پانامہ کیس اور انصاف کے تقاضے!

علی احمد ڈھلوں  بدھ 4 جنوری 2017
ali.dhillon@ymail.com

[email protected]

’’بے انصافی‘‘ کیا ہوتی ہے؟ یہ ان افراد سے پوچھا جائے جن کی نسلیں انصاف کے لیے تڑپتی مرگئی ہوں۔ بے انصافی کیا ہوتی ہے؟ یہ اُس ماں سے پوچھا جائے جس کے بے گناہ بیٹے کو اس کی نظروں کے سامنے پھانسی پر چڑھا دیا جائے۔ بے انصافی کیا ہوتی ہے؟ یہ اس بھائی سے پوچھا جائے جس کے سامنے اُس کی غیرت کو تار تار کر دیا گیا ہو یا اس باپ سے پوچھا جائے جس نے تلخ یادوں کے ساتھ زندگی گزار دی ہو اور اس کی ایڑیاں گھس گئی ہوں بیٹوں کو تلاش کرتے کرتے… اور … بے انصافی کیا ہوتی ہے؟ یہ اس قوم سے پوچھا جائے کہ جس کی دولت پر جابر حکمران قابض ہو چکے ہوں اور وہ ملکی اداروں کا منہ تک رہے ہوں… اور حکمران کمال مہارت سے کہہ رہے ہوں کہ یہی ’’فنکاری‘‘ ہے کہ جس کا مال چاہو ’’غائب ‘‘ کردو یا جسے چاہو غائب کردو اورجسے چاہو حاضر کرو۔ اس سے بڑی فنکاری یا بے انصافی اور کیا ہو سکتی ہے کہ جن سے انصاف کی توقع ہو وہی دشمن کی گود میں بیٹھ کر منہ چڑھا رہا ہو۔ اور اس سے بڑی فنکاری اور کیا ہوگی کہ ایک آسان کام کو مشکل بنا کر پیش کر دیا جائے۔

ایک شکاری سے ایک ساحلی بستی کے لڑکے نے پوچھا، استاد جی میں چھوٹے موٹے پرندے تو زندہ پکڑ لیتا ہوں مگر بگلہ آج تک نہیں پکڑ سکا۔ شکاری نے کہا یہ تو بہت آسان ہے جب بھی تم کسی چٹان پر بگلہ بیٹھے دیکھو تو دبے پاؤں اس کے پیچھے جاؤ، سر پر موم بتی رکھ کے جلا دو، موم کے پگھلتے قطرے بگلے کی آنکھوں میں پڑنے سے وہ نابینا ہو جائے گا، اس کے بعد آرام سے گردن سے پکڑو اور تھیلے میں ڈال لو۔لڑکے نے پوچھا استاد جی ایک بات تو بتاؤ جب میں بگلے کے اتنا نزدیک پہنچ جاؤں گا تو پھر سر پر موم بتی رکھنے کی کیا ضرورت، ڈائریکٹ گردن کیوں نہ دبوچ لوں؟ شکاری نے کہا کہ بات تو تیری ٹھیک ہے بچے …پر اس طرح بگلہ پکڑنا کوئی ’’فنکاری‘‘ تو نہ ہوئی۔

حقیقت میں ہمارے تمام سیاسی، معاشرتی، سماجی، مذہبی، ثقافتی اور معاشی مسائل کی ماں ’’بے انصافی‘‘ اور بے وقت کی ’’فنکاریاں‘‘ ہیں۔ ہم بدقسمتی سے ملک میں فوری، سستے، بے لچک اور مساویانہ انصاف کا کوئی نظام وضع نہیں کرسکے۔ سیاستدان ملک لوٹتے رہے اور قوم منہ تکتی رہی۔ تحقیقات کرنے والے ادارے اپنا حصہ بٹورتے رہے اور عوام نے انصاف فراہم کرنے اداروں کی طرف دیکھنا شروع کر دیا کہ شاید انصاف مل سکے۔ یہاں یہ بتاتا چلوں کہ دنیا کے بیشتر ممالک میں جب بھی کوئی مالی و اخلاقی اسکینڈل سامنے آتا ہے تو عام طور سے ملکی ادارے ہی اس کی تحقیقات کرتے ہیں۔ جیسے امریکا میں ایف بی آئی، اسرائیل میں پولیس بیورو، برطانیہ میں اسکاٹ لینڈ یارڈ، بھارت میں سی بی آئی۔ بھلے کوئی کلنٹن ہو، ایریل شیرون ہو، ٹونی بلیئر، نیتن یاہو یا راجیو گاندھی ہو، ان اداروں سے کوئی نہیں بچ سکتا… مگر یہاں تو بھلا کاہے کا احتساب اور کاہے کا انصاف؟

یہی وجہ ہے کہ پانامہ جیسے اسکینڈل کے سامنے آنے کے بعد حزب اختلاف کا کہیں بس نہیں چلا تو انھوں نے سپریم کورٹ کی راہ دیکھی اور آج پانامہ کیس کی سپریم کورٹ میں دوبارہ سماعت کا پہلا دن ہے۔ عمران خان نئے ثبوتوں کے ساتھ جب کہ حکومت وکلاء کی ٹیم میں اضافے کے ساتھ سپریم کورٹ میں پیش ہیں۔ لگ تو یہی رہا ہے کہ اس معاملے میں حکومت کسی قسم کی جلدی بازی کرنے کی پوزیشن میں دکھائی نہیں دے رہی اور اپوزیشن کو بھی ماضی کی نسبت زیادہ جلدی نہیں ہے، وہ بھی معاملات کو ’ٹھنڈا‘ کرکے کھانا چاہ رہی ہے۔

یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے میزبان کے گھر مہمان بن بلائے آجائے اور میزبان کی میزبانی کی نیت بھی نہ ہو۔ تو ایک سادہ سی بات کو بھی جلیبی بنایا جا سکتا ہے، بالکل اس میزبان کی طرح جس نے ایک بن بلائے مہمان سے پوچھا چائے پیئیں گے؟ مہمان نے کہا جی پی لیں گے۔ میزبان نے کہا کپ میں یا گلاس میں۔ مہمان نے کہاکپ میں۔ میزبان نے کہا کپ پلاسٹک کا بھی ہے اور چائنا کلے کا بھی۔ مہمان نے کہا چائنا کلے ٹھیک رہے گا۔ میزبان نے کہا میڈ ان پاکستان ٹی کپ میں یا برٹش میڈ میں۔ مہمان نے کہا برٹش چل جائے گا۔ میزبان نے کہا برٹش ٹی سیٹ بھی میرے پاس دو طرح کے ہیں سادہ بھی اور پھولدار بھی۔ میزبان نے کہا پھولدار اچھا لگے گا۔ میزبان نے کہا بس جیسے ہی باورچی آتا ہے میں چائے بنواتا ہوں۔

مہمان نے کہا مجھے بھی جانے کی کوئی جلدی نہیں! شائد حکمران جماعت بھی پی ٹی آئی کو پانامہ کپ میں ایسی ہی چائے پیش کرنا چاہ رہی ہے، جس میں دیر بھی لگے تو دونوں فریقین کو کوئی حرج نہیں۔ تادم تحریر عمران خان کا یہ دعویٰ ہے کہ وہ ’’نئے ‘‘ ثبوتوں کے ساتھ سپریم کورٹ کے نئے بینچ کے سامنے پیش ہو رہے ہیں۔

امید ہے سپریم کورٹ اس معاملے میں قوم کو مایوس نہیں کرے گی اور حکومت کا ممکنہ ہر دباؤ خود جھیلے گی۔ میں پیش گوئی ضرور کروں گا کہ اب آنے والے دنوں میں حکومت اور عدلیہ کی ’’سپرمیسی ‘‘کا مسئلہ بھی زیر بحث آئے گا اور حکومت عدلیہ پر دباؤ بڑھانے کے لیے اپنے چیلوں چٹھوں کا سہارا ضرور لے گی…لیکن یہ حقیقت ہے کہ عدلیہ کے اختیارات اور فیصلوں کو کہیں چیلنج نہیں کیا جا سکتا۔ حکومت قانون سازی کرے تو بھی اس پر نظرثانی کی صورت میں فورم عدلیہ ہے۔ عدلیہ کی طاقت، سپرمیسی اور اس کے فیصلوں کے ان چیلنج اپیل ہونے کا اندازہ چیف جسٹس سپریم کورٹ سید سجاد علی شاہ کی سربراہی میں بنچ کے اس حکم سے لگایا جا سکتا ہے۔

جس میں صدر فاروق لغاری کو 58 ٹو بی کے اختیارات تفویض کر دیے گئے تھے جو بوجوہ صدر لغاری استعمال نہ کر سکے اور استعفیٰ دے کر گھر چلے گئے جب کہ سجاد علی شاہ کو جسٹس سعید الزماں صدیقی کی سربراہی میں متوازی عدالت بنوا کر فارغ کر دیا گیا تھا۔ اگر جج حضرات 58 ٹو بی جیسے اختیارات بحال کر سکتے ہیں تو ملک کو درست سمت کی طرف ڈالنے اور حکمرانوں کا قبلہ درست کرنے کے لیے آئین اور قانون کے عین مطابق بہت کچھ کر سکتے ہیں۔

اور حکومت کے لیے یہ نیک شگون نہیں ہے کہ اب نئے سرے سے پانامہ کیس کی سماعت ہونے جا رہی ہے ۔ حکومت کو کیس کو الجھاوا دینے کے لیے اب نئے شطرنجی کھلاڑیوں کی ضرورت ہوگی۔ پاکستانی قوانین جرائم کی پاداش میں کسی کو عوامی عہدہ رکھنے سے نااہل قرار دیتے ہیں۔ چنانچہ یہ بات واضح ہوچکی ہے کہ اس کیس کی سماعت بہت اہمیت کی حامل ہے اور اہمیت ہو بھی کیوں نہ ؟ یہی وجوہات ہیں جن کی بنا پر ہمارے نامور سیاسی قائدین ملک کے دوسرے اور چوتھے امیر ترین افراد بن چکے ہیں اور آج عوام حساب مانگنا چاہ رہے ہیں کہ کس طرح عوام کے پیسے کو بے دردی سے لوٹا گیا۔ مجھ سمیت قوم کو امید ہے کہ سپریم کورٹ کا نیا بینچ بھی اسی جذبے کے ساتھ پانامہ کیس کی سماعت کرے گا۔

اس نئے بینچ کی خاص بات یہ ہے کہ نئے چیف جسٹس آف پاکستان ثاقب نثار نے حلف اٹھانے کے فوراً بعد اپنے پہلے حکم میں پاناما کیس کی سماعت کے لیے نیا پانچ رکنی لارجر بینچ تشکیل دیا جس میں وہ خود شامل نہیں جب کہ بینچ کی سربراہی جسٹس آصف سعید کھوسہ کررہے ہیں۔ مجھے صدر مملکت ممنون حسین کے وہ الفاظ ابھی تک نہیں بھولے جس میں انھوں نے کہا تھا کہ یہ معاملہ قدرت کی طرف سے سامنے آیا ہے جس سے کرپشن کا خاتمہ ہو گا مگر یہ معاملہ الجھایا جا رہا ہے۔ پاناما لیکس سے کھربوں ڈالر کی کہانیاں وابستہ ہیں، الزامات کسی ایک خاندان پر نہیں سیکڑوں خاندانوں پر ہیں، اس لیے قوم کی خواہش ہے کہ ملک میں انصاف کا ادارہ مضبوط رہے اور بے انصافی کے عنصر کو معاشرے سے نکال باہر پھینکا جائے ۔

ہمیں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ آج دنیا کی ہر وہ سلطنت ختم ہوگئی جس میں انصاف کے لیے انتظار کرنا پڑتا تھا یا جس میں انصاف تک صرف امراء کو رسائی حاصل تھی۔ آج بھی صرف اور صرف وہی قومیں ترقی کررہی ہیں جن میں انصاف کا غیر جانبدار اور بے لچک نظام موجود ہے۔ اس لیے پانامہ جیسے کیس کو بھی جلد سے جلد ختم کیا جانا چاہیے اور انصاف کا تقاضا یہی ہے کہ فریقین کے لیے یہ ایک ’ٹیسٹ کیس‘ اور رول ماڈل کیس ہوجس سے تمام فریقین اور قوم متفق ہو!

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔