خوش خطی کے پانچ اضافی نمبر

امجد اسلام امجد  جمعرات 16 مارچ 2017
Amjadislam@gmail.com

[email protected]

اب تو امتحانی پرچوں کا انداز اور ترتیب کچھ اور ہی ہو گئے ہیں لیکن ہمارے بچپن کے دنوں میں دو خصوصی نوعیت کی رعایتیں ہر طالب علم کو دی جاتی تھیں ایک تو  Choice کہلاتی تھی یعنی آپ دس میں سے کوئی بھی پانچ یا چھ سوال حل کر سکتے تھے اور دوسری یہ خوش خبری یا تحریک کہ خوش خطی سے پرچہ حل کرنے والوں کو پانچ اضافی نمبر دیے جائیں گے۔ آگے چل کر یہ سلسلہ کب اور کیوں منقطع ہوا اس کے بارے میں میرے پاس مصدقہ معلومات نہیں ہیں لیکن خیال یہی ہے کہ انگریزی میڈیم کے ساتھ Objective انداز کے سوالات نے ’’علم‘‘ پر ’’معلومات‘‘ کو ایک ایسی ترجیح دینا شروع کر دی جس کی وجہ سے خوش خطی کی ضرورت کے ساتھ ساتھ Choice کا معاملہ بھی ختم ہو گیا حالانکہ آج بھی

’’زندگی کے پرچے کے سب سوال مشکل ہیں

سب سوال لازم ہیں‘‘

یہ خیال مجھے یوں آیا کہ غزالی ایجوکیشن ٹرسٹ کے برادران عامر اور وقاص جعفری کی طرف سے ایک دعوت نامہ مع یاد دہانی کے پیغامات کے ملا کہ وہ لوگ خطاطی کے ایک کل پاکستان مقابلے اور نمائش کا اہتمام الحمرا آرٹس کونسل میں کر رہے ہیں جہاں  اسلامی تہذیب کے اس اہم فن لطیف کی اہمیت کو اجاگر کیا جائے گا کہ فی زمانہ خوش خطی تو ایک طرف رہی ہاتھ سے لکھنے کا رجحان ہی ختم ہوتا جا رہا ہے کہ لوگ اب ہر کام مشین سے لینے کے عادی ہوتے چلے جا رہے ہیں اور بچوں کا ہینڈ رائٹنگ عام طور پر کسی جناتی زبان یا ناقابل فہم لکیروں اور خطوط پر مبنی ہوتا ہے جب کہ ایک زمانے میں اسے تعلیم کا لازمی جزو گردانا جاتا تھا اور کانونٹ اسکولوں میں تو اس کے لیے ایک باقاعدہ طریقہ کار وضع کیا گیا تھا۔

جہاں تک خوش خطی‘ خطاطی اور مصورانہ خطاطی کا تعلق ہے ہمارے قدیم اور ترک کردہ نظام تعلیم میں بھی اس کے بنیادی عناصر اور ذوق کو تعلیم کے ایک لازمی جزو کی حیثیت دی جاتی تھی یہی وجہ ہے کہ قلم اور موقلم دونوں حوالوں سے ہماری تاریخ میں ایسے خطاط اور مصور ہر دور میں پائے جاتے ہیں جن کے لکھے ہوئے حروف آنکھوں کی ٹھنڈک اور روشنی بن جاتے ہیں۔ اس حوالے سے نسخ اور نستعلیق سمیت دنیا کے مختلف حصوں میں جہاں جہاں اسلامی تہذیب کو فروغ حاصل ہوا ہمیں مختلف ’’خط‘‘ دکھائی دیتے ہیں اور ہر خط ایسا ہے کہ ’’کرشمہ دامن دل می کشد کہ جا ایں جا است‘‘ برصغیر کی حد تک بھی ان خطاطوں کی جادو نگاری کہ ایسے ایسے نمونے کثرت سے ملتے ہیں کہ ذہن دور حاضر میں اس خوب صورت اور ہماری تہذیبی نمایندگی کے حامل فن کی بے قدری اور زوال کو سمجھنے سے قاصر ہو جاتا ہے۔

تقریب سے خطاب کرتے ہوئے خورشید گوہر قلم نے بڑے موثر اور دل زدہ انداز میں اس صورت حال کا جائزہ لیا کہ گزشتہ ستر برس میں یعنی قیام پاکستان سے لے کر اب تک کس طرح روایتی خطاطی زوال کا شکار ہوئی ہے، ان کے مطابق صرف لاہور شہر میں خطاطی سے متعلق باقاعدہ اداروں کی تعداد ساٹھ سے زیادہ تھی جہاں ایک سے ایک ماہر فن نئی نسلوں کی تربیت کا کام کرتا تھا۔ پروین رقم، زریں رقم، نفیس رقم‘ نادر القلم‘ گوہر قلم اور حال ہی میں انتقال کرنے والے ملتان میں اس فن کے ایک بڑے ماہر ابن کلیم سمیت بے شمار اساتذہ تھے جو موسیقی کے گھرانوں کی طرح اپنا ایک الگ تشخص رکھتے تھے۔ حافظ یوسف سویدی جیسے عالمی شہرت کے حامل جینئس کا کام روایتی خطاطی کا ایک سنگ میل کہا جا سکتا ہے۔

اس کے بعد مصورانہ خطاطی کا جدید دور شروع ہوا جس میں صادقین‘ گل جی‘ اسلم کمال‘ محمد علی زاہد‘ احمد خان‘ پروفیسر عارف خان اور حنیف رامے سمیت بہت سے ایسے نام ہیں جنہوں نے نقش اور حرف کے اس ملاپ کو ایک معجزے کی سی شکل دے دی ہے۔ مجھے یاد ہے ’’تاج محل‘‘ کو پہلی بار دیکھتے وقت میں بہت دیر تک ان فن کاروں کی مہارت کے جادو میں گم رہا جنہوں نے اوپر سے نیچے کی طرف حروف کو اس انداز میں ترتیب دیا تھا کہ وہ سائز میں مختلف ہونے کے باوجود ایک مخصوص فاصلے سے بالکل ایک جیسے نظر آتے تھے۔ اس بصری واہمے Optical illusion کو آج سے تین سو برس پہلے کس طرح سوچا اور تخلیق کیا گیا تھا یہ بات آج بھی آپ کو ورطہ حیرت میں ڈال دیتی ہے۔

انور مسعود‘ مجیب الرحمن شامی‘ عمار مسعود اور مجھ سمیت تمام مقررین نے غزالی ایجوکیشن ٹرسٹ کی اس تعمیری کوشش کو سراہا کہ انھوں نے نہ صرف اپنے تعلیمی پروگرام میں اس کو شامل کر کے وقت کی ایک اہم ضرورت اور تہذیبی ذمے داری کو پورا کیا ہے بلکہ سالانہ نمائشوں اور مقابلوں کے ذریعے نئی نسل میں اس کا ذوق و شوق بھی پیدا کیا ہے جس پر وہ سب لوگ تعریف کے مستحق ہیں جو کسی بھی طرح سے اس کارخیر میں حصہ لے رہے ہیں۔ آخر میں پنجاب کے وزیر تعلیم علی رضا صاحب نے اس اقرار کے بعد کہ انگریزی میڈیم میں تعلیم پانے کی وجہ سے انھیں اردو پڑھنے اور لکھنے میں بہت دقت ہوتی ہے، کئی اچھی باتوں کے ساتھ ایک ایسی بات کی جو خاصی پریشان کن تھی اور وہ یہ کہ وہ ابھی ابھی ایک ایسی میٹنگ سے اٹھ کر آ رہے ہیں جس میں تعلیمی اداروں میں طالبات کے لیے حجاب کو لازمی قرار دینے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ میڈیا اور مغربی تہذیب کے زیر اثر ہماری بچیوں کے ملبوسات میں مناسب پردے اور لباس کے ذریعے حیا داری کا رجحان بہت حد تک بدل اور بگڑ گیا ہے جس میں اصلاح کی گنجائش ہے مگر اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ ہم انھیں کسی ایسے لباس کا پابند بنا دیں جس کی کوئی تاریخی‘ معاشرتی‘ شرعی منطقی اور موسمی بنیاد نہیں ہے۔

بچیوں کو ایسے ملبوسات سے گریز کی تربیت ضرور دینی چاہیے جو صرف فیشن کے پیدا کردہ ہیں اور جن میں ایسی ’’نمائش‘‘ کا عنصر غالب ہے جس سے منع کیا گیا ہے سو اگر کوئی بچی اپنے شوق اور مرضی سے حجاب پہنتی ہے تو ضرور پہنے مگر اصل مسئلہ جسمانی اعضا کی نامناسب نمائش سے گریز کا ہے سو اسے وہیں تک محدود رکھنا چاہیے۔ مسلمان لڑکیوں کے لیے مناسب تراش خراش کے لباس کے ساتھ دوپٹے کا استعمال ایک اچھی اور پسندیدہ بات ہو گی لیکن عیسائی ہندو یا دیگر پاکستانی برادریوں کے لوگ اگر اپنی پسند کے لباس پہننا چاہیں تو ان پر کسی مخصوص حوالے سے کوئی پابندی لگانا قطعاً مناسب نہیں ہو گا۔ اسلام آسانیاں پیدا کرنے والا مذہب ہے اور ہر وہ چیز جو براہ راست اس کی تعلیمات سے متصادم نہ ہو اس میں شخصی آزادی اور پسند نا پسند کا احترام ضروری ہے۔

جہاں تک نمائش میں رکھے گئے اساتذہ اور طلبہ کی خطاطی کے نمونوں کا تعلق ہے وہ دیکھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔ سابق امریکی صدر بارک اوباما کے بقول فنون لطیفہ کے میدان میں سب سے زیادہ کام مسلمانوں نے خطاطی اور موسیقی کے شعبوں میں کیا ہے جو انتہائی قابل قدر ہے مگر افسوس کہ فی زمانہ دونوں ہی کے بارے میں ہمارا مجموعی رویہ کسی طور بھی لائق تحسین نہیں غالباً ایسے ہی موقعوں کو ’’لمحہ فکریہ‘‘ کہا جاتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔