’قراردادِ پاکستان‘ کا اصل جغرافیہ تھا کیا۔۔۔؟

رضوان طاہر مبین  جمعرات 23 مارچ 2017
تو یہ ہے قرارداد پاکستان کا اصل جغرافیہ جس پر کانگریس اور انگریز اگر آل انڈیا مسلم لیگ کی مدد کرتے تو برصغیر کے گزشتہ 70 برسوں کی تاریخ میں کتنا کچھ اچھا ہوتا۔۔۔ شاید!

تو یہ ہے قرارداد پاکستان کا اصل جغرافیہ جس پر کانگریس اور انگریز اگر آل انڈیا مسلم لیگ کی مدد کرتے تو برصغیر کے گزشتہ 70 برسوں کی تاریخ میں کتنا کچھ اچھا ہوتا۔۔۔ شاید!

22 تا 24 مارچ 1940ء کو لاہور کے منٹو پارک میں بنگال کے وزیراعلیٰ مولوی فضل الحق نے جو قرارداد پیش کی پیش کی وہ کچھ یوں تھی:

’’قرار پایا کہ اِس اجلاس کی نہایت سوچی سمجھی رائے یہ ہے کہ اِس ملک کے لیے کوئی آئینی منصوبہ نہ تو قابل عمل ہوگا اور نہ مسلمانوں کے لیے قابل قبول، جب تک اسے اِن بنیادی اصولوں پر استوار نہ کیا جائے اور ضروری علاقائی رد و بدل نہ کیا جائے اور یہ کہ ہندوستان کے شمال مغربی اور مشرقی علاقوں کی طرح جن علاقوں میں تعداد کے لحاظ سے مسلمان اکثریت میں ہیں۔ انہیں خود مختار ریاستیں قرار دیا جائے، جس میں ملحقہ اکائی آزاد اور خود مختار ہوں گے۔ اُن یونٹوں کی اقلیتوں کے مذہبی، ثقافتی، اقتصادی، سیاسی، انتظامی اور دیگر حقوق و مفادات کے تحفظ کی ضمانت دی جائے۔‘‘

(آزاد بن حیدر کی 11 سو صفحات سے زیادہ ضخیم تصنیف ’تاریخ آل انڈیا مسلم لیگ، سرسید سے قائداعظم تک‘ سے ماخوذ)

قرارداد کے متن میں کہے گئے ’شمال مغربی علاقے‘ سے مراد آج کے پاکستان کہلانے والے علاقے ہیں اور جن مشرقی علاقوں کی طرف اشارہ کیا گیا، وہ 1971ء سے پہلے کہلانے والے مشرقی پاکستان اور آج کا بنگلا دیش مراد ہے، یا اُس میں بنگال سے جڑے ہوئے اسام وغیرہ کو بھی شامل کر لیجیے۔

اصل میں یہ صرف 1947ء میں ’پاکستان‘ بن جانے والے علاقوں کی قرارداد نہیں تھی، کیوں کہ قرارداد میں الفاظ ہیں کہ ’ہندوستان کے شمال مغربی اور مشرقی علاقوں کی طرح‘ یعنی 1947ء میں ’پاکستان‘ بننے والے علاقوں کو تو محض مثال کے طور پر برتا گیا۔

قرارداد کا متن بتا رہا ہے کہ زیادہ بڑا مسئلہ اِن علاقوں کے علاوہ ہندوستانی مسلمان تھے۔ چوں کہ قرارداد میں اُن ہندوستانی علاقوں کے ناموں کی وضاحت نہیں، اِس لیے ہم قیاس کرسکتے ہیں کہ اِن علاقوں میں یوپی، سی پی، بہار، مدراس، دلی، بمبئی اور حیدرآباد دکن وغیرہ شامل ہوں گے۔

یہاں تاریخ کے طالب علم مضطرب ہوکر کہیں گے کہ اِن تمام علاقوں میں تو مسلمان بہت بڑی تعداد میں ہونے کے باوجود اقلیت میں تھے۔ بالکل، یہ بات درست ہے کہ مجموعی طور پر مندرجہ بالا علاقوں میں مسلمان اقلیت میں ہی تھے، لیکن اِن صوبوں میں بہت سے اضلاع یا علاقے واضح مسلمان اکثریت کے حامل تھے۔ اِس کا بڑا ثبوت 46-1945ء کے متحدہ ہندوستان کے آخری انتخابات ہیں، جس میں تقسیم ہند کا فیصلہ ہوا۔ اِس چنائو میں مسلمانوں کے لیے مخصوص کی گئیں 30 نشستوں میں سے 17 انہی علاقوں کی تھیں، جو پاکستان میں کبھی شامل ہی نہ ہوسکے۔ 30 میں سے 17 کا مطلب واضح اکثریت، یعنی 56 فی صد ہے۔ اِس کے باوجود انہوں نے مسلمانوں کی نئی مملکت کے حق میں ووٹ دیا اور یوں پاکستان کا قیام عمل میں آسکا۔

ریاست حیدرآباد دکن میں مسلمان اقلیت کے باوجود حاکم تھے۔ اِسی طرح ہندوستان کی اور بھی بہت سی ریاستیں اور صوبے مسلمانوں کی بہت بڑی تعداد کی حامل تھیِں، یا وہاں ہندوئوں کی بھی بڑی تعداد موجود تھی، تب بھی وہاں 1947ء کے بعد فسادات وغیرہ نہ ہوئے، البتہ بٹوارے کے بعد باقی ماندہ ہندوستان میں مسلمانوں کی وفاداری مشکوک ہوچکی تھی۔ اِسی بنا پر بہت سے مسلمانوں نے اسی رویّے سے تنگ آکر پاکستان ہجرت کی اور 1960ء اور 1970ء کے عشرے میں پاکستان آئے۔

قرارداد لاہور یا قرارداد پاکستان کے حوالے سے بیش تر دانشور اور اساتذہ صرف یہی سوالات اٹھاتے ہیں کہ اُس قرارداد میں تو ریاستوں کا لفظ تھا، اُسے 1946ء میں ’ریاست‘ کردیا، لہٰذا ایک ریاست کے بجائے انہی ریاستوں کو بحال کیا جائے یا کم سے کم ایک وفاق میں انہیں برتر تسلیم کیا جائے۔ میں کسی ایک بھی ’دانشور‘ کے مرتبے پر بات کرنے کی اہلیت نہیں رکھتا، خود کو برصغیر کی تاریخ اور سیاسیات کا ادنیٰ سا طالب علم بھی نہیں بلکہ ایک عام سا شہری سمجھتا ہوں، اور اپنی ناقص عقل میں یہ بات بٹھانے کی سعی کرتا ہوں کہ واقعی یہ بالکل ٹھیک کہہ رہے ہیں، مگر کیا کیجیے کہ یہ سوال بار بار اٹھتا ہے کہ 1940ء کی قرارداد ہو یا 46-1945ء کا ہندوستان کا آخری چنائو۔۔۔ دونوں جگہ انتہائی واضح طور پر 1947ء میں بننے والے پاکستان کے علاوہ دیگر مسلمانوں کے لیے بات کی گئی یا اُن کا حصہ تھا۔ اب چاہے ہم یہ کہہ لیں کہ قائداعظم نے مجبوری میں یہ کٹا پھٹا ملک قبول کیا، لیکن تاریخی حقائق تو کم سے کم نہ بھولیں۔

آخر ہم تاریخ کو ’میٹھا میٹھا ہپ ہپ‘ سمجھ کر ہی کیوں دیکھتے ہیں؟ اِس کے وہ پہلو کیوں نہیں دیکھتے، جو ہمیں ذاتی طور پر ناپسند ہوتے ہیں؟ 23 مارچ 1940ء کی قرارداد ہمیں بتاتی ہے کہ اگر ہندوستان کے مسلمانوں کے مسئلے کو اِسی طرح حل کر لیا جاتا اور مسلمان اکثریتی علاقوں کو بطور خودمختار اکائیوں کے تسلیم کرلیا جاتا تو صورت حال الگ ہوتی۔ شاید متحدہ ہندوستانی وفاق کی بنیاد اِن مسلم خودمختار اکائیوں سے اِس طرح نتھی کردی جاتیں کہ اِسے چھیڑنا اعلانیہ طور پر ہندوستان کے حصے بخرے کرنے کے مترادف ہوتا، تاکہ کسی بے ایمانی کی گنجائش نہ رہتی۔ اِس طرح مولانا ابو لکلام آزاد اور ان کے دیگر ہم نوا اکابرین بھی راضی خوشی ہوتے، جو اِسی وجہ سے پاکستان بنانے کی مخالفت کر رہے تھے کہ ہندوستان کا مسلمان تقسیم ہوجائے گا۔

تو یہ ہے قرارداد پاکستان کا اصل جغرافیہ جس پر کانگریس اور انگریز اگر آل انڈیا مسلم لیگ کی مدد کرتے تو برصغیر کے گزشتہ 70 برسوں کی تاریخ میں کتنا کچھ اچھا ہوتا۔۔۔ شاید!

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لئے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔
Rizwan Tahir Mubeen

رضوان طاہر مبین

بلاگر اِبلاغ عامہ کے طالب علم ہیں، برصغیر، اردو، کراچی اور مطبوعہ ذرایع اِبلاغ دل چسپی کے خاص میدان ہیں، روزنامہ ایکسپریس کے شعبہ میگزین سے بطور سینئر سب ایڈیٹر وابستہ ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔