پاکستان میں ممنوعہ سرمایہ کاری
مروجہ نظام بینکاری کو غور سے دیکھا جائے تو یہ کثیر افراد کے سرمائے کو قلیل افراد کے لیے فراہم کرنے کا نظام ہے.
SWAT:
شاید یہ عنوان آپ کے لیے حیرت کا باعث ہو،مگر پاکستان میں موجود بینک،سرمایہ کاری کے ادارے اور دیگر اداروں کا ایک ان لکھا حدبندی پر متفقہ فیصلہ ہے۔اس فیصلے میں چند اصول اورطریقہ کارآتے ہیں۔ یہ بات مد نظر رہے کہ جن اصول اور ذرایع کا ذکر ہونے جارہا ہے وہ نہ صرف سودی بلکہ بلاسودی (غیر اسلامی نہیں، کیونکہ بلاسودی کا اسلامی ہونا ضروری نہیں) دونوں نظام بینکاری میں تسلیم شدہ ہیں بلکہ ان کا استعمال اور ان کی ضرورت ابھرتی ہوئی معیشت (Emerging Market) میں زیادہ مسلّم اور بدرجہ اولیٰ ضروری سمجھی جاتی ہے۔
ترقی پذیر اور غیر ترقی یافتہ ممالک میں جو ایک اہم اصول سرمایہ کاری اور قرض کے حوالے سے Micro اور Macro سطح پر مدنظر رکھا جاتا ہے وہ ہے Status Quo ۔ اسی حوالے سے کچھ عرصے پہلے نیویارک میں وال اسٹریٹ سے ایک تحریک شروع ہوئی تھی جوکہ مروجہ بینکاری کے خلاف تھی۔ ان کا ایک نعرہ اقلیت کے ذریعے اکثریت کا استحصال تھا۔ اس اصول سے ملتا جلتا نظام تقریباً پوری دنیا میں رائج ہے۔ البتہ اصطلاحات اور تنظیمی لبادہ مختلف ہوسکتا ہے۔
اگر مروجہ نظام بینکاری کو غور سے دیکھا جائے تو یہ کثیر افراد کے سرمائے کو قلیل افراد کے لیے فراہم کرنے کا نظام ہے۔ اس کو یوں سمجھا جاسکتا ہے کہ ایک ہزار لوگوں سے ایک ہزار روپے لے کر ایک ادارے یا ایک فرد کو دس لاکھ روپے دیے جائیں۔ اس نظام میں اس بات کا خصوصی خیال رکھا جاتا ہے کہ جتنا بڑا قرضہ ہو، اتنا ہی سستا سرمایہ فراہم کیا جائے۔ یہ بات مسلمہ ہے کہ قرضہ یا سرمایہ وصول کرنے والا ادارہ یا فرد پہلے ہی ایک مستحکم حیثیت کا حامل ہوتا ہے۔
ایک غیر مرئی (میں تو اسے غیر مرئی ہی کہوں گا ) حد بندی جوکہ خصوصی طور پر پاکستان میں موجود اداروں نے روا رکھی ہے وہ ہے نئے کاروبار میں سرمایہ کاری۔ بینکاری کی اصطلاح میں نئے کاروبار کو Green Fields Projects یا Brown Field Projects کہا جاتا ہے۔ اس قسم کے منصوبوں میں پاکستانی ادارے نہ تو سرمایہ کاری کرتے ہیں نہ ہی فی الحال اور مستقبل قریب میں اس کا امکان نظر آتا ہے۔
مثال کے طور پر ایک سوئی دھاگے کے کارخانے کا ایک منیجر ہے، وہ عرصہ دس سال سے اس ادارے سے منسلک ہے اور اس ادارے کا انتظام و انصرام سنبھال رہا ہے۔ تقریباً تمام ذمے داریاں بھی اس کے اوپر ہیں۔ نتیجتاً یہ منیجر اب سوئی دھاگے کے کاروبار کو مکمل طور پر سمجھ چکا ہے۔ امکانات ہیں کہ کاروبار سے متعلق کچھ باتیں اس سے پوشیدہ ہوں جوکہ ایک فطری اور عام بات ہے۔ اب یہ منیجر پاکستان کے کسی بینک کے پاس جاتا ہے اور کہتا ہے کہ اس کے پاس ہنر اور کچھ سرمایہ ہے۔
اگر بینک اس کے ساتھ سرمایہ کاری کرے یا قرض دے تو وہ اپنا کاروبار شروع کرسکتا ہے۔ آپ کا خیال ہے کہ بینک اس کے تجربے کو دیکھتے ہوئے اسے قرض دینے پر رضامند ہوجائے گا نہیں۔۔۔۔! مروجہ بینک کی رٹی رٹائی گردان ہوگی کہ چونکہ آپ کا کاروبار کا تجربہ نہیں ہے اس لیے ہم آپ کو سرمایہ فراہم نہیں کرسکتے۔ اس کے ساتھ ساتھ سرمایہ کے ڈوبنے اور متعلقہ فرد کے بے ایمان ہونے کو بھی وجہ بتاتے ہیں۔ اس قسم کی سرمایہ کاری ہندوستان، بنگلہ دیش، سری لنکا اور مشرق وسطیٰ میں Private Equity اور Capital Venture کے نام سے ابھی نہیں بلکہ کئی عشروں سے ہورہی ہے۔ یورپ، شمالی امریکا اور مشرق بعید میں بھی اسی طریقے سے سرمایہ کاری فراہم کی جاتی ہے تاکہ کاروبار بڑھے اور روزگار کے مواقعے پیدا ہوں۔
میرے استاد ایک واقعہ بتاتے تھے کہ80 کے اوائل یا 70 کے اواخر میں ایک بیرون ملک مقیم پاکستانی، ایک سرکاری بینک کے پاس فوٹو اسٹیٹ مشین کے لیے سرمایہ کاری کی درخواست لے کر آئے۔ ان کی درخواست ''کاربن پیپرز'' کی بنیاد پر رد کردی گئی۔ میرا ذاتی خیال ہے کہ فی الوقت اسی بینک میں ہزاروں فوٹو اسٹیٹ مشینیں لگی ہوں گی۔
بہرحال آج کے کالم کا مقصد ایک رجحان کی طرف توجہ مبذول کروانا تھا۔ انشاء اللہ اگلے کالموں میں معیشت، بینکاری اور ان سے متعلقہ موضوعات پر کچھ تفصیل سے بات ہوگی۔ خصوصاً وہ موضوعات جن کا تعلق عام آدمی سے ہے۔ آج کا تذکرہ، کل کے حل کا پیش خیمہ بن سکتاہے۔