مردم شماری کی داستان

شبیر احمد ارمان  منگل 20 دسمبر 2016
shabbirarman@yahoo.com

[email protected]

ہم اپنے 2009ء کے فیصلہ پر عمل درآمد کے لیے بیٹھے ہیں ، عمل نہیں کرنا تو سپریم کورٹ کو بند کردیں ، کہاں لکھا ہے کہ مردم شماری کے لیے فوج کی نگرانی لازمی ہے ؟ اگر سیکیورٹی مسائل کے باوجود انتخابات ہوسکتے ہیں تو مردم شماری کیوں نہیں ہوسکتی ؟ ۔ ( 18نومبر 2016 ، چیف جسٹس ، سپریم کورٹ آف پاکستان) بعد ازاں مشترکہ مفادات کونسل نے آیندہ سال 15مارچ2017 سے قومی مردم شماری کرانے پر اتفاق کیا ہے جس میں خانہ شماری اور مردم شماری ایک ساتھ کی جائے گی ۔ وزیر اعظم نواز شریف کی صدارت میں اس اجلاس میں اتفاق کیا گیا کہ مردم شماری 2مراحل میں کرائی جاسکتی ہے جب کہ ہر مرحلہ تمام صوبوں میں بیک وقت شروع کیا جائے گا ،اجلاس میں اتفاق کیا گیا کہ مردم شماری صوبائی حکومتوں کے مربوط رابطے سے کی جائے گی ۔

اس کے بعد وفاقی حکومت نے اگلے سال 15مارچ سے 15مئی 2017 تک مردم شماری مکمل کرنے کی تحریری رپورٹ عدالت میں جمع کرا دی ہے ۔ چیف جسٹس انور ظہیر جمالی کی سربراہی میں جسٹس امیر مسلم پر مشتمل 2رکنی بینچ نے حکومت کی مثبت رپورٹ پر از خود نوٹس کا مقدمہ نمٹا دیا ۔ عدالت نے قرار دیا کہ اس واضح جواب کے بعد بھی مقررہ مدت کے اندر مردم شماری نہیں ہوئی تو خلاف ورزی کی صورت میں دستخط کنندہ افسر اور حکومت کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کی جائے گی ۔ اس سے قبل رواں سال کے شروعات میں مشترکہ مفادات کی کونسل نے 18مارچ 2015ء کووزیر اعظم نواز شریف کی زیر صدارت اجلاس میں مسلح افواج کے تعاون سے مارچ2016ء میں مردم شماری کرانے کی منظوری دی تھی ۔ اس منظوری کے مطابق ملک بھر میں چھٹی قومی مردم شماری اور خانہ شماری رواں سال 2016ء میں ہونی تھی جب کہ جون 2016 ء میں نتائج پیش ہونا تھے ۔

اس ضمن میں ملک کو ایک لاکھ 62ہزاربلاکس میں تقسیم کیا گیا تھا ، اور یہ بھی کہا گیا تھا کہ مردم شماری میں 2لاکھ سے زائد ملازمین کی خدمات حاصل کی جائے گی ۔ اس وقت شماریات ڈویژن کی جانب سے یہ کہا گیا تھا کہ ملک میں مردم شماری کرانے کی تیاریاں تقریبا مکمل ہوچکی ہیں ، مردم شماری کے لیے 4کروڑ 20لاکھ فار م تیار ہیں جو 2008کی مردم شماری کے لیے تیار کیے گئے تھے ۔ شماریات ڈویژن نے یہ بھی کہا تھا کہ مردم شماری میں پناہ گزینوں اور ڈپلومیٹ کو شامل نہیں کیا جائے گا ، مردم شماری کے لیے جو بلاکس بنائے جا چکے ہیں۔

ان میں ہر ایک بلاک میں 200سے250گھر ہونگے ۔ اور کہا تھا کہ اس حوالے سے صوبائی حکومتوں سے مدد حاصل کی جائے گی ، مقامی اساتذہ ، پٹواریوں اور دیگر ملازمین کی خدمات حاصل کی جائے گی مزید یہ بھی کہا گیا تھا کہ یہ مردم شماری فوج کی نگرانی میں ہوگی ، ملک میں 151اضلاع ہیں۔ لیکن نگرانی کے لیے مطلوبہ فوج نہ ملنے کا بہانہ پاتے ہی حکمران پھر سے ٹال مٹول سے کام لیتے رہے جو بلآخر پھر سپریم کورٹ نے مردم اور خانہ شماری کے لیے حکومت سے حتمی جواب طلب کیا ، اس بار بھی یقین دہانی کے بعد کیا ہوتا ہے ، کچھ کہنا قبل از وقت ہے کیوں کہ غضب کیا جو تیرے وعدے پہ اعتبار کیا ۔

قومی مردم شماری و خانہ شماری کرانا آئینی تقاضا ہے اور اس کی اہمیت و افادیت سے انکار ممکن نہیں کہ مستقبل کے بارے میں دور رس نتائج برآمد کرنے کے لیے اقدامات کیے جاتے ہیں مثلا نئی مردم شماری کے نتائج موصول ہونے کے بعد تمام قومی اعداد و شمار اور اقتصادی اعشارے بھی تبدیل ہو جائینگے ، ملک کی درست آبادی کا تعین ہوگا ، اسی حساب سے معاشی و اقتصادی اہداف کا تخمینہ لگایا جاسکے گا ۔ قومی ، صوبائی اور بلدیاتی حلقہ بندیاں کی جاسکیں گی اور آبادی کے لحاظ سے انتخابی نشستوں کا تعین کیا جا سکے گا ۔ وفاق اور صوبوں کے درمیان فنڈز کی تقسیم کا تنازعہ بھی حل ہوجائیگا ۔ یاد رہے کہ آخری مردم شماری 1998 میں ہوئی تھی اور اس کے لیے ڈھائی لاکھ فوجی جوان تعینات کیے گئے تھے ۔ ملکی آئین کے تحت ہر دس سال بعد مردم و خانہ شماری کی جانی ہے لیکن بدقسمتی سے اس پر مکمل عملدرآمد نہیں ہوا ہے ۔

یاد رہے کہ ملک میں قومی مردم شماری و خانہ شماری بالترتیب 1951، 1961، 1972، 1981میں ہوئی اور 1991 میں پانچویں مردم شماری ہونی تھی ، ابتدائی مرحلے میں خانہ شماری کا کام مکمل کرلیا گیا تھا لیکن اندرون سندھ آبادی میں 770فیصد تک اضافہ کی ناقابل یقین رپورٹوں کے پیش نظر یہ عمل روک دیا گیا تھا ۔ اس وقت کی خانہ شماری کے نتائج کے مطابق پاکستان کی آبادی 81ملین سے بڑھ کر 133ملین ہوگئی تھی ۔یہ بھی یاد رہے کہ 1991ء کی مردم شماری تین مرتبہ ملتوی ہونے کے بعد یکم مارچ سے 13مارچ کو ہوئی تھی ۔ یہ بھی واضح رہے کہ 2010ء میں سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کی زیرصدارت مشترکہ مفادات کونسل نے بھی ملک میں مردم شماری کے انعقاد کی منظوری دی تھی جس کے تحت ملک میں خانہ شماری اکتوبر 2010ء جب کہ چھٹی مردم شماری مارچ 2011ء میں ہونا تھی مگر بوجہ نہیں ہوسکی تھی ۔

اس سے قبل بھی 2008ء میں چھٹی مردم شماری ہونی تھی تاہم بعض وجوہات کے باعث اسے ایک سال کے لیے موخر کردیا تھا جب کہ 2009ء میں فاٹا ، بلوچستان اور خیبر پختونخوا کی حکومتوں کے کہنے پر ایک مرتبہ پھر مردم و خانہ شماری موخر کردی گئی تھی ۔ بعدازاں وزیر اعظم محمد نواز شریف نے 2014ء میں قومی مردم شماری کرانے کے احکامات جاری کردیے تھے، تاکہ 2018ء میں ہونیوالے عام انتخابات نئی مردم شماری کے مطابق کروائے جاسکیں ۔ وزیر اعظم نے الیکشن کمیشن کے خط کے جواب میں ادارہ شماریات کو حکم دیا تھا کہ چاروں صوبوں میں مردم شماری کے لیے تیاریاں کی جائیں ۔ یاد رہے کہ الیکشن کمیشن نے خط میں وزیر اعظم سے درخواست کی تھی کہ ملک میں مردم شماری یقینی بنائی جائے ۔ قبل ازیں قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف خورشید احمد نے ملک میں مردم شماری کرانے کے لیے وزیر اعظم نواز شریف کو خط لکھا تھا ۔

الغرض کہ ملک میں مردم شماری اپنی مقررکردہ دس سالہ مدت کے عرصے میں کبھی نہ ہوئی بلکہ ایک سے دوسری مردم شماری کے دورانئے میں کئی کئی سال کا غیر ضروری وقفہ آتا رہا ہے ۔ اب جب کہ ایک مرتبہ پھر مارچ 2017 میں مردم شماری کی عدالت کو یقین دہانی کرائی گئی ہے ، اس طرح یہ مردم شماری و خانہ شماری 18سال بعد ہوگی ۔ لہذا حکومت اس امر کو یقینی بنائے کہ ہر دس سال بعد مردم شماری کا عمل بلاتاخیر منعقد ہوتا رہے تاکہ ملکی قومی وسائل کی تقسیم منصفانہ ہو اور قومی مسائل باآسانی حل ہوسکیں ۔ یہ تو سب کہتے ہیں کہ کراچی ملک کی معاشی حب ہے لیکن کبھی کسی نے یہ سوچا ہے کہ مردم شماری نہ ہونے کے باعث کراچی بڑھتی ہوئی آبادی کے زد میں ہے ، ملک بھر سے لوگ کراچی ہی میں روزگار کمانے آتے ہیں ۔ 1998 کی قومی مردم شماری کے مطابق کراچی کی آبادی 98,20700ہے ۔

آج کل کراچی کی کتنی آبادی ہے کسی کو کچھ معلوم نہیں ، سب اندازے لگا رہے ہیں کوئی ایک کروڑ ، کوئی ڈیڑھ کروڑ تو کوئی دو کروڑ کہتا ہے ، کراچی کی جو بھی آبادی ہو وہ اس کی وسائل سے حد درجہ زیادہ دکھتا ہے ، یہی وجہ ہے کہ کراچی مسائلستان بنا ہوا ہے ، ہر طرف مسائل سر اٹھائے ہوئے ہیں ، پانی ، بجلی ، گیس ، ٹرانسپورٹ ، روزگار ، مہنگائی ، اپنا گھر نہ ہونا، صحت و صفائی وہ چیدہ چیدہ مسائل ہیں جنہوں نے شہر کراچی کی خوبصورتی کو ماند کردیا ہے ۔ کراچی کی آبادی بہت پھیل چکی ہے ، ایک سرا حیدر آباد سے مل رہا ہے ، دوسرا سرا حب بلوچستان سے ملاپ کر رہا ہے اور تیسرا سرا سمندر کی جانب ہے اب تو سمندر بھی پیچھے ہٹتا جارہا ہے ، اب کراچی کی زمین کا کوئی ایسا ٹکڑا نہیں بچا ہے جہاں لوگ نہ بستے ہوں ۔ لہذا کراچی کی حقیقی آبادی کا تعین کیا جانا لازم ہے اور اسی حساب سے اسے وسائل دیے جائیں تاکہ کراچی بڑھتی ہوئی آبادی کو برداشت کرسکے ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔