کمزور خواہش عظیم نتائج
جس طرح تھوڑی سے آگ زیادہ حرارت نہیں دے سکتی اسی طرح کمزور خواہش عظیم نتائج کو جنم نہیں دے سکتی۔
آئیے! میں آپ کو ایک مشہور تاریخی قصہ سناتا ہوں یہ ایک ایسے شخص کا قصہ ہے جو اکیس سال کی عمر میں کاروبار میں ناکام ہوگیا تھا اس نے بائیس سال کی عمر میں انتخابات میں شکست کھائی، چوبیس سال کی عمر میں دوبارہ کاروبار میں ناکامی سے دوچار ہوا ۔چھبیس سال کی عمر میں اس کی محبوبہ کا انتقال ہوگیا، ستائیس سال کی عمر میں وہ نروس بریک ڈائون کا شکار ہوگیا چونتیس سال کی عمر میں کانگریس کا انتخاب ہار گیا انچاس سال کی عمر میں سینیٹ کا انتخاب ہار گیا اور پھر وہ باون سال کی عمر میں امریکا کا صدر منتخب ہوا وہ شخص ابراہام لنکن تھا۔
کیا آپ لنکن کو ناکام آدمی کہیں گے وہ میدان سے بھاگ سکتا تھا شرمندگی کی وجہ سے خودکشی کرسکتا تھا وہ دوبارہ سب کچھ چھوڑ کر وکالت کا پیشہ اپنا سکتا تھا لیکن مسلسل شکست اور ناکامی ابراہام لنکن کو آگے بڑھتے رہنے کا راستہ دکھارہی تھی۔ وہ یہ نہیں سوچتا تھا کہ اس کا راستہ بند ہوچکا ہے ۔ ایک نوجوان نے سقراط سے پوچھا کہ کامیابی کا راز کیا ہے۔ سقراط نے اسے کہا کہ مجھے کل صبح دریا کے کنارے آکر ملنا۔ اگلی صبح ان کی ملاقات ہوئی تو سقراط نے کہا آئو میرے ساتھ دریا کی طرف چلو وہ چلتے چلتے دریا میں اتر گیا مگر آگے بڑھتا رہا جب پانی گردن تک پہنچا تو سقراط نے نوجوان کو پکڑ کر اسے پانی میں غوطہ دے دیا۔
نوجوان نے اس کی گرفت سے نکلنے کی کوشش کی لیکن سقراط اس سے زیادہ طاقت ور تھا اس لیے نوجوان کامیاب نہیں ہوا۔ سقراط نے اسے پانی میں ڈبوئے رکھا جب نوجوان کا حال خراب ہوگیا تو سقراط نے اسے پانی سے نکال لیا۔ نوجوان نے پانی سے سر نکالتے ہی منہ کھول کر لمبا سانس لیا۔ سقراط نے پوچھا جب تم پانی کے نیچے تھے تو تمہیں سب سے زیادہ کس چیز کی خواہش تھی نوجوان نے کہا ہوا کی۔ سقراط نے کہا ''یہ ہی ہے کامیابی کا راز'' جب تم کامیابی کی اس طرح شدید خواہش کرتے ہو جس طرح پانی میں ڈوبے ہوئے نوجوان نے ہوا کی خواہش کی تھی تب تم کامیاب ہوجاتے ہو۔
جس طرح تھوڑی سے آگ زیادہ حرارت نہیں دے سکتی اسی طرح کمزور خواہش عظیم نتائج کو جنم نہیں دے سکتی ۔ کامیابی کی تحریک کسی مقصد کو حاصل کرنے کی شدید خواہش سے ملتی ہے۔ پنولیئن ہل لکھتا ہے انسان جوکچھ سوچ سکتا ہے ذہن وہی کچھ حاصل کرسکتا ہے۔ کامیابی کی تمام داستانیں عظیم ناکامی کی کہانیاں ہوتی ہیں ناکامی کے صدمے ہی میں آپ وہ جرأت پاتے ہیں جو کہ آپ کو ناکامی پر غلبہ پانے کے قابل بناتی ہے۔ سقراط نے کہا ہے ایسی زندگی جس کا جائزہ نہیں لیا گیا رہنے کے قابل نہیں ہوتی۔
پاکستان کے سیاسی حالات کو سمجھنے والے سیاسی کارکن ، دانش ور اور تمام پڑھے لکھے لوگوں کو اس بات کا اچھی طرح سے احساس ہوچکا ہے کہ پاکستان ایک نہایت اہم موڑ پر کھڑا ہوا ہے۔ پاکستان میں پیدا ہونے والی مذہبی انتہا پسندی اور دہشت گردی میں شامل ایک اہم عنصر پاکستان کے اپنے جغرافیائی محل وقوع کا بھی ہے یہ سمجھنا ضروری ہے کہ موجودہ مذہبی انتہا پسندی اچانک پیدا نہیں ہوئی اور یہ نہ ہی 9/11 کے بعد امریکی اقدامات کے رد عمل کا نتیجہ ہے جب امریکا نے افغانستان پر حملہ کیا تھا۔
پاکستان میں انتہا پسندی اور عسکریت پسندی کا سلسلہ اس سے بہت قبل بھی جاری تھا بلکہ یہ سلسلہ تو پاکستان کے قیام سے قبل ہی جاری تھا پہلی جنگ عظیم کے اختتام پر مسلمانوں کی سیاسی تحریک میں شدت پسندانہ تبدیلی آتی چلی گئی اس کی وجہ علماء کا دوبارہ متحرک ہونا اور مرکز سیاست میں نمایاں مقام حاصل کرنا تھا۔ خلافت تحریک ہی پہلی مرتبہ ہندوستان کے مسلمانوں کی سیاست میں مذہبی تنگ نظری کو داخل کرنے کا باعث بنی اس ہی کی وجہ سے مسلمان علماء کو سیاست میں باقاعدہ کردار ادا کرنے کا موقع مل گیا اور انھوں نے ایک سیاسی تنظیم بنالی، جس کے ذریعے علماء نے سیاسی و نظریاتی بنیادوں پر سیاست میں اہم کردار ادا کرنا شروع کیا۔
جب کہ اس سے قبل مسلمانان ہند کی تاریخ میں علماء کو سیاسی زندگی میں اس قدر اہم اور مرکزی کردار ادا کرنے کا موقع پہلے کبھی نہ ملا تھا اور اس کے نتیجے میں رجعت پسندی کے خیالات کو بڑھاوا دینے کا انھیں موقع مل گیا۔ اس وقت بعض علماء قائد اعظم کی قیادت کو تسلیم کرنے کو تیار نہیں تھے وہ انھیں انگریزوں کا ایجنٹ کہتے تھے اور یہ علماء خود بھی پاکستان کے قیام کے خلاف تھے لیکن برصغیر کے مسلمان قائد اعظم کی فکر پر لبیک کہتے ہوئے ایک ایسی ریاست کو تشکیل دینا چاہتے تھے جو برصغیر کے مسلمانوں کے معاشی مفادات کا تحفظ کرسکے اور وہ ایک ایسی ریاست ہو جہاں جمہوریت اور آزادی بھی ہو۔
بدقسمتی سے قائد اعظم کو اپنی فکر کے مطابق ریاست کی تشکیل دینے کا موقع نہ مل سکا اور پاکستان کے قیام کے ایک سال بعد ہی ان کا انتقال ہوگیا۔ اتفاق کی بات یہ تھی کہ اسی وقت سوویت یونین اور امریکا کے درمیان کشمکش کا آغاز ہوچکا تھا اور اس کشیدگی کے اثرات دنیا کے مختلف ممالک کے ساتھ ساتھ پاکستان پر بھی پڑے۔ امریکا کو خدشہ تھا کہ کمیونسٹ انقلاب کہیں افغانستان اور پاکستان کو اپنی لپیٹ میں نہ لے لے اس وقت امریکی حکمت عملی یہ تھی کہ دنیا بھر کی اسلامی تنظیموں کو کمیونسٹ انقلاب کو روکنے کے لیے استعمال کیا جائے۔
اس امریکی حکمت عملی کی وجہ سے پاکستان میں مذہبی سیاسی جماعتوں کی چاندی ہوگئی اور انھیں خوب پھلنے پھولنے کا موقع ملا ایک اور مسئلہ پاکستان میں بھارتی خطرے کا بھی تھا بھارتی خطرے سے بچنے کے لیے پاکستان کو اپنا دفاع مضبوط کرنا پڑا اور پاکستان کے مقتدر حلقے یہ سوچ رہے تھے کہ مذہبی سیاسی جماعتیں مستقبل میں پاکستان کی دفاعی لائن کے طور پر کام کریں گی۔
جب افغانستان میں روسی افواج افغان حکومت کی دعوت پر داخل ہوگئیں تو امریکا کو یہ فیصلہ کرنا پڑا کہ پاکستان کی اسلامی تنظیموں اور دنیا بھر کے جہادی گروپوں کو روسی افواج سے متصادم کروادیا جائے اس کے نتیجے میں افغانستان میں ایک طویل جنگ ہوئی اور روس کے جانے کے بعد افغانستان پر غلبے کے لیے ان جہادی تنظیموں کے درمیان آپس میں زبردست جنگ ہوتی رہی اس جنگ کے اثرات پاکستان پر بھی پڑتے رہے ۔ طالبان کے افغانستان پر غلبے کے بعد انھوں نے پاکستان میں بھی اپنا عمل دخل شروع کر دیا اور پھر پینٹاگون اور ٹریڈٹاور پر حملے نے دنیا کو ہلا کر رکھ دیا اور امریکا نے طالبان کی حکومت کو افغانستان میں ختم کر نے کافیصلہ کیا ۔
امریکی حملے کے نتیجے میں طالبان تتر بتر ہو گئے تو انھوں نے پاکستان کے مختلف علاقوں میں پناہیں ڈھونڈنا شروع کر دیں اور ملک میں تیزی کے ساتھ انتہا پسندی میں اضافہ ہو تا چلا گیا اس کے بعد سے ہی یہ عناصر پاکستانی معاشرے سے ٹکرا رہے ہیں اور اسے اپنا تابع بنانا چاہتے ہیں۔ پاکستان کو طویل عرصے سے ایک سازش کے تحت انتہا پسندی اور دہشت گردی کی آگ میں دھکیلا جا رہا ہے۔ آج پورا ملک خود کش حملوں سے لرز رہا ہے پاکستان کو یکجہتی اور استحکام کی ضرورت جتنی آج ہے اتنی پہلے کبھی نہ تھی۔
پاکستان کی تمام سیاسی اور غیر سیاسی قوتوں کو اپنے تمام اختلافات بالائے طاق رکھ کر خود کش حملوں ، انتہاپسندی اور تشدد کے خلاف اتحاد کر نا ہو گا اس وقت پوری قوم کا ہوش میں آنا ضروری ہے۔ شدت پسندی اور انتہا پسندی اصل میں پاکستان پر حملہ ہے اور ہمیں ان کے خلاف ہر صورت میں کامیاب ہونا ہے لیکن اس کے لیے جو سب سے ضروری چیز ہے وہ ہے کامیابی کی شدید خواہش۔ اس لیے کہ کمزور خواہش عظیم نتائج کو جنم نہیں دے سکتی ۔ آئیں ہم سب مل کر بھر پور یکجہتی ،اتحاد، صحیح حکمت عملی اور کامیابی کی شدید خواہش کے ساتھ پاکستان عوام اور جمہوریت دشمنوں کے مقابلے کے لیے اٹھ کھڑے ہوں۔ یقین جانیے کامیابی ہمارا مقدر ہو گی اور خوشحالی ، ترقی، استحکام ہمارا نصیب ہو گا۔