فیس بک نے فلسطینی جماعت ’’الفتح‘‘ کا پیج بند کردیا

 منگل 28 فروری 2017
فیس بک نے الفتح کا اکاؤنٹ تیسری بار بند کیا ہے، الفتح ترجمان نے تصدیق کردی، فوٹو؛ فائل

فیس بک نے الفتح کا اکاؤنٹ تیسری بار بند کیا ہے، الفتح ترجمان نے تصدیق کردی، فوٹو؛ فائل

غزہ: فیس بک نے فلسطینی صدر محمود عباس کی جماعت الفتح کا آفیشل فیس بُک پیج بند کردیا۔

سماجی رابطے کی ویب سائٹ فیس بک نے تشدد پر اکسانے کے الزام میں فلسطینی سیاسی جماعت الفتح کا آفیشل پیج بند کردیا اور خیال ہے کہ یہ پیج فیس بک انتظامیہ کی جانب سے اس نئی مہم کے تحت بند کیا گیا ہے جس میں انہوں نے تشدد کو ہوا دینے والے مبینہ دہشت گرد تنظیموں کے اکاؤنٹ بند کرنے کا اعلان کیا تھا۔

فیس بک کی جانب سے ’’الفتح ‘‘ کا آفیشل اکاؤنٹ دوسری مرتبہ بند کیا گیا ہے۔ الفتح کے ایک ترجمان نے واقعے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ غالباً فیس بک کو یاسر عرفات کی اس تاریخی تصویر پر اعتراض ہے جس میں وہ الفتح کے نائب چیئرمین محمود العلول کے ساتھ دکھائی دے رہے ہیں اور یاسر عرفات کے ہاتھ میں ایک کلاشنکوف ہے۔ الفتح کا مؤقف ہے کہ یاسر عرفات کی اس تصویر سے تشدد کی ترویج نہیں ہوتی۔ ترجمان نے تصدیق کی کہ فیس بک نے 3 بار انہیں یہ تصویر ہٹانے کا نوٹس جاری کیا تھا۔

الفتح پر یہ الزام بھی عائد کیا گیا ہے کہ اس نے 2 اگست 2016 کو اپنی ایک پوسٹ میں لکھا تھا کہ اس کے حامی اب تک 11 ہزار اسرائیلیوں کو مارچکے ہیں۔

دوسری جانب اسرائیلی حکومتی حلقوں کا بار بار اصرار رہا ہے کہ فیس بک اسرائیل کے خلاف تشدد کو ہوا دے رہا ہے۔ اس سے قبل اسرائیل میں عوامی تحفظ کے وزیر جیلاڈ ارڈان نے فیس بک کے بانی مارک زکربرگ کو کہا تھا کہ وہ اسرائیلی درخواستوں پر کان نہیں دھررہے اور یوں مارک کے ہاتھ ’’خون سے رنگے‘‘ ہیں۔

فلسیطینی حلقوں کے مطابق اسرائیل اکتوبر 2015 کے بعد سے اب تک درجنوں فلسطینی نوجوانوں کو حراست میں لے چکا ہے جن پر الزام لگایا گیا ہے کہ وہ سوشل میڈیا پر اسرائیل مخالف اقدامات کے مرتکب ہوئے ہیں۔ اسرائیل کا الزام ہے کہ 2015 میں شروع ہونے والی اس مبینہ فلسطینی لہر میں سوشل میڈیا کا اہم کردار رہا ہے۔

گزشتہ ستمبر میں فیس بک نے اسرائیل کے ساتھ یہودی مخالف مواد پر پابندی اور بے چینی بڑھانے کے خلاف اقدامات کا وعدہ کیا تھا اور اسرائیل کے 95 فیصد مطالبات مانے گئے تھے اس کے باوجود اسرائیلی حکومت اب بھی فیس بک سے نالاں ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔