دہشت گردی کی نئی لہر اور فوجی عدالتوں کی مدت میں توسیع کا معاملہ

ارشاد انصاری  بدھ 22 فروری 2017
دہشتگردی کے حالیہ واقعات نے آپریشن ضرب عضب کی کامیابیوں کو بھی کافی حد تک گہنا دیا ہے۔ فوٹو:فائل

دہشتگردی کے حالیہ واقعات نے آپریشن ضرب عضب کی کامیابیوں کو بھی کافی حد تک گہنا دیا ہے۔ فوٹو:فائل

اسلام آباد: پاکستان کو ایک بار پھر دہشتگردی کے واقعات نے اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے، ملک بھر میں یکدم شروع ہونے والے دھماکوں کے نہ ختم ہونے والے سلسلے نے ایک بار پھرنہ صرف پوری قوم میں خوف و ہراس  پیدا کیا ہے بلکہ دہشتگردی کے ان واقعات نے سویلین حکومت اور فوجی قیادت کو بھی چکرا کر رکھ دیا ہے۔

یہ کہنے میں کوئی مضائقہ نہیں کہ یکے بعد دیگرے ہونے والے دہشتگردی کے حالیہ واقعات نے آپریشن ضرب عضب کی کامیابیوں کو بھی کافی حد تک گہنا دیا ہے اور قوم امن کے گذشتہ چند مختصر ایام کو اب قصہ پارینہ سمجھنے لگی ہے۔ گذشتہ چند سالوں کے دوران سویلین اور فوجی قیادت نے دہشتگردی گردی پر قابو پانے کیلئے متفقہ طور پر آپریشن ضرب عضب کا آغاز کرکے ملک بھر میں امن کا قیام ممکن بنایا تھا، کراچی جیسے شہر میں امن بحال ہوا تھا، سوات، شمالی و جنوبی وزیرستان، بلوچستان سمیت ملک بھر میں زندگی معمول پر آگئی تھی۔

ان ایام کے دوران فوجی اور سویلین حکومت برملا یہ اظہار کرتے رہے کہ دہشت گردوں کا مکمل طور پر قلع قمع کردیا گیا ہے، دہشت گردوں کی کمر ٹوٹ چکی ہے، ملک میں امن قائم کردیا گیا ہے اور اب کسی کو بھی امن و امان کی صورتحال کو خراب کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی جس پر عوام نے یقین کر کے سکھ کا سانس لیا تھا۔

تاہم گذشتہ ہفتے لاہور میں پنجاب اسمبلی کے باہر ڈرگ مینو فیکچررایسوسی ایشن کے احتجاج کے دوران ہونے والے خود کش حملہ کے بعد سے ملک میں از سر نو شروع ہونے والے دہشت گردی کے واقعات نے عوام کو یہ کہنے پر مجبور کردیا ہے کہ اگر دہشت گردوں کا ملک سے صفایا ہو چکا تھا، دہشت گردوں کی کمر ٹوٹ چکی تھی، کسی کو امن خراب کرنے کی اجازت نہ تھی تو حالیہ دنوں میں ہونے والے دھماکے کون کر رہے ہیں، دہشت گردوں کی کمر یکدم پھر کیسے سیدھی ہو گئی؟ یہ وہ سوالات ہیں جن کا نہ تو کوئی جواب ہے اور نہ کوئی جواب دینے کے لئے تیار ہے۔

حالیہ دہشت گردی کے واقعات پر پاکستان نے ایک بار پھر اس بات کا اظہار کیا ہے کہ دہشت گردوں کو سرحد پار افغانستان سے مدد اور تعاون مل رہا تھا اوراس ضمن میں شاید پہلی مرتبہ افغان سفیر کو دفتر خارجہ کے بجائے براہ راست آرمی قیادت نے جی ایچ کیو طلب کیا اور ان سے وہاں پناہ لینے والے دہشت گردوں کے خلاف فوری کارروائی کا مطالبہ کیا گیا ہے۔

آرمی قیادت نے اس موقع پر افغان سفیر کو ایسے 76 دہشت گردوںکی فہرست دی ہے جو فوجی آپریشنز کے دوران فرار ہو گئے اور انھوں نے افغانستان میں پناہ لے رکھی ہے۔ ان سے یہ بھی مطالبہ کیا گیا کہ ان دہشت گردوںکے خلاف فوری بھرپورکارروائی کریںاور گرفتار کئے جانے والے دہشت گردوں کو پاکستان کے حوالے کیا جائے۔

آرمی قیادت نے اس کے علاوہ افغانستان کے ساتھ اپنی سرحد بھی تاحکم ثانی بند کرنے اور سرحد عبور کرنے کی کوشش کرنے والے کو گولی مار دینے کا حکم دیا ہے۔آرمی قیادت نے اس موقع پر افغانستان میںامریکی کمانڈر جنرل جان نکلسن سے رابطہ کر کے پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی کی حالیہ کارروائیوں پر تشویش کا اظہار کیا اور انہیں بھی افغان حکام کو فراہم کی گئی شدت پسندوں سے متعلق فہرست سے آگاہ کیا۔آرمی قیادت نے یہ بھی کہا ہے کہ افغان سرزمین کو پاکستان کے خلاف دہشت گرد کارروائیوں میں استعمال ہونے سے روکا جائے اور افغان قیادت دہشت گردوں کو وہاں سے حاصل ہونے والے تعاون اور مالی معاونت کے خاتمے میں اپنا کردار ادا کرے ۔

دہشت گردی کے ان واقعات کے بعد ملک بھر کے مختلف علاقوں میں سکیورٹی انتظامات کو بہتر بنانے کے حوالے سے سرچ اور کومبنگ آپریشن کا سلسلہ جاری ہے جس میں بہت سے افراد کو گرفتار کر کے تفتیش کی جا رہی ہے اسی طرح بہت سے خطرناک دہشت گردوں کے گرد گھیرا تنگ کرتے ہوئے انہیں مقابلے کے دوران نشانہ بھی بنایا جا رہا ہے۔ اس ضمن میں اب تک درجنوں دہشت گردوں کو مارا جا چکا ہے۔ شہداء فاونڈیشن اسلام آباد نے سکیورٹی فورسز کی جانب سے دہشت گردوں کے خلاف مبینہ آپریشن کو گذشتہ روز اسلام آباد ہائیکورٹ میں چیلنج کر دیا ہے۔

درخواست میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ دہشت گردی کی حالیہ لہر کے بعد سکیورٹی فورسز نے کریک ڈاؤن میں 100 دہشت گردوں کو مارنے کا دعویٰ کیا ہے۔ فریقین کے پاس قانونی تقاضے پورے کئے بغیر کسی کو مارنے کا کوئی حق یا جواز موجود نہیں۔ عدالتیں شہریوں کے بنیادی حقوق کی محافظ ہیں اور مارشل لا کے ادوار میں بھی کردار ادا کرتی رہی ہیں۔ ریاست غلط خارجہ پالیسی اور ہمسایوں سے خراب تعلقات کے باعث عوام کے بنیادی حقوق کے تحفظ میں ناکام ہو چکی ہے۔

درخواست میں استدعا کی گئی ہے کہ عدالت عالیہ فریقین کو دہشت گردوں کے خلاف آپریشن میں مرنے والوں کی فہرست اور پوسٹ مارٹم رپورٹ فراہم کرنے کا حکم دے، غیر قانونی طور پر قانون نافذ کرنے والے اداروں کی تحویل میں لئے گئے افراد کی فہرست طلب کی جائے۔ درخواست میں یہ بھی استدعا کی گئی ہے کہ عدالت فریقین کو غیر قانونی طور پر شہریوں کے قتل عام سے روکے۔

دوسری طرف دہشت گردوں کو جلد از جلد سزا دلانے سے متعلق فوجی عدالتوں کی توسیع پر ہم آہنگی پیدا کرنے کے لئے پارلیمان میں موجود سیاسی جماعتوں کے قائدین نے مشاورتی میٹنگز کا سلسلہ تیز کردیا ہے تاکہ اتفاق رائے سے فوجی عدالتوں کی توسیع ہوسکے۔ حکومت نے اس ضمن میں سپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق کی زیر صدارت قومی اسمبلی میں موجود تمام جماعتوں کے پارلیمانی ممبران سے ابتدائی مشاورت کا عمل شروع کردیا ہے۔ تاہم ابھی تک سینٹ کو اس سے دور رکھا گیا ہے، سینٹ کو نہ تو اعتماد میں لیا گیا ہے اور نہ ہی سینٹ کے پارلیمانی لیڈرز کو ان میٹنگز میں بلایا گیا ہے۔

سینٹ کو نظر انداز کرنے پر گذشتہ روز ایوان بالا کے اجلاس میں چیئرمین سینٹ رضا ربانی سمیت تمام جماعتوں کے پارلیمانی لیڈرز نے حکومت سے سخت احتجاج کیا اور کہا کہ سینٹ کو نظر انداز کرنا حکومت کی بڑی غلطی ہوگی۔

سینٹرز کا کہنا تھا کہ پارلیمان صرف قومی اسمبلی کا نام نہیں بلکہ قومی اسمبلی اور سینٹ دونوں پارلیمان کے دو پہیوں کی مانند ہیں اگر ایک پہیے پر پارلیمان کو چلانے کی کوشش کی گئی تو یہ ہر صورت خطرناک ثابت ہوسکتا ہے جس سے حکومت کے لئے مشکلات پیدا ہوں گی۔

چیئرمین سینٹ رضا ربانی کا کہنا تھا کہ آئین کے آرٹیکل 50 کے تحت پارلیمنٹ سینٹ اور قومی اسمبلی پر مشتمل ہے لہٰذا قومی سلامتی امور سے متعلق قانون سازی کے معاملہ پر سینٹ سے مشاورت کرنا ضروری ہے کیونکہ اس بل نے سینٹ میں بھی پیش ہونا ہے۔ جس پر حکومتی وزراء نے چیئرمین سینٹ رضا ربانی اور دیگر ممبران کو یقین دہانی کرائی کہ فوجی عدالتوں کی توسیع کے معاملے پر سینٹ کو اعتماد میں لیا جائے گا۔ حکومت کو سینٹ کی اہمیت کا پورا احساس ہے، اس معاملے پر سینٹ کو نظرانداز کئے جانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ حکومتی وزراء نے کہا کہ سپیکر کی زیر صدارت آئینی ترمیم کے معاملے پر ابھی تک صرف ابتدائی میٹنگز بلائی گئی ہیں، آئینی ترمیم سینٹ کی مشاورت سے کی جائے گی اور سینٹ ارکان سے رابطہ کیا جائے گا۔ حکومتی وزراء کی طرف سے یقین دہانی کے بعد معاملات بہتری ہونے کی توقع ہے ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔