کیونکہ سندھ کی سرزمین پر انگریزوں کا قبضہ منظور نہیں ہے۔ اب ہوشو شیر محمد ٹالپر کے پاس پہنچے جو میرپور خاص میں تھے۔

اب یہ فیصلہ ہوا کہ کسی بھی صورت میں سندھ کو انگریزوں کے قبضے سے آزاد کروانا ہے، میر شیر محمد، ہوشو کو اپنے ساتھ پا کر بہت خوش ہوئے اور اس کی ہمت اور بڑھ گئی، ہوشو اور شیر محمد اپنی فوج کے ساتھ حیدرآباد کی طرف 10 مارچ 1843ء کو نکل پڑے، جب 23 مارچ 1843ء کو ہوشو سے پھلیلی واہ کراس کر کے وہاں پہنچے تو دونوں فوجیں ایک دوسرے کے آمنے سامنے آگئیں۔

ہوشو بہت بہادر اور بے خوف جنگجو تھا، انگریزوں کی صفوں میں چلا گیا تاکہ ان کے ساتھ جتنے بھی ساتھی فوجی ہیں ان کی ہمت بڑھے، ان کا جنرل خود آگے جاکر لڑ رہا ہے وہ للکارتے ہوئے کہنے لگا ’’مرسوں مرسوں سندھ نہ ڈیسوں‘‘ (مر جائیں گے مگر سندھ تمہارے حوالے نہیں کریںگے) وہ بڑی جرأت کے ساتھ لڑتے رہے اور اپنے تجربے کے مطابق اپنی جنگی مہارت دکھاتے رہے اور کئی انگریز فوجی ڈھیرکردیے اگرچہ ہوشو کے سپاہی تعداد میں کم رہ گئے پھر بھی انھوں نے اور باقی سر فروشوں نے ہتھیار نہیں ڈالے اور لڑتے لڑتے شہید ہوگئے۔ آخری الفاظ ان کے منہ سے یہ نکلے تھے کہ زندگی کی آخری سانس تک سندھ کی حفاظت کریںگے۔

مجھے یہ دیکھ کر اتنا زیادہ افسوس ہوتا ہے کہ اب تک یہ پتہ نہیں لگایا جا سکا کہ ہوش محمد شہید کا مزار کون سا ہے اور انھیں کہاں دفن کیا گیا ہے؟ اگر پکہ قلعہ والی جگہ ہے تو پھر اس کے خاندان والے کیوں کہتے ہیں کہ ہوشو کا مزار ان کے گاؤں کے قریب ہے۔ دوسری جگہ کے لیے میانیا کا نام لیا جاتا ہے، ان کے کچھ خاندان والے کہتے ہیں کہ اس کی قبر دجی جھنڈو ناریجو میں ہے جس کی تصدیق وہاں کے ایک رہنے والے سیال ذات کے عمر رسیدہ فرد نے کی ہے، وہاں پر کچھ سال پہلے اس کی برسی بھی منائی جاتی تھی جو اب آپس میں نا اتفاقی کی وجہ سے موخر ہے ۔ اس سلسلے میں ایک البخش شیدی جماعت بنائی گئی تھی جس کی طرف سے ہر سال ہوشوکی برسی منائی جاتی تھی، اس پر پروگرامزکیے جاتے تھے۔

یاد کیجیے ایک دن پی پی پی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے بھی یہ نعرہ لگایا تھا کہ مرسوں مرسوں سندھ نہ ڈیسوں اور پھر وہ ہوش محمد شیدی شہید کے مزار پر حاضری دینے آئے تو معلوم ہوا کہ پکے قلعے میں مزار کو تالا لگا ہوا ہے اور اس کی چابی مزار کے برابر ایک گھر میں کسی کے پاس ہے اور لوگ اس سے لے کر فاتحہ پڑھتے ہیں۔ بلاول نے مزار کی مرمت کے لیے حکومت سندھ سے کہا یہ وعدہ ابھی تک پورا نہیں ہوا ہے۔ شیدی جماعت کے صدرمعشوق علی قمبرانی نے بلاول بھٹو زرداری سے اپیل کی ہے کہ وہ اپنا وعدہ نبھائیں۔

آپ اندازہ لگائیں کہ جو انگریز افسر اور سپاہی اس جنگ میں مرگئے تھے ان کے لیے برطانیہ نے اور ان کے رشتے داروں نے کتنی شاندار یادگاریں بنائی ہیں جہاں پر ہر دوسال یا پھر ایک سال میں ان کے اپنے آتے ہیں، وہاں پر ان یادگاروں کی مرمت کرواتے ہیں اور وہاں پر انھوں نے صفائی اور دیکھ بھال کے لیے پیسوں پر لوگ متعین کیے ہیں جب کہ ہمارے ہیرو فراموش کردیے گئے جو اپنے وطن کو بچانے کے لیے شہید ہوگئے، پھر بھی کوئی انھیں یاد نہیں کر رہا ہے شاید آیندہ ہم میں سے کوئی بھی ایسا پیدا نہیں ہوسکے گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔