حیاء کے قلعے پر حملہ

ذوالفقار احمد چیمہ  بدھ 8 مارچ 2017
zulfiqarcheema55@gmail.com

[email protected]

(پاکستان کی بیٹیوں اور ان کی ٹیچرز کے نام)

مشرق کے بے مثل مفکّر ، شاعر اور دانائے راز علامہ اقبال ؒنے ’’جاوید نامہ‘‘ میں اپنی ایک خوبصورت فارسی نظم میں حجاب کی حکمت بڑے دلپذیر انداز میں بیان کرتے ہوئے کہا ہے کہ’’ کائناتوں کو تخلیق کرنے والے ربّ ِ ذوالجلال کو ہم دیکھ نہیں سکتے کیونکہ خالق پوشیدہ رہتا ہے اسی طرح تخلیق کرنے والی ہر ہستی کو نظروں سے اوجھل رکھا جاتا ہے کیونکہ تخلیق کی حفاظت کے لیے خلوت کی ضرورت ہوتی ہے اور اس کے صدف کا موتی خلوت میں ہی جنم لیتا ہے‘‘۔

حفظ ہر نقش آفریں از خلوت است

خاتم اِورانگیں از خلوت است

جاپانی نو مسلمہ خولہ لکاتا حجاب کے بارے میں اپنے تاثرات بیان کرتے ہوئے کہتی ہیں ’’ میرے دل میں روحانیت کی اتنی اشتہا تھی کہ میں نے سب سے پہلے اسلامی لیکچر کے ہر لفظ کو اس طرح جذب کرلیا جیسے خشک اسفنج پانی کو جذب کرتا ہے۔ حجاب پہنکر میں اپنے آپ کو پاکیزہ اور محفوظ سمجھنے لگی اور مجھے احساس ہوا کہ میں ﷲ سبحانہ تعالیٰ کے زیادہ قریب ہوگئی ہوں۔

میرا حجاب دوسروں کے لیے ﷲ تعالیٰ کے وجود کی یاددہانی ہے اور میرے لیے اپنے آپ کو ﷲ کے سپرد کرنے کی یاد دہانی۔ میرا حجاب مجھے آمادہ کرتا ہے کہ ہوشیارہوجاؤ تمہارا لباس اور طرزِ عمل ایک مسلم کی طرح ہونا چاہیے، جس طرح پولیس اور فوج کا سپاہی وردی میں اپنے پیشے کے تقاضوں کا خیال رکھتا ہے اسی طرح حجاب بھی مجھ سے کچھ تقاضے کرتا ہے۔ اسلام عورتوں سے مطالبہ کرتا ہے کہ وہ غیر مردوں سے اپنا جسم پوشیدہ رکھیں۔ اس کی حکمت سے کیسے انکار کیا جاسکتا ہے۔

ٹائٹ پینٹ، منی اسکرٹ یا ہیجان انگیز لباس کا مطلب ہوتا ہے ’اگر آپ کو میری ضرورت ہے تو مجھے لے جاسکتے ہیں‘۔ حجاب صاف طور پر بتاتا ہے ’میں آپکے لیے ممنوع ہوں‘۔ اسلام میںعورت صرف اپنے شوہر کے لیے دلکش بننے کی کوشش کرسکتی ہے۔کوئی شادی شدہ عورت دلکش بنکر کسی مرد کی توجّہ کیو ں اپنی طرف مبذول کرانا چاہتی ہے؟ کیا وہ اس بات کو پسند کریگی کہ دوسری عورتیں اس کے شوہر کو اپنی طرف مائل کریں؟ اسلام سے بغض رکھنے والے متعصّب لوگ ایسی عورت کی عظمت کا اندازہ نہیں لگاسکتے جو حجاب میں پراعتماد، پرسکون ، باوقار اور پرمسّرت ہے اور اپنے حجاب پر فخر کرتی ہے‘‘۔

15فروری کو حیاء پر حملے کے بارے میں پہلا کالم چھَپنے کے بعد ممتاز ماہرِ تعلیم اور لاہور کالج فارویمن کی سابق وائس چانسلر ڈاکٹر بشریٰ متین صاحبہ نے فون کیا اور فرمایا ’’مجھ سے کچھ طالبات حیاء کے بارے میں سوال پوچھتے ہوئے جب کہتی تھیں کہ میڈم حیاء تو دل میں یا آنکھوں میں ہوتی ہے۔ اس کا لباس سے کیا تعلق ہے‘‘  تو میں انھیں بتاتی تھی ’’بیٹا ! یہ صرف فلمی ڈائیلاگ ہیںاور کچھ لوگ بیہودہ لباس کے دفاع میں ایسی باتیں کرتے ہیں۔ حیاء کا لباس سے گہرا تعلق ہے جو لڑکی اپنے جسم کے فیچرز اور اُبھار ڈھانپتی ہے وہ باحیاء ہے اور جولڑکی اپنے فیچرز اور خدّوخال سرِ عام دکھانے میں شرم محسوس نہیں کرتی لوگ اسے با حیا کیسے کہیں گے؟ ڈاکٹر صاحبہ نے مزید کہا کہ کچھ مائیں اور خود لڑکیاں بھی آجکل کا نامناسب لباس پسند نہیں کرتیں مگر سماجی دباؤ کی وجہ سے خاموش ہوجاتی ہیں اور تنہائی کا شکار ہونے کے ڈر سے وہ بھی بیہودہ لباس پہننا شروع کردیتی ہیں۔

انھیں چاہیے کہ ہمّت سے کام لیں اس بیہودگی کے خلاف ڈٹ جائیں، بے حیائی کے خلاف نفرت کا اظہار کریں اور اپنی تہذیب اور اَقدار کے مطابق باحیاء اور باوقار لباس پہنیں۔ انھوں نے بتایا کہ میری ایک بیٹی ڈاکٹر ہے، ایک دن اس نے مجھے خود کہا کہ امّی میں پورے بازوؤں والی قمیض پہن کر اسپتال جایا کروںگی کیونکہ میں یہ پسند نہیں کرتی کہ وار ڈمیں مریض میرے ننگے بازو دیکھتے رہیں۔ ڈاکٹر صاحبہ نے درست کہا کہ’’ نئی نسل کو بے حیائی سے بچانا ہمارا بہت بڑا چیلنج ہے۔ د ہشتگردی سے بھی بڑا! اس کے لیے ان کی ماؤں اور ٹیچرزکو بھرپور اور فوری کردار ادا کرنا ہوگا۔ انھوں نے اپنے فرائض سے کوتاہی برتی تو وہ مجرم ٹھہریں گی، تاریخ کے کٹہرے میں بھی اور ﷲ کی عدالت میں بھی‘‘ ۔

پچھلے کالم کے بعد اسلام آباد کے ایک گرلز کالج کی پرنسپل صاحبہ ملنے کے لیے تشریف لائیں،کالم کے بارے میں اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہنے لگیں کہ ’’تحریر نے انتہائی اہم اور تشویشناک اِشوکی نشاندہی کی ہے اور بروقت دستک دی ہے۔ پھر کہنے لگیں صاف نظر آرہا ہے کہ کچھ طاقتوں نے منصوبہ بندی کے تحت حیا کے قلعے کا محاصرہ کیا ہے اور اس پر مسلسل گولہ باری کرکے اسے جگہ جگہ سے منہدم کردیا ہے اس حملے میں وہ سب سے زیادہ میڈیا اور انٹرنیٹ کو استعمال کررہی ہیں۔ میڈیا ہاؤسز اشتہاروں کے لیے ان کے آلۂ کار بنے ہوئے ہیں۔

میں طالبات سے اکثر کہتی ہوں کہ ہماری پبلک لائف کی معروف ترین خواتین کیطرف دیکھیں محترمہ فاطمہ جناح دوپٹہ لیتی تھیں، محترمہ بینظیر بھٹوہمیشہ دوپٹے سے سرڈھانپتی تھیں،موجودہ خاتونِ اوّل بیگم کلثوم نوازاور ان کی بیٹی مریم نواز حجاب میں حجاب محسوس نہیں کرتیں، پہلی خاتون اسپیکر ڈاکٹر فہمیدہ مرزا اور موجودہ وفاقی کابینہ کی تینوں خواتین وزراء دوپٹہ لیتی ہیں۔ صوبائی وزیر بیگم ذکیہ شاہنوازصاحبہ تو گریس اور وقارکی دیوی لگتی ہیں۔ یہ ملک کی ویمن لیڈرز ہیں، لڑکیوں کو لباس کے معاملے میں ان کی پیروی کرتے ہوئے سَر اور چَیسٹ کوcoverکرنا چاہیے اور گھٹیا قسم کی ایکٹرسوں یا اخلاق باختہ عورتوں کی پیروی ہرگز نہیں کرنی چاہیے‘‘۔

قاضی حسین احمد صاحب مرحوم و مغفور کی صاحبزادی اور سابق ایم این اے محترمہ سمیعہ راحیل قاضی نے عالمی یومِ حجاب کے سلسلے میں بڑا خوبصورت کتابچہ مرتب کیا ہے۔اس کتابچے میں انھوں نے حجاب اور مسلم تشخّص کے تحفّظ کے لیے مروہ الشربینی سمیت کئی خواتین کی قربانیوں کے روح پرور واقعات تحریرکیے ہیں۔

مروہ الشربینی ایک مصری نژاد جرمن مسلمان خاتون تھیں جو اُس بے حیائی کے ماحول میں بھی اپنی عصمت و عفت کی حفاظت سے غافل نہیں تھیںاور مکمل حجاب کا اہتمام کرتی تھیں۔ مغرب کے انتہا پسندوں کو یہ بات پسند نہ تھی۔ ان کے ایک بدمعاش پڑوسی ایگزل نے اسوقت ان کی توہین کی جب وہ ایک پارک میں اپنے بچے کے ساتھ موجود تھیں۔ الشربینی بہادر خاتون تھیں انھوں نے اس کے خلاف مقدمہ درج کرادیا، عدالت نے ایگزل کو جرم ثابت ہونے پر دوہزار یورو جرمانے کی سزا سنادی۔ یہ سنتے ہی جنونی ایگزل نے الشربینی پر عدالت میں ہی حملہ کردیا، وہ حاملہ تھیں، مجرم نے ان کا حجاب پھاڑ دیا، ان کے پیٹ پر لاتیں ماریں اور پھرچاقو کے کئی وار کرکے الشربینی کو عدالت میں ہی شہید کردیا۔ مروہ الشربینی شہید کی یاد میں دنیا بھر کی مسلم خواتین یومِ حجاب مناتی ہیں۔ یقیناً جنّت کے اعلیٰ ترین حصّے میںحضور نبی کریم ﷺ نے خود مروہ شہید کا استقبال کیا ہوگا۔

مسلم عورتوں سے حیا کی چادر اتار نے والے کون ہیں؟ ذرا غور سے دیکھیں ایک ہاتھ سے بیٹیوں کا دوپٹہ کھینچنے والے دوسرے ہاتھ سے ڈالر وصول کررہے ہیں ،یہ بھی دیکھیں کہ اس حملے کے منصوبہ ساز ، فنانسر اور ہدایتکار کون ہیں؟ کیاوہ ہمارے خیرخواہ اور well wisher ہیں؟۔ ہرگز نہیں! وہ بدنیّت بھی ہیں اور ہمارے بدخواہ بھی ۔ انھیں ہمارے ملک کا امن اور استحکام بھی پسند نہیں اور وہ ہماری بقاء اور حیاء کے بھی مخالف ہیں، انھیں پہچانیں۔ یہ وہی ہیں جنہوں نے دنیا بھر میں خونِ مسلم کو اَرزاں کردیا ہے۔

جنہوں نے بم اور بارود سے عراق، شام، لیبیا، مصر اور افغانستان میں لاکھوں معصوم بچوں ، عورتوں اور بے گناہ شہریوں کے چیتھڑے اڑا دیے ہیں ، جو عورتوں کو جانگیئے پہنا کر ان کی کُشتیاں کراتے ہیںجوعورت کی عورت سے شادی کو جائز قرار دیتے ہیں، ان کا عورت سے صرف ہوس اور حرص کا رشتہ ہے۔ ہر قوم کی اپنی تہذیب اور اپنا کلچر ہو تا ہے اور لباس اس تہذیب کا آئینہ دار ہوتا ہے۔کیا ہماری اپنی کوئی تہذیب نہیں ہے؟۔ ہماری تہذیب تو اتنی توانا ہے کہ اس سے خود مغرب خوفزدہ ہے ۔ اپنی مسلم تہذیب اور مسلم تشخّص کے تحفّظ کے لیے ہی قائد اعظم اور ان کے ساتھیوں نے انڈیا سے علیحدہ ہوکر پاکستان بنایا تھا۔ تو کیا اب ہماری شناخت ختم ہوجائے گی؟ کیا ہم خود اپنی علیحدہ شناخت ختم کردیں گے؟

نہیں، ایسا کبھی نہیں ہوگا ۔ میرا وجدان کہتا ہے کہ ﷲ سبحانہ تعالیٰ کی خوشنودی کے لیے اس پاک سرزمین کے کالجوں اور یونیورسٹیوں کی طالبات خود اٹھ کھڑی ہوںگی۔ وہ بہت جلد اپنی تہذیبی اَقدار کا پرچم لے کر نکلیں گی ، حیا دشمن کلچر کو مسترد کردیں گی اور بیہودگی کے طوفان کا رخ موڑ دیں گی، ان کی للکار ہر سمت گونجے گی اور ان کی آواز ہر گھر میں ہر بیٹی اور ہر ماں تک پہنچے گی ۔ وہ حیاء کے قلعے پر ہونے والے حملے کو پَسپاکردیں گی اور ان کا یہ اعلان پورے خطّے میں گونجے گا کہ “ہماری حیاء ، ہمارا ایمان ہے۔ یہ ہماری پہچان ہے اور یہی وجۂ پاکستان ہے۔ ہم ہر قیمت پر اپنی حیاء کے قلعے کا تحفّظ کریں گی‘‘۔ (ختم شدہ)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔