اولمپکس میں پاکستانی ٹیم کی کوچنگ کرنا بڑا اعزاز ہے، جوئیل اینڈریوز

اقبال خورشید  جمعرات 16 فروری 2017
معروف فٹنس کنسلٹنٹ اور کوچ، جوئیل اینڈریوز کے حالات و خیالات۔ فوٹو: راشد اجمیری

معروف فٹنس کنسلٹنٹ اور کوچ، جوئیل اینڈریوز کے حالات و خیالات۔ فوٹو: راشد اجمیری

 

سبز رنگ اُن پر خوب جچتا ہے۔

مصافحہ کے وقت اُن کی مضبوط گرفت کا اندازہ ہوا۔ اُس سہ پہر اُنھوں نے پاکستانی بلیزر پہن رکھا تھا، جو یقیناً چند برس پرانا ہوگا، مگر یوں دمکتا تھا کہ اس پر نئے کا گمان ہوتا۔ ایک جانب وہ بیج لگا رکھا تھا، جو انھوں نے 84ء کے لاس اینجلس اولمپک میں پاکستانی ٹیم کے کوچ کی حیثیت سے سینے پر آویزاں کیا تھا، دوسری جانب وہ بیج تھا، جو اٹلانٹا اولمپکس کے موقع پر بلیزر پر سجایا۔ یہ بیج ان کا فخر ہیں۔ اُن ایونٹس کا تذکرہ کرتے ہوئے اپنے بیجز کی سمت بھی اشارہ کرتے ہیں۔

ملاقات ہوئی، تو دو بڑے بڑے تھیلے ہاتھ میں تھے۔ ایک میں وہ ایوارڈز تھے، جو مختلف سرکاری اور نجی اداروں کی جانب سے اُنھیں پیش کیے گئے، دوسرے میں وہ مضامین، جو گذشتہ چالیس برس کے دوران اُنھوں نے لکھے۔ یہ مضامین درجنوں اَن کہی کہانیاں سناتے ہیں۔ ان بلاصلاحیت کھلاڑیوں کی کہانیاں، جو گم نامی کی تاریکی میں گم ہوئے، جنھیں بھلا دیا گیا۔ دوران گفت گو ’’واک‘‘ کی اہمیت پر روشنی ڈالی، تو چہل قدمی اور ’’واک‘‘ کا فرق واضح کرنے کے لیے عملی مظاہرہ بھی کیا۔ کرسی سے اٹھے، اور اس ہال کا چکر لگایا، جہاں ہم بیٹھے تھے۔ سچ تو یہ ہے کہ 78 برس کی عمر میں بھی جوئیل اینڈریوز کی فٹنس حیران کن ہے۔

اب اُن کے کارناموں کا ذکر ہوجائے۔ فیلڈ اینڈ ٹریک ان کا میدان۔ گذشتہ ساڑھے تین عشروں سے ادھر ہیرے تراش رہے ہیں۔ نیشنل کوچنگ سینٹر، کراچی کے تحت سیکڑوں ایتھلیٹس کی تربیت کی، جنھوں نے نہ صرف ملکی، بلکہ بین الاقوامی مقابلوں میں بھی شرکت کی، اور پاکستان کا نام روشن کیا۔ اس فہرست میں مرد اور خواتین؛ دونوں شامل۔ پرویز اینتھونی، سلوا جاوید، ڈی لورس الویڈا، طحہ علوی، سلویا ڈی میلو، روزی ڈیلیما، شاہ نعیم ظفر جیسے نیشنل چیمپیئنز کا شمار اُن کے شاگردوں میں ہوتا ہے۔

72ء میں تہران جانے والی ایتھلیٹک ٹیم کو تربیت دینا اُن کے کیریر کا اہم موڑ ثابت ہوا۔ پھر آر سی ڈی ایتھلیٹک چیمپیئن شپ کا رخ کرتی ویمن ٹیم کی ٹریننگ کی۔ 84ء کے لاس اینجلس اولمپکس میں حصہ لینے والی پاکستانی ٹیم کا کوچ ہونا ایک بڑا اعزاز تھا، جسے لفظوں میں بیان کرنا اُن کے لیے ممکن نہیں۔ اسی کیفیت سے 96ء میں اٹلانٹا اولمپکس کے موقعے پر گزرے۔ بین الاقوامی سطح پر بھی صلاحیتوں کا اعتراف ہوا۔

بورڈ آف انٹرنیشنل ٹریک اینڈ فیلڈ کوچنگ ایسوسی ایشن، امریکا کے ایگزیکٹو آفیسر منتخب ہوئے۔ بہ قول ان کے، سن 96ء سے اب تک، وہ اِس عہدے پر فائز ہونے والے اکلوتے پاکستانی ہیں۔ انٹرنیشنل ٹریک اینڈ فیلڈ کوچنگ ایسوسی ایشن کے رکن ہیں۔ کراچی اور جام شورو یونیورسٹی سمیت کئی اداروں میں اپنے مضمون پر لیکچر دے چکے ہیں۔ ڈاؤ میڈیکل کالج کے اسپورٹس ایڈوائزر رہے۔ سو سے زاید مضامین لکھے۔ کوچنگ کے میدان میں اختراع بھی کی، ایتھلیٹس کے لیے ٹریننگ پروگرام بکس بنایا، جس پر آگے تفصیل سے بات ہوگی۔

اب ان کے حالات زندگی پر نظر ڈال لی جائے:

جوئیل اینڈریوز 1939 میں کھنہ، لدھیانہ میں پیدا ہوئے۔ اُن کے والد اندریاس این مسیحی تدریس کے پیشے سے منسلک تھے۔ ایک بہن، تین بھائیوں میں ان کا نمبر تیسرا۔ قدرتی sprinter تھے۔ دوڑنے میں تیز۔ چاق و چوبند اور پھرتیلے۔ کھیلوں میں آگے آگے رہتے۔ ان کی والدہ، نرس تھیں۔ ان کا تبادلہ ہوا، تو 1944 میں یہ خاندان پڈعیدن، نواب شاہ آن بسا۔ وہ چھوٹا سا علاقہ تھا۔ والد کو ملازمت نہیں ملی، تو اُنھوں نے ریلوے اسٹیشن پر بک اسٹال کرلیا۔ کچھ برس اُدھر رہے۔ 50ء میں خاندان کراچی اٹھ آیا۔ ادھر والد سی ایم ایچ اسکول میں استاد لگ گئے۔

ڈرگ روڈ کے سینٹ جونز اسکول میں جوئیل کا داخلہ ہوا۔ وہاں سے چوتھی جماعت کا مرحلہ طے کرکے وہ بھی سی ایم ایچ آگئے۔ کہتے ہیں،’’ہم بڑے خوش تھے کہ اسی اسکول میں زیر تعلیم ہیں، جہاں قائد اعظم نے پڑھا تھا۔‘‘ رہایش اسکول کے بورڈنگ ہاؤس میں مل گئی۔ اسپورٹس کی سرگرمیاں جلد دلچسپی کا محور بن گئیں۔ بلے باز تھے۔ اسکول کی ٹیم کا حصہ بنے۔ جن کھلاڑیوں کے ساتھ کرکٹ کھیلی، ان میں انتخاب عالم اور مشتاق محمد جیسے لیجنڈز شامل۔ ہارون رشید اور صادق محمد سے بھی ملاقات رہی۔ کہتے ہیں، ہمارے زمانے میں اسکولوں میں اسپورٹس کا معیار اتنا بلند تھا کہ وہاں کھیلنے والے بعد میں پاکستانی ٹیم کی نمایندگی کیا کرتے۔

60ء میں انھوں نے آرٹس سے میٹرک کیا۔ اسپورٹس کی بنیاد پر ایس ایم کالج کا حصہ بنے۔ باسکٹ بال کھیلی، اور خوب کھیلی۔ اسکول کی ٹیم کے کپتان رہے۔ اسے باسکٹ بال چیمپیئن بنایا۔ پھر اردو کالج سے جڑ گئے۔ وہیں سے انٹر کا مرحلہ طے ہوا۔ وہاں کی باسکٹ بال ٹیم کو بھی کئی فتوحات دلائیں۔ اس زمانے میں ’’پی ٹی سی‘‘ کرنے والے کو ماہانہ پچاس روپے وظیفہ ملا کرتا تھا۔ قاسم آباد (حیدرآباد) میں ٹریننگ سینٹر تھا۔ دورانیہ ایک برس۔ وظیفے کے چکر میں ادھر چلے گئے۔

لاہور کے گورنمنٹ کالج آف فزیکل ایجوکیشن میں اپلائی کر رکھا تھا۔ وہاں سے بلاوا آیا، تو لاہور کے لیے رخت سفر باندھا۔ وہاں سے ڈپلوما کیا۔ بعد میں چھوٹے بھائی نے بھی فزیکل ایجوکیشن میں ڈپلوما کیا۔ کالج کے زمانے میں آٹھ سو میٹر کی دوڑ کے چیمپیئن رہے۔ وہاں کام کرنے کی پیش کش ہوئی، مگر لوٹنے کی خواہش قوی تھی۔ کراچی کے بلوچ سیکنڈری اسکول سے بہ طور فزیکل ٹریننگ انسٹرکٹر، 110 روپے ماہ وار پر منسلک ہوگئے۔ وہاں جن بچوں کی ٹریننگ کی، انھوں نے صوبائی اور ملکی سطح کے مقابلوں میں حصہ لیا۔ 65ء میں کراچی پورٹ کا حصہ بن گئے۔ اگلے تین عشروں تک ادھر فریکل ٹرینز کے طور پر کام کیا۔ منوڑا کے مختلف اسکولوں میں ذمے داریاں نبھائیں۔

60 کی دہائی کے وسط میں حکومت نے نیشنل کوچنگ سینٹر کھولا، تو معروف ایتھلیٹ اور  Hurdlingکے سابق آل انڈیا چیمپیئن، خواجہ سلیم احمد اس کے ڈائریکٹر ہوگئے۔ وہ لاہور کے زمانے سے جوئیل اینڈریوز کو جانتے تھے۔ انھوں نے جوئیل کو اپنے ساتھ کام کرنے کی پیش کش کی۔ انھوں نے ملازمت تو نہیں چھوڑتی، مگر ان کے ساتھ برسوں نتھی رہے۔ سلسلہ یہ آج بھی جاری۔ اس دوران پیش کش ہوئی کہ نیشنل کوچنگ سینٹر کا مستقل حصہ بن جائیں، مگر کراچی پورٹ کی ملازمت چھوڑنا گوارا نہیں تھا۔ سو ادھر ہی سے ریٹائر ہوئے۔ آج بھی مصروف ہیں۔ سینٹ پیٹرک کالج سے بہ طور فریکل انسٹرکٹر منسلک ہیں۔

وہ قیام پاکستان کے فقط آٹھ ماہ بعد پولو گراؤنڈ میں منعقدہ پہلے پاکستان اولمپک گیمز کا بڑے جوش سے ذکر کرتے ہیں۔ 23 اپریل 48ء کو افتتاحی تقریب ہوئی، تو مہمان خصوصی قائد اعظم تھے۔ خواہش مند ہیں کہ جن ایتھلیٹس نے اس روز قائد اعظم سے ایوارڈز وصول کیے تھے، اُنھیں یاد رکھا جائے۔ اور ان میں سے جو حیات ہیں، ان کا تذکرہ کیا جائے، بالخصوص خواجہ سلیم احمد کا، جو آج کل لاہور میں مقیم ہیں۔

جوئیل اینڈریوز کے مطابق ہمارے ہاں صلاحیت کی کمی نہیں، ضرورت ایک ایسا سسٹم بنانے کی ہے، جو صلاحیت کو شناخت کرے، اسے سنوارے، اور دنیا کے سامنے پیش کرے۔ ’’کیمپ میں ہمارے پاس جو ایتھلیٹس آتے تھے، اُن میں سے زیادہ تر غریب گھرانوں کے ہوتے تھے۔ اُن کا وزن بین الاقوامی اسٹینڈر سے کم ہوتا۔ اس کی وجہ خوراک کی کمی ہے۔ انھیں جتنی کیلوریز درکار ہوتی ہیں، اتنی دست یاب نہیں ہوتیں۔

کوچ کا ایک کام یہ بھی ہے کہ کیمپ میں انھیں مطلوبہ کیلوریز فراہم کرے۔‘‘ کوچنگ میں، عام طور سے جو غلطیاں برتی جاتی ہیں، اُن کی بھی نشان دہی کی۔ کہا، ہمارے ہاں Skill یعنی مہارت کو زیادہ اہمیت دی جاتی ہے، اُسے پالش کرنے پر سارا زور لگا دیا جاتا ہے، مگر کوچنگ میں آغاز ہوتا ہے Strength سے، جس کے بغیر Skill بے معنی ہے۔ پھر توانائی اور لچک کا نمبر آتا ہے۔ ’’یہ چیزیں ہوں، تب مہارت کو نکھارا جاسکتا ہے، ورنہ ایتھلیٹ کچھ عرصے میں ان فٹ ہو کر کھیل سے باہر ہوجائے گا۔‘‘

عام طور سے پینٹ شرٹ پہننے والے جوئیل اینڈریوز سرد موسم سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ فٹ رہنے کے لیے باقاعدگی سے ٹریننگ کرتے ہیں۔ وہی غذا پسند، جو جسم کو بھائے۔ کہتے ہیں، کھانے سے پہلے انسان کو ذہن میں رکھنا چاہیے کہ وہ جو کچھ کھا رہا ہے، کل وہی شے اُس کا جسم بنے گی۔ غالب کے مداح۔ عام زندگی میں بھی شاعری کی اہمیت کے قائل۔ بہ طور کوچ جو پیغام کھلاڑیوں کو رٹانا ہو، وہ اشعار ہی کی صورت پیش کرتے ہیں۔ 76ء میں شادی ہوئی۔ خدا نے دو بیٹیوں، ایک بیٹے سے نوازا۔ بچے بھی ان کے مانند فٹنس کو خصوصی اہمیت دیتے ہیں۔ زندگی سے مطمئن ہیں۔ قناعت پسند آدمی ٹھہرے۔ کبھی زیادہ کی امید نہیں رکھی، اس لیے یہ شکوہ نہیں کہ ان کی صلاحیتوں کا اعتراف نہیں کیا گیا۔

اخبارات کا بنڈل لیے فاطمہ جناح کی طرف دوڑ پڑا۔۔۔

یہ اس زمانے کی بات ہے، جب والد نے پڈعیدن، نواب شاہ کے ریلوے اسٹیشن پر بک اسٹال کر لیا تھا۔ ان ہی دنوں تقسیم عمل میں آئی۔ پاکستان قائم ہوا۔ اگلے دن کم سن جوئیل نے دیکھا کہ ٹرین کے دروازے پر سفید کپڑوں میں ملبوس ایک باوقار خاتون کھڑی ہیں۔ اردگرد کئی لوگ ہیں۔ وہ اخبارات میں تصاویر دیکھتے رہتے تھے، تو فوراً پہچان لیا کہ وہ فاطمہ جناح ہیں۔ مادر ملت نے اشارے سے انھیں پاس بلایا۔ وہ اخبارات کا بنڈل لیے ان کی طرف دوڑ پڑے۔ مادر ملت سے ہاتھ ملایا۔ بڑے پُرتجسس تھے۔

فاطمہ جناح ایک اخبار اٹھاتیں، دیکھ کر رکھ دیتیں اور دوسرا اٹھا لیتیں۔ پھر اسے دیکھتیں، اور رکھ دیتیں۔ اسی دوران گاڑی نے سیٹی بجائی۔ آہستہ آہستہ آگے بڑھنے لگی۔ وہاں موجود لوگ پاکستان زندہ باد کے نعرے لگانے لگے۔ آٹھ سالہ جوئیل اس وقت تو فاطمہ جناح کا یوں ایک ایک اخبار کو دیکھنے کا سبب نہیں سمجھ سکے، مگر بعد میں اندازہ ہوا، وہ یہ دیکھنا چاہتی تھیں کہ اخبارات نے قیام پاکستان کے واقعے کو کس طرح ’’کور‘‘ کیا ہے۔

ایک کوچ، ایک ایتھلیٹ اور گولڈ میڈل

خواتین ایتھلیٹس کی بھی ٹریننگ کی۔ آج سینٹ پیٹرک گرلز کالج، کراچی سے فریکل ٹریز کے طور پر منسلک ہیں۔ ہم پوچھا کیے، کیا معاشرتی قیود اور روایات لڑکیوں کو اس سمت آنے سے روکتی ہیں؟ کہنے لگے، اگر بچی میں شوق اور صلاحیت ہو، تو کوچ کی ذمے داری ہے کہ اس کے والدین اور اساتذہ کو قائل کرے۔ اس ضمن میں سلوا جاوید کا واقعہ سنایا۔ وہ 70 کی دہائی تھی۔ ان دنوں وہ پی سی ایچ ایس کالج سے منسلک تھے۔ زیادہ تر گوانی لڑکیاں اس سمت آتی تھیں۔ وہ کھیل کی مناسبت سے شارٹس پہنا کرتی تھیں۔ وہاں ان کی نظر ایک ایسی لڑکی پر پڑی، جو شلوار  قمیصمیں hurdles کر رہی تھی۔ اس کا جذبہ اور قابلیت حیران کن تھی۔ ان کی نگاہ نے فوراً اس ہیرے کو شناخت کر لیا۔

سلوا سے کہا، اگر تم کمٹمنٹ کرو، تو میں تمھیں گولڈ میڈلسٹ بنا سکتا ہوں۔ لڑکی میں شوق تو تھا، مگر سماج اور روایات رکاوٹ بنے سامنے کھڑے تھے۔ اس ضمن میں جوئیل اینڈریوز نے کلیدی کردار ادا کیا۔ اسے سمجھایا کہ تم شلوار  قمیص پہن کر بھی مقابلے میں حصہ لے سکتی ہو۔ والدین اور اساتذہ کو قائل کیا کہ اسے اسپورٹس میں حصہ لینے کی اجازت دیں۔ ان کی محنت رنگ لائی۔ جلد ہی اپنی قابلیت سے سلوا جاوید اس زمانے کی مشہور ایتھلیٹ سلویا ڈی میلو کے سامنے جا کھڑی ہوئی۔ اور پھر وہ وقت آیا، جب نیشنل گیمز میں سلوا جاوید نے hurdles میں نیا ریکارڈ بنایا، اور گولڈ میڈل اپنے نام کیا۔

ٹی پی بی اے: جوئیل اینڈریوز کی اختراع

فقط کھلاڑیوں کی فٹنس پر توجہ نہیں دی، صرف ٹریننگ نہیں کروائی، بلکہ ایک ایسی اختراع کی، جس نے کھلاڑیوں کے لیے ٹریننگ کو مزید سہل بنا دیا۔ یہ ہے ٹی پی بی اے، یعنی Training Program Box for Athletes۔ برطانوی اور روسی ماہرین نے یہ بکس دیکھا، تو خوب سراہا۔ تفصیلات بتاتے ہوئے کہا،’’کھلاڑی ٹریننگ تو کرتا ہے، مگر اعدادوشمار میں involve نہیں ہوتا۔ کوچز کے پاس رجسٹر ہوتے ہیں۔ وہ نوٹس لیتے رہتے ہیں۔

ایتھلیٹ کو کہہ دیا جاتا ہے کہ پچاس میٹر 20 بار کرو۔ اب وہ دوڑے یا گنتی یاد رکھے؟ تو میں یہ بکس فینشنگ لائن پر لگا دیا کرتا تھا۔ اس پر ٹارگیٹ ٹائم لکھا ہوتا۔ یہ اہتمام ہوتا کہ جب وہ بکس کے پاس سے گزرے، تو تسبیح کے دانوں کی طرح ایک مارک آگے بڑھا دے۔ یوں وہ اپنے چکر گنتا جاتا ہے۔‘‘ جب تک خود کوچ رہے، اسے برتتے رہے، مگر بعد میں آنے والوں نے اسے اہمیت نہیں دی۔

 

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔