فساد کے اسباب کا ازالہ ضروری ہے

ڈاکٹر وقار یوسف عظیمی  منگل 28 فروری 2017

پاکستان کی مسلح افواج کی جانب سے دہشت گردی کے خلاف حالیہ برسوں میں کیے جانے والے ہر آپریشن، ہر اقدام کو قوم کی بھرپور تائید و حمایت حاصل رہی ہے۔ ان آپریشنز میں حاصل ہونے والی کامیابیاں تاریخ کا روشن حصہ اور قوم کے لیے باعث اطمینان ہیں۔

آپریشن ضرب عضب میں بھی پاکستان کی مسلح افواج نے انتہائی کم مدت میں بڑی کامیابیاں حاصل کیں۔ فوج، پولیس اور دیگر اداروں کے افسروں اور جوانوں کی قربانیوں کے طفیل پاکستان میں امن و امان کی صورت حال بہتر ہوئی اور چائنا پاکستان اقتصادی راہداری (CPEC) کی تعمیر کا آغاز ممکن ہوا۔

بیرونی اور اندرونی ذرایع سے پنپنے والی دہشت گردی سے مکمل نجات کا مرحلہ ابھی دور ہے۔ آپریشن ضرب عضب نے اس منزل کے قریب تو پہنچا دیا ہے لیکن پاکستان کو ہر طرح کے فساد سے بچا کر دہشت گردی سے محفوظ ایک پرامن ملک بنانے کے لیے ابھی بہت کچھ کرنا باقی ہے۔ توقع ہے کہ مسلح افواج کا شروع کردہ نیا آپریشن ’’ردّ الفساد‘‘ وفاقی اور سب صوبائی حکومتوں کے بھرپور تعاون کے ساتھ مطلوبہ نتائج حاصل کرنے میں کامیاب ہوجائے گا۔

ہر فساد کے اثرات و نتائج اس کے اسباب سے جڑے ہوتے ہیں۔ فساد کے اسباب بیرونی بھی ہوتے ہیں اور اندرونی بھی۔ پاکستانی قوم کئی دہائیوں سے فساد کا سامنا کر رہی ہے۔ اس فساد کو ختم کرنے اور قوم کو آیندہ محفوظ رکھنے کے لیے فساد کے تہہ در تہہ اسباب کو ہر وقت سامنے رکھنا ضروری ہے۔

جسم کو لگنے والی کوئی بیماری بھی فساد ہی ہوتی ہے۔ جسم کبھی وائرل انفیکشن سے، کبھی ملیریا یا ٹائیفائیڈ کے جراثیم سے، کبھی ٹیوبر کلوسس یعنی ٹی بی کے جراثیم سے بھی بیمار ہوجاتا ہے۔ ملیریا میں مریض کو چند روز تک دوا کی ضرورت پڑتی ہے۔ ٹائیفائیڈ کے مرض میں علاج کا دورانیہ چند ہفتوں کا ہوتا ہے، ٹی بی میں مریض کو تقریباً سال بھر دوا لینی ہوتی ہے۔ ٹی بی کی دواؤں کی ابتدائی خوراکوں کے بعد ہی اس مرض کی کئی علامتیں غائب ہوجاتی ہیں۔ ایسے میں ٹی بی کے کئی مریض اپنے آپ کو بھلا چنگا سمجھتے ہوئے دوا چھوڑ دیتے ہیں۔ ان کا یہ عمل جسم میں موجود ٹی بی کے جراثیموں کی نئی زندگی کا باعث بنتا ہے۔

ایسے لوگ جراثیم طاقتور ہوجانے کے بعد زیادہ شدت سے بیمار پڑتے ہیں۔ سب امراض کسی انفیکشن کی وجہ سے نہیں ہوتے۔ بعض امراض جسم کے کسی اندرونی نقص کی وجہ سے ہوتے ہیں، مثلاً ذیابیطس، بلڈ پریشر یا ڈپریشن۔ ایسے کئی امراض کے لیے ایک طویل عرصے تک یا زندگی بھر دواؤں کی ضرورت رہتی ہے۔ ’’ردّالفساد ‘‘کے لیے صحیح تشخیص اور اپنے پورے دورانیے کے ساتھ موثر علاج ضروری ہے۔

پاکستانی قوم کو جس فساد کا سامنا ہے، اس کے اسباب بیرونی بھی ہیں اور اندرونی بھی۔ بیرونی اسباب میں سرفہرست پاکستان کے خلاف بھارت کے عزائم ہیں۔ مقبوضہ کشمیر پر اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کے باوجود غاصبانہ تسلط رکھنے والا بھارت پاکستان کی معاشی ترقی سے بھی کبھی خوش نہیں رہا۔ چائنا پاکستان اقتصادی راہدری (CPEC) نے پاکستان کے خلاف بھارتی عزائم کو مزید بھڑکا دیا ہے۔

افغانستان کے کئی حکمرانوں اور اداروں کے پاکستان مخالف کردار سے بھی پاکستانی قوم واقف ہے۔ لیکن پاکستان میں بیرونی مداخلت کار صرف بھارت اور افغانستان ہی نہیں ہیں۔ پاکستان کے مغرب میں واقع بعض ممالک پاکستان کے لیے نقصان دہ کئی کاموں کے اسپانسر یا شریک رہے ہیں۔ پاکستان کے معاملات میں بعض بڑی طاقتوں کی دلچسپی اور یہاں مقامی سطح پر سیاسی اوردیگر عناصر کی سرپرستی بھی کوئی ڈھکا چھپا معاملہ نہیں۔

مسلح فوج کی جانب سے شروع کیے جانے والے آپریشن ’’ردّ الفساد ‘‘کے بارے میں وزیراعظم نواز شریف کا یہ کہنا امید اور حوصلوں میں اضافے کا سبب ہے کہ اس آپریشن کا فیصلہ وزیراعظم ہاؤس میں ہوا۔ ہمارے بعض مسائل کا ایک بڑا سبب یہ بھی رہا ہے کہ کئی معاملات میں حکومت اور فوج کے درمیان فکر و نظر کی یکسانیت محسوس نہیں ہوئی۔ فوج کی ہر کامیابی دراصل حکومت کی ہی کامیابی ہوتی ہے۔ فوج کے کئی اقدامات حکومت کے بھرپور سیاسی عزم کے بغیر مطلوبہ نتائج نہیں دے سکتے۔

پاکستان کے حکمراں اور سیاست دان سیاسی مصلحتوں اور انفرادی مفادات کے بجائے قوم کے اجتماعی مفاد کو ترجیح دیتے رہتے تو ہمارے کئی مسائل جنم ہی نہ لیتے۔ جنرل ضیاء الحق اور جنرل پرویز مشرف کے ادوار میں قومی سطح کی سیاسی جماعتوں کو کمزور کرنے، اپنی حکومتوں کو استحکام اور سیاسی حمایت حاصل کرنے کی غرض سے کیے جانے والے کئی فیصلے بھی پاکستان میں خرابیوں کا سبب بنے۔ صوبوں میں کئی علاقائی سیاسی جماعتیں ابھارنے کی کوشش یا مذہبی گروہوں کی سرپرستی کے بھی بعد میں منفی نتائج سامنے آئے۔

ہمارے ملک میں کئی دہائیوں سے پھیلے فساد کو پنپنے میں ہماری بعض غلطیوں اور کوتاہیوں کا بھی حصہ ہے۔ ان غلطیوں اور کوتاہیوں کا ادراک و اعتراف کیے بغیر اصلاح احوال کا ہر عمل ادھورا رہے گا۔ ’’ردّ الفساد‘‘ کے لیے مسلح افواج، پاکستان بھر میں دہشت گردوں اور امن دشمنوں کے خلاف آپریشنز کر رہی ہیں۔ افواج کی ان کوششوں کے ساتھ ساتھ حکومت اور پارلیمنٹ میں موجود سیاسی جماعتوں کو کئی معاملات میں اصلاح کے لیے اپنا اپنا کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔ ان میں انتخابی نظام میں اصلاح، یکساں نظامِ تعلیم ، رواداری اور برداشت کا فروغ اور بین الصوبائی تعلقات سرفہرست ہیں۔

انتخابی نظام میں اصلاح: 1985 سے 2013 تک پاکستان میں آٹھ جنرل الیکشن ہوچکے ہیں۔ گزشتہ کئی انتخابات میں ایک بڑا سوال یہ تھا کہ ووٹر کی ایک بڑی تعداد ووٹ ڈالنے کے لیے اپنے گھروں سے نکل کر پولنگ اسٹیشنز تک کیوں نہیں آتی۔ جو لوگ ووٹ ڈالنے آتے ہیں ان کی ایک بڑی تعداد بھی انتخابی نظام سے مطمئن نظر نہیں آتی۔ کیا یہ حقیقت نہیں کہ ہمارا موجودہ انتخابی نظام اکثر حلقوں کے ووٹرز کے فیصلے کی صحیح عکاسی نہیں کرتا۔ مثال کے طور پر ایک حلقے میں تین لاکھ ووٹ رجسٹرڈ ہیں۔

الیکشن میں پچاس فیصد سے زاید ووٹ ڈالے گئے، اس حلقے میں فرض کیجیے کہ چار امیدواروں نے حصہ لیا۔ ایک امیدوار کو پینسٹھ ہزار ووٹ ملے۔ دوسرے کو ساٹھ ہزار، تیسرے کو بیس ہزار اور چوتھے کو سات ہزار۔ اس طرح تین لاکھ رجسٹرڈ ووٹرز کے حلقے میں پینسٹھ ہزار ووٹ حاصل کرنے والا منتخب قرار پایا۔ قابل غور بات یہ ہے کہ کامیاب امیدوار کے مخالف تین امیدواروں کے مجموعی ووٹ اس کے حاصل کردہ ووٹوں سے زیادہ تھے۔ معاشرے میں رائج برادری سسٹم اور دیگر کئی معاملات بھی انتخابی نتائج پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ اصلاح احوال کے لیے پاکستان میں انتخابی نظام میں اصلاح کی فوری ضرورت ہے۔

یکساں نظامِ تعلیم: پاکستان میں شرح خواندگی میں اضافے کے لیے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کی ضرورت ہے، اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی دیکھنا ضروری ہے کہ اسکول اور کالج جانے والے طلبا و طالبات کو کس معیار کی تعلیم دی جارہی ہے۔ پاکستان میں غریب کے لیے الگ تعلیمی ادارے ہیں اور امیر گھرانوں کے بچوں کے لیے الگ۔ قوم کی بھلائی کے لیے اس امتیاز و تفریق کو دور کرنا ضروری ہے۔ اس کے ساتھ انتہائی اہم معاملہ اسکولوں میں پڑھایا جانے والا نصاب ہے۔

کئی انگلش میڈیم مہنگے اسکولوں میں پڑھائے جانے والے نصاب کو دیکھ کر یہ کہا جاسکتا ہے کہ ایسا نصاب ہماری نوجوان نسل کو اچھا مسلمان اور اچھا پاکستانی بننے میں کوئی کردار ادا نہیں کررہا۔ یکساں نظامِ تعلیم اور مادری زبان میں پرائمری تعلیم پاکستانی قوم کی اولین ضرورتوں میں سے ہے۔

رواداری اور برداشت کا فروغ: انتہا پسندی اور شدت پسندی پاکستانی قوم کو درپیش خطرناک مسائل ہیں۔ ان معاملات سے نمٹنے اور ملک میں رواداری اور برداشت کے فروغ کے لیے شارٹ ٹرم اور لانگ ٹرم منصوبہ بندی اور اقدامات کی ضرورت ہے۔ ان اقدامات کے لیے اساتذہ، دانشوروں، مذہبی عالموں، صحافیوں، تاجروں، صنعت کاروں سمیت معاشرے کے مختلف طبقات کے افراد سے بامقصد اور بامعنی مشاورت ضروری ہے۔

بین الصوبائی تعلقات: پاکستان کے استحکام اور ترقی کے لیے قومی وسائل میں ملک کے ہر صوبے کا منصفانہ حصہ لازمی ہے۔ کسی صوبے کی وفاق سے یا ایک صوبے کو دوسرے صوبے سے کوئی شکایت نظرانداز یا ٹال مٹول ہونے سے کئی غلط فہمیاں جنم لے سکتی ہیں۔ خوش گوار اور مستحکم بین الصوبائی تعلقات پاکستان کی تیز رفتار اقتصادی ترقی اور کئی شعبوں میں سماجی بہتری کا ذریعہ بنیں گے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔