لاہور دہشت گردی کے واقعات کی زد میں

غلام محی الدین  منگل 14 فروری 2017
دہشت گردی کے خلاف اس مشکل لڑائی میں جو کمزوری نظر آتی ہے وہ عوامی سطح پر ہے۔  فوٹو: ایکسپریس

دہشت گردی کے خلاف اس مشکل لڑائی میں جو کمزوری نظر آتی ہے وہ عوامی سطح پر ہے۔ فوٹو: ایکسپریس

امن کے نسبتاً طویل وقفہ کے بعد صوبائی دارالحکومت میں دہشت گردوں نے کامیاب وار کر کے ثابت کیا ہے کہ ملک کو اندر سے برباد کرنے والی سرگرمیوںمیں مصروف عناصر پر مکمل قابو نہیں پایا جاسکا۔

گزشتہ روز پنجاب میڈیکل سٹورز ایسوسی ایشن اور کیمسٹ اینڈ ڈرگسٹ ایسوسی ایشن نے پنجاب اسمبلی کے سامنے چیئرنگ کراس پر احتجاجی دھرنا دے رکھا تھا کہ تقریباً چھ بجے سارا علاقہ زوردار دھماکے سے لرزاُٹھا۔

غالب گمان یہی ہے کہ یہ ایک خودکش دھماکہ تھا تاہم بی بی سی سمیت بعض نشریاتی اداروںکا دعویٰ ہے کہ یہ ایک کار بم دھماکہ تھا کیونکہ ٹی وی فوٹیجزمیں ایک جلتی ہوئی موٹر کار دیکھی جاسکتی ہے۔دھماکے کے نتیجے میں ڈی آئی جی ٹریفک کیپٹن (ر) احمد مبین اور ایس ایس پی آپریشنز زاہد گوندل سمیت 16 افراد شہید اور متعدد زخمی ہو گئے۔ دہشت گردی کی یہ واردات اپنے اندر کئی ایک سوالات لئے ہوئے ہے۔

سب سے پہلی بات یہ ہے کہ دھماکے کے ابتدائی شواہد بتاتے ہیں کہ دھماکے کاہدف وہاں ڈیوٹی پر موجود پولیس اہلکار تھے جبکہ دھرنے کی کوریج کے لئے وہاں پر موجود صحافی اور نجی ٹی وی چینلز کے کارکن بھی دھماکے سے متاثر ہوئے۔ اس بات میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ پاک فوج، پولیس اور دوسرے سکیورٹی اداروں کی کوششوں کے نتیجے میں دہشت گردی کی واردات کرنا آسان نہیں رہا لہٰذا اب اگر کوئی ایسا واقعہ پیش آتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ ریاست مخالف قوتوں کی اعلیٰ قیادت اپنے ایجنڈے کے کسی ناگزیر تقاضے کے تحت ہر قیمت پر دہشت گردی کی کارروائی کرنا چاہتی ہے۔

لاہور میں سری لنکا کی کرکٹ ٹیم پر حملے کے بعد پاکستان کے اندر بیرون ممالک کی ٹیموں اور کھلاڑیوں کی آمد کا سلسلہ رُک گیا تھا۔ ہمارے ہاں کھیلوں کے بین الاقوامی مقابلوں کا سلسلہ رُک جانے پر سب سے زیادہ خوشی بھارت کو ہے اورا س نے کبھی یہ خوشی چھپانے کی کوشش بھی نہیں کی۔ دوسری جانب دبئی میں جاری پاکستان سُپر لیگ میں عالمی کھلاڑیوں کی دلچسپی اور عالمی سطح پر کھیلوں کے مقابلوں میں پی ایس ایل کی نیک نامی بھارت کو ہرگز گوارہ نہیں ہے۔

اب یہ فیصلہ ہوا تھا کہ پی ایس ایل کا ایک میچ کراچی جبکہ فائنل لاہور میں کھیلا جائے گا۔ اگر کامیابی کے ساتھ ایسا ہو جاتا تو دوسرے لفظوں میں پاکستان میں ایک مرتبہ پھر بین الاقوامی سطح کے کھیلوں کے مقابلوں کا سلسلہ شروع ہونے کے امکانات روشن ہو جاتے۔ غالب امکان ہے کہ جن پاکستان دشمن قوتوں نے سری لنکا کی ٹیم کو نشانہ بنایا انہوں نے ہی اب لاہور میں پنجاب اسمبلی جیسے حساس مقام پر دھماکہ کر کے دنیا کو یہ پیغام دیا ہے کہ پاکستان بدستور ایک ایسا ملک ہے جہاں کسی کے تحفظ کی ضمانت فراہم نہیں کی جاسکتی۔

موجودہ حالات میں کھیلوں کے کسی مقابلے میں شامل کھلاڑیوں یا مقابلے کے مقام کو نشانہ بنانا قریب قریب ناممکن ہوتا کیونکہ پاکستان پر غیرملکی کھلاڑیوں کا اعتماد بحال کرنے کے لئے غیر معمولی حفاظتی انتظامات کئے جاتے لیکن غالباً دھماکہ کرنے والوں کو اس بات کا یقین ہے کہ دہشت گردی کی ایک آسان واردات سے بھی یہ توقع کی جاسکتی ہے کہ غیرملکی ٹیموں اور کھلاڑیوں کی پاکستان آمد ایک مرتبہ پھر کھٹائی میں پڑ جائے گی۔

حالیہ دھماکے میں بھی حملہ کرنے کے لئے مقام کے تعین میں وہی پیٹرن نظر آتا ہے جو ماضی میں دیکھا گیا ہے۔ حملہ آوروں نے ایک ایسے ہدف کا چناؤ کیا جہاں توقع نہیں کی جاتی تھی۔ درحقیقت دہشت گردوں کا اصل کام یہی ہوتا ہے کہ اداروں اور لوگوں کو ذہنی انتشار کا شکار کردیں اور وہ مکمل طور پر غیر یقینی اور عدم تحفظ کا شکار ہو جائیں۔

پاک فوج، پولیس اور سکیورٹی کے دیگر اداروں نے دہشت گردی کے خلاف طویل لڑائی لڑی ہے اور بدستور لڑ رہے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس معرکے میں اہم کامیابیاں حاصل ہوئی ہیں۔ دہشت گردی کی کارروائیوں میں نمایاں کمی واقع ہوئی۔ دہشت گردی کے خاتمے کی جنگ میں سکیورٹی اداروں اور عوام نے بے پناہ قربانیاں دی ہیں۔ لڑائی کے اس اندرونی محاذ پر گو کہ بڑی حد تک کنٹرول حاصل کر لیا گیا ہے لیکن مکمل فتح ابھی دور دکھائی دیتی ہے۔ دہشت گردی کے خلاف اس مشکل لڑائی میں جو کمزوری نظر آتی ہے وہ عوامی سطح پر ہے۔ ایسی صورتحال میں سب سے اہم بات یہی ہوتی ہے کہ سب سے پہلے اپنی کمزوری کا اعتراف کر لیا جائے۔

یہ بات تسلیم کیے بغیر کوئی چارہ نہیں کہ عوامی سطح پر آگاہی اور دہشت گردی کے خلاف مزاحمت میں اس آگاہی کے استعمال کا ایسا نظام وضع نہیں کیا جا سکا جس کا تقاضا ہمارے حالات کرتے ہیں۔ ہم دہشت گردی کے خلاف اپنے بلدیاتی اداروں کو انتہائی موثر انداز میں استعمال کر سکتے تھے لیکن سیاسی مفادات کے زیراثر ایسا نہ کیا گیا۔ بلدیاتی نظام ہی آپ کو گھر گھر تک موثر رسائی فراہم کرتا ہے اور اسی نظام کے ذریعے گلی، محلہ کی سطح پر نگرانی کا موثر نظام وضع کیا جا سکتا ہے جو نہیں کیا جا سکا بلکہ اُلٹا انتشار اور محاذ آرائی کے مظاہرے سامنے آتے ہیں۔

ہمیں یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ جس جنگ کا ہمیں سامنا ہے وہ محض فوج اور سکیورٹی اداروں کے ذریعے نہیں جیتی جا سکتی۔ یہ پوری قوم کی جنگ ہے کیونکہ دہشت گرد معاشرے کے اندر ہی پھلتا پھولتا ہے۔ جب تک پوری پاکستانی قوم تمام مصلحتوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے خود کو دہشت گردی کے خاتمے پر مرکوز نہیں کرتی دہشت گردی سے مکمل نجات ممکن نہیں ہوگی۔

 

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔