اردو افسانہ عالمی افسانے کے سامنے کھڑا ہونے کی قوت رکھتا ہے

اقبال خورشید  جمعرات 24 نومبر 2016
ہمارے نقاد پڑھنے سے گریزاں ہیں، نظریہ تھوپنے کی کوشش میں فن ختم ہوجاتا ہے۔ فوٹو: ایکسپریس

ہمارے نقاد پڑھنے سے گریزاں ہیں، نظریہ تھوپنے کی کوشش میں فن ختم ہوجاتا ہے۔ فوٹو: ایکسپریس

دیواروں پر لگے شیلف میں کتابیں سانس لیتی ہیں۔ بڑا تنوع ہے۔ فکشن کا موضوع غالب، مگر تاریخ، مذہب، شاعری اور تصوف پر بھی قابل مطالعہ کتابیں ادھر موجود۔ کمرے میں جو چھوٹی بڑی میزیں ہیں، ان پر بھی کتابیں پلکیں جھپکتی ہیں۔ پاؤلو کوئلیو کے دو ناول بھی دھرے تھے۔ پوچھا، تو کہنے لگے؛ پوتوں نے تحفے میں دیے ہیں۔ پڑھے، تو اچھے لگے۔ موقف اُن کا یہی کہ کہانی کار کو ہر طرح کا ادب پڑھنا چاہیے۔

ناقدین انھیں ایک ایسے گوشہ نشین، درویش صفت افسانہ نگار کے طور پر دیکھتے ہیں، جس کے ہاں جدیدیت کی مثبت قدریں فطری طور پر جلوے دِکھاتی ہیں، اور جس نے بیسویں صدی کی کرب انگیز کروٹوں کو حقیقی معنوں میں محسوس کیا۔ اے خیام کی تخلیقات کے پس منظر میں برسوں کا مطالعہ بھی ہے، نگری نگری پھرنے کا تجربہ بھی، جو ان کی کہانی کی گہرائی میں بہتا ضرور ہے، مگر وہ اُسے تخلیق پر غالب نہیں آنے دیتے۔ عہد حاضر کو موضوع بناتے ہیں، مگر ماضی سے بھی ناتا قائم رہتا ہے۔

عشروں قبل۔۔۔ یہ ’’اوراق‘‘سے اٹھتی تازہ لہریں تھیں، جس نے اے خیام کو جدید ادبی نظریات کی سمت متوجہ کیا، اور ان کے فکشن میں نئے رجحانات ابھرنے لگے۔ لکھنا 60 کی دہائی میں شروع کیا تھا، مگر پہلا مجموعہ ’’کپل وستو کا شہزادہ‘‘ 93ء میں شایع ہوا۔ اشاعت میں تاخیر کا سبب اپنی کاہلی کو ٹھہراتے ہیں۔ یہ ان کے دوست اور معروف قلم کار، شہزاد منظر تھے، جنھوں نے مطبوعہ افسانوں کا چناؤ کیا، اور انھیں کتابی صورت دی۔ ورنہ اے خیام کو تو پیشہ ورانہ ذمے داریوں نے گھیر رکھا تھا۔ 2005 میں افسانوی مجموعہ ’’خالی ہاتھ‘‘ شایع ہوا۔ تیسرا مجموعہ ’’جنت جہنم ‘‘ رواں برس آیا۔

ناول’’سراب منزل‘‘ کا سن اشاعت 2014۔ اس کی کہانی یورپ میں غیرقانونی تارکین وطن کے گرد گھومتی ہے۔ ماجرے کا آغاز کراچی سے ہوتا ہے، جو ایمسٹرڈم تک جاتا ہے۔ قارئین نے جہاں ایک اہم ایشو کو فکشن کا روپ دینے پر تعریف کی، وہیں اس کی مطالعیت کو بھی سراہا۔ کہتے ہیں، ناول لکھنے کا ارادہ تو تھا، مگر جب بھی کوشش کی، موضوع افسانہ بن کر ختم ہوگیا۔ آخر کار نیدرلینڈز میں بیتے دنوں کے تجربات و مشاہدات نے وہ موضوع اور کردار عطا کیے، جو ناول کے قالب میں ڈھلے۔ آج کل بھی ایک ناول پر کام کر رہے ہیں۔ ان کے تنقیدی مضامین کا مجموعہ ’’ترسیل و ترویج‘‘ کے نام سے آیا۔

یوں تو ہر کتاب کے پیچھے ایک کہانی ہوتی ہے، مگر ’’ہم عصر افسانہ‘‘ کا تذکرہ ضروری۔ ان کے بہ قول،’’میں نے کئی نقادوں کو یہ کہتے سنا کہ اب افسانے نہیں لکھے جارہے۔ سلیم احمد اکثر کہا کرتے تھے کہ میں نے پچیس سال سے افسانہ نہیں پڑھا۔ اس کے باوجود وہ افسانے پر زور شور سے بات کیا کرتے تھے۔ امین الدین کی کتاب کی تقریب میں ایک نقاد نے کہہ دیا کہ اب افسانے نہیں لکھے جارہے۔

کمال ہے، آپ ایک افسانوی مجموعے کی تقریب رونمائی میں آئے ہیں، اور وہ مجموعہ افسانہ نگار کی چوتھی کتاب ہے، پھر بھی کہہ رہے ہیں کہ افسانے نہیں لکھے جارہے۔ دراصل آپ افسانے پڑھ نہیں رہے۔ ایک غصہ تھا میرا اندر، جو اس کتاب کے دیباچے میں بھی محسوس ہوتا ہے۔ میں نے پاک و ہند کے ادبی جراید میں شایع ہونے والی، سینئرز اور نئی نسل کے افسانوں نگاروں کی 50 مضبوط تخلیقات اکٹھی کیں، اور قارئین کے سامنے پیش کر دیں۔ خالد فتح محمد، محمد حمید شاہد جیسے تخلیق کاروں نے اس کی تعریف کی۔‘‘

ہم نے اس مفروضے پر ان کی رائے جاننا چاہی کہ تقسیم کے بعد پاکستان میں اچھے شعرا پیدا ہوئے، ہندوستان میں اچھے فکشن نگار۔ اے خیام کہنے لگے،’’ڈاکٹر اسد فیض نے شمس الرحمان فاروقی کا ایک انٹرویو کیا تھا۔ فاروقی صاحب نے ایک سوال کے جواب میں کہا تھا: ’شاعری پاکستان میں ہورہی ہے، افسانے ہندوستان میں لکھے جارہے ہیں، تنقید کا خانہ دونوں جگہ خالی ہے!‘ فاروقی صاحب کی رائے اپنی جگہ، مگر میں اس سے متفق نہیں۔

پاکستان میں بہت اچھے افسانے لکھے گئے۔ میں یہی کہوں گا کہ اُن کے افسانہ نگار اُنھیں مبارک، ہمارے لیے اسد محمد خاں اور منشا یاد کافی ہیں!‘‘ تنقید کا خانہ خالی ہے۔۔۔ اس پر یوں رائے دی،’’ہمارے نقاد پڑھنے سے گریزاں ہیں، اور اس کا برملا اعتراف بھی کرتے ہیں۔ جب وہ فکشن پڑھیں گے نہیں، تو تنقید کہاں سے سامنے آئے گی۔‘‘

یہاں سے گفت گو ماضی کی سمت مڑ گئی۔ حالات زندگی زیر بحث آئے۔ پورا نام محمد ابوالخیام۔ 5 جون 1943کو ارکی، گیا، بہار میں پیدا ہوئے۔ دو بہن، تین بھائیوں میں سب سے چھوٹے۔ والد، محمد اکرام سول کورٹ سے بہ طور ’’سررشتہ دار‘‘ وابستہ تھے۔ کچھ زمینیں بھی تھیں۔ والد کا تبادلہ ہوتا رہا، بچپن مختلف شہروں میں گزرا۔ اسی زمانے میں علی حیدر ملک سے دوستی ہوئی، جو مستقبل میں بہ طور نقاد اور فکشن نگار شناخت بنانے والے تھے۔ طالب علم کوئی خاص نہیں تھے۔ 57ء میں پٹنا سے میٹرک کیا۔ والد چاہتے تھے کہ وہ سائنس پڑھیں، مگر اُن کا رجحان ادب کی جانب تھا، جس کا بڑا سبب دادا بنے، جو شاعر تھے، اور صمد گیاوی کے نام معروف تھے۔

میٹرک کے بعد ڈیڑھ برس خیام ورلڈ بینک کے ایک پراجیکٹ سے منسلک رہے۔ وہ عرصہ ڈسٹرکٹ مونگیر میں گزرا۔ 64ء میں کراچی کا رخ کیا۔ بڑے بھائی یہیں تھے۔ ابتدا میں بے روزگاری کا سامنا رہا۔ جامعہ کراچی سے 67ء میں گریجویشن کیا۔ ملازمتوں کے سلسلے کا آغاز ایک نجی ادارے سے ہوا۔ پھر پی آئی اے سے بہ طور ٹریفک اسسٹنٹ منسلک ہوگئے۔ اسسٹنٹ اسٹیشن مینیجر کی حیثیت سے وہ 2003 میں ریٹائر ہوئے۔ اِس عرصے میں پوری دنیا دیکھنے کا موقع ملا۔

یادیں بازیافت کرتے ہوئے کہتے ہیں، یہ گھر میں موجود کتابوں تھیں، جنھوں نے ادب کی سمت کھینچا۔ اساتذہ کا کلام توجہ کا مرکز رہا۔ فکشن میں کرشن چندر، منٹو اور بیدی کو پڑھا۔ بیدی کی فنی گرفت نے بڑا متاثر کیا۔ والد نے انگریزی ادب کی جانب متوجہ کیا۔ اُن کے بہ قول،’’ابا اردو کے مخالف تھے۔ وہ کہا کرتے تھے کہ اِس میں جان نہیں ہے، انگریزی ادب پڑھو۔ اُنھیں انگریزی پر عبور حاصل تھا۔ مجھے سامنے بٹھا کر شیکسپئر کی کتابیں تھما دیتے، جنھیں میں باآواز بلند پڑھا کرتا۔‘‘

پٹنا کے زمانے میں وہ ادبی میدان میں خاصے سرگرم رہے۔ دوستوں کے ساتھ ’’ادارۂ فن کار‘‘ کی بنیاد رکھی۔ پہلے پہل شعر کہتے تھے، مشاعرے بھی پڑھے، مگر فکشن کی سمت آگئے۔ کراچی آنے کے بعد بھی ادبی حلقوں سے جڑے رہے۔ علی حیدر ملک بھی کراچی آگئے تھے۔ 74-75 میں ’’فکشن گروپ‘‘ کی بنیاد رکھی گئی، جو خاصا فعال رہا۔ ’’مجلس احباب ملت‘‘ نامی تنظیم سے بھی اے خیام کی وابستگی رہی۔

فکشن نگاری کے ساتھ گذشتہ ایک عرصے سے بہ طور پبلشر بھی مصروف ہیں۔ ’’میڈیا گرافکس‘‘ نامی اِس پبلشنگ ہاؤس کا آغاز ریٹائرمینٹ کے بعد ہوا۔ اب تک 150 کتابیں شایع کر چکے ہیں۔ ہنستے ہوئے کہتے ہیں،’’اس سمت آنے کا بڑا سبب پبلشر کے ہاتھوں ادیب کا استحصال تھا۔ پبلشر کے ساتھ ڈسٹری بیوٹرز کا رویہ بھی مایوس کن ہے۔ مجھے لوگوں نے کہا، آپ مارکیٹ کا حصہ بنیں، مگر میں نے اسے پیشہ نہیں بنایا۔ میں اِسی حالت میں مطمئن ہوں۔‘‘

اُن کی ادبی فکر جدیدیت سے لگا کھاتی ہے۔ موقف ہے، اِس نظریے کو فقط ترقی پسند تحریک کا ردعمل کہنا درست نہیں۔ انسان تبدیلی چاہتا ہے، اس تحریک نے یہ تقاضا پورا کیا۔ افراد کی اہمیت اجاگر کی۔ ہاں، یہ ضرور ہے کہ ترقی پسند تحریک میںدر آنے والییک سانیت کے باعث جب جدیدیت آئی، لوگوں نے اِسے قبول کیا۔ ہیئت میں کئی تجربات ہوئے۔‘‘ مابعدجدیدیت کو وہ تحریک ماننے کے لیے تیار نہیں۔ کہنا ہے؛ ہمارے ہاں جدیدیت کی تحریک میں جب ٹھہراؤ آیا، تجربے کا دور ختم ہوا، اُس کے بعد جو ادب تخلیق ہوا، اُسے مابعدجدیدیت کا ادب قراد دیا گیا۔ مقصدیت سے متعلق کہتے ہیں،’’کوئی شے بے مقصد نہیں ہوتی۔

تخلیق میں ادیب اپنے جذبے کو الفاظ کی شکل دیتا ہے، لیکن اگر وہ نظریہ تھوپنے کی کوشش کرے، تو فن ختم ہوجائے۔ فیض صاحب کے ہاں نظریہ اتنا حاوی نہیں۔ نظریے کو انھوں نے سمبل بنا کر شاعری کی۔ اس وجہ سے کام یاب رہے۔ ادب اور نظریہ ساتھ بھی چل سکتے ہیں، لیکن تخلیق کار کے لیے ضروری ہے کہ وہ فن کو فوقیت دے۔‘‘ فروغ ادب کے لیے وہ ہندوستان کے طرز پر ہر صوبے میں اکیڈمیز قائم کر نے کی تجویز دیتے ہیں، جو ادیبوں کی معاونت کریں۔ سرکاری لائبریریوں اور اداروں کے ساتھ ساتھ اگر ادیب آپس میں بھی ایک دوسرے کی کتابیں خریدنے کا سلسلہ شروع کر دیں، تحفے میں لوگوں کو کتابیں دیں، تو بہتری کا واضح امکان ہے۔

ادب میں ابلاغ کا موضوع زیر بحث آیا، تو کہا، اس کا انحصار قاری کی ذہنی سطح پر ہے۔ ’’جب جدیدیت کا شہرہ تھا، تب بے شمار تجربات ہوئے، جیومیٹری کی اشکال برتتے ہوئے افسانے لکھے گئے۔ کچھ لوگوں نے کہا کہ ان کا ابلاغ نہیں ہوتا، مگر تب بھی ایسے لوگ تھے، جو انھیں پڑھتے تھے، سمجھتے تھے۔‘‘ ہم نے پوچھا، تب تو تجربات کی کثرت تھی، ’’خوشیوں کا باغ‘‘ اور ’’جنم کنڈلی‘‘ جیسے ناول لکھے گئے، مگر لگتا ہے، اب یہ سلسلہ تھم گیا ہے؟ بولے،’’تب ایک ٹرینڈ سیٹ کرنا تھا، مگر کچھ لوگوں نے کلاکاری بھی کی۔ انفرادیت یا نئے پن کے لیے طرح طرح کے تجربات کیے گئے۔ شاید اب وہ اضافی لگتے ہو، مگر اس سے فائدہ ہوا۔ آج ہم جہاں کھڑے ہیں، وہاں تک پہنچنے میں ان تجربات نے اہم کردار ادا کیا۔‘‘

اظہار، اے خیام کے نزدیک، ہر شخص کا مسئلہ ہے۔ بہ طور ادیب، جو وہ محسوس کرتے ہیں، اسے افسانے کی صورت لکھنا عادت، بلکہ ایک مجبوری بن گیا ہے، لکھ کر خود کو ہلکا پھلکا محسوس کرتے ہیں۔ اس باعث بھی لکھتے ہیں کہ معاشرے میں موجود رہیں۔ اس ضمن میں خود کلامی کی عادت بھی کام آتی ہے۔ لکھتے سمے اس الجھن میں نہیں پڑتے کہ ترسیل ہو پاتی ہے یا نہیں۔

اُن کے تازہ مجموعے ’’جنت جہنم‘‘ میں ایک جانب جہاں ’’غم حسین کے سوا‘‘، ’’تاویل‘‘، ’’چلہ کشی‘‘ جیسے افسانے، جن میں عصری شعور دوڑتا ہے، وہیں ’’سگ زمانہ‘‘ اور ’’بڑی حویلی‘‘ میں ناسٹلجیا کی جھلکیاں۔ افسانے ’’جنت جہنم‘‘ اور ’’بدبو‘‘ میں تکنیک کا برتاؤ خوب ہے۔ ہم نے پوچھا، اس مجموعے کے افسانے، دیگر افسانوں سے کیوں کر مختلف؟ تو کہا،’’میں نے کوشش کی کہ ہر مجموعہ، پچھلے سے مختلف ہو۔ کچھ فرق ضرور ہو۔ افسانے پرانے مجموعے کی توسیع معلوم نہ ہو۔‘‘

علی حیدر ملک اردو افسانے کے پرزور حامی تھے۔ اس کی اہمیت اجاگر کرتے ہوئے یہ تک کہہ جاتے کہ مغرب کو اب افسانہ نگاری ہم سے سیکھنی چاہیے۔ اس بابت اے خیام سے پوچھا، تو کہنے لگے،’’عرصے سے ہمارے ہاں غیرملکی ادب کا ترجمہ ہورہا ہے، جو قابل تعریف ہے، مگر سوال یہ ہے کہ ہمارے افسانے کا کیوں دیگر زبانوں میں ترجمہ نہیں ہوتا۔ آج ہمارا افسانہ اس مقام پر ہے کہ دیگر زبانوں میں اُس کا ترجمہ ہو۔ علی حیدر ملک نے اِسی تناظر میں کہا ہوگا۔ موجودہ اردو افسانہ عالمی افسانے کے سامنے کھڑا ہونے کی قوت رکھتا ہے، اب وہ بھی ہم سے سیکھ سکتے ہیں۔

ادب کی ترویج میں سرکاری ادارے اپنا کردار ادا نہیں سکے۔ انھیں ترجمے کا یہ کام کرنا چاہیے تھا۔‘‘ ہم نے پوچھا، آپ کی انگریزی پر گرفت، اردو کی معیشت کی بھی خبر، پھر کیوں اس زبان میں لکھنے کا فیصلہ کیا؟ بولے،’’اردو میری اپنی زبان ہے۔ میرے دادا اردو کے شاعر تھے۔ والد بھی اردو پڑھتے تھے، لیکن وہ ڈاکٹر راجندر پرشاد کی Debating Society کا حصہ تھے۔ انگریزی کا انھیں جنون تھا۔ ان کے طفیل ہم نے بڑے ادب کا مطلب سمجھا، مگر لکھا اپنی ہی زبان میں۔‘‘ اپنے افسانوں کا ایک دو بار انگریزی میں ترجمہ کیا، مگر مزا نہیں آیا۔ ایک دوست نے بھی کوشش کی، مگر مطمئن نہیں ہوئے۔

پسند ناپسند پر بھی بات ہوئی۔ ناول کے میدان میں قرۃ العین حیدر پہلا انتخاب۔ بیدی، منٹو اور غلام عباس کے مداح۔ جدید افسانہ نگاروں میں رشید امجد، منشا یاد اور علی حیدر ملک کا نام لیتے ہیں۔ آج کے شعراء میں صبا اکرام، علی محمد فرشی اور نصیر احمد ناصر کو سراہتے ہیں۔ دلیپ کمار اور نصیر الدین شاہ کی صلاحیتوں کے معترف۔ لتا کی آواز پسند۔ لباس کا انتخاب مزاج کے تابع ہے۔ گوشت سے رغبت۔ کوکنگ میں بھی دل چسپی رہی۔ زندگی سے مطمئن ہیں۔ 72ء میں شادی ہوئی۔ ایک بیٹی، دو بیٹے ہیں۔ تینوں کی شادی ہو چکی ہے۔ شفیق والد رہے۔ بچوں کی پیدایش سے زندگی کی خوش گوار یادیں وابستہ ہیں۔ ایک بیٹی تین برس کی عمر میں انتقال کر گئی تھی۔ یہ کرب آج بھی ساتھ ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔