آپریشن ’’سرچ لائٹ‘‘

اکرام سہگل  ہفتہ 25 مارچ 2017

مارچ 1971ء کے ہنگامہ خیز دنوں میں ہونے والے پیچیدہ اور ناگزیر مذاکرات میں جلد مثبت پیش رفت کا امکان تھا۔ لیکن صد افسوس دونوں جانب کے انتہا پسندوں کے منصوبوں نے صورت حال یکسر بدل دی۔ فوجی کارروائی کے ذریعے مشرقی پاکستان میں مرکز کی رٹ قائم کرنے پر سبھی متفق تھے، مقامی فوجی کمانڈروں نے 25مارچ سے ایک ہفتہ قبل اس کا حتمی فیصلہ کرلیا تھا۔ آپریشن ناگزیر لیکن اس کا وقت غیر متوقع تھا۔

آپریشن ’’سرچ لائٹ‘‘کے مقاصد یہ تھے۔ اولاً مشرقی پاکستان کی انتظامیہ پر فوج کا کنٹرول۔ دوم شیخ مجیب الرحمن اور عوامی لیگ کی قیادت کو حراست میں لے کر پارٹی کا خاتمہ۔ سوم، منظم بغاوت روکنے کے لیے ایسٹ پاکستان رائفلز (ای پی آر)، پولیس اور فوج میں بنگالی سپاہیوں کو غیر مسلح کرنا۔

مشرقی پاکستان میں جاری آپریشن کی تفصیلات اور صورت حال کی سنگینی سے متعلق خبریں اور اطلاعات مغربی حصے کے عوام اور دنیا تک پہنچنے سے روکنا اس آپریشن کا چوتھا مقصد تھا۔ ابلاغ کے تمام داخلی و خارجی ذرایع بند کردیے گئے، غیر ملکی صحافیوں کو ملک بدر کردیا گیا۔ ان اقدامات نے بھارتی پراپیگنڈے کو تقویت پہنچائی۔

1971 میں حالات سے بے خبر رکھنے کی حکمت عملی اپنائی گئی جس کے باعث مغربی پاکستان کے عوام اس پوری صورت حال سے نابلد تھے ، اسی لیے دسمبر 1971میں ڈھاکا کی شکست کے اسباب پر انھیں حیرت کا دھچکا لگا۔ اسی وجہ سے (مغربی پاکستان میں )افسران کو سچ تسلیم کرنے میں کئی برس لگ گئے۔ کئی تو ابھی تک خود تردیدی میں مبتلا ہیں۔

14ڈویژن کے جی او سی میجر جنرل خادم حسین راجہ نے کومیلا اور جیسور میں باالترتیب 53اور 107بریگیڈ کو ڈھاکا میں الگ الگ بریفنگ دی۔ GSO-I انٹیلی جینس 14ڈویژن لیفٹیننٹ کرنل(بعد ازاں بریگیڈئیر) محمد تاج نے 32اور 18پنجاب کی قیادت سنبھالی، جن کی ذمے داری ڈھاکا کو بلوائیوں سے پاک کرنا تھا۔

شیخ مجیب الرحمن دھان منڈی میں اپنی رہایش گاہ پر فوج کے منتظر تھے۔ فوج ڈھاکا کنٹونمنٹ سے 26مارچ کو دن ایک بجے نکلی جب ایس ایس جی شیخ مجیب کو حراست میں لے چکی تھی۔ مجیب 25مارچ کو عوامی لیگ کی قیادت کو احکامات جاری کرچکا تھا کہ جیسے ہی فوج دریا عبور کرے وہ گرفتاری سے بچنے کے لیے اندرون ڈھاکا روپوش ہو جائیں۔ ان میں سے اکثریت گرفتار ہونے سے بچ نکلی اور سرحد عبور کرکے بھارت داخل ہونے میں کام یاب رہی۔

مارچ کے آغاز ہی سے ڈھاکا یونیورسٹی میں تدریسی عمل معطل تھا اور اکثر طلبا گھروں کو واپس جا چکے تھے۔ 25مارچ سے کئی روز پہلے طالبات کا ’’رقیہ ہاسٹل‘‘ خالی کرا لیا گیا تھا۔ ڈھاکا کے باہر سے آنے والے طلبا اور رضا کار ہاسٹلز میں موجود مسلح افراد سے آ ملے تھے۔ ای پی آر پیل خانہ اور راجر باغ پولیس لائن پر حملہ ہوچکا تھا۔ گڑبڑ کی صورت میں فوجی غیر معمولی قوت سے جواب دینے کے لیے تیار تھے۔ شہری علاقوں کے لیے ایک رائفل کمپنی کی قوت بھی غیر معمولی تھی۔

ڈھاکا یونیورسٹی کے بارے میں شرمیلا بوس لکھتی ہیں’’حقیقت یہ ہے کہ وہاں ہتھیار موجود تھے، انھیں تربیت فراہم کی گئی تھی۔مقابل کی قوت کتنی ہی غیر مساوی کیوں نہ ہوتی اس سے کوئی فرق نہیں پڑنے والا تھا۔ بظاہر چند بنگالیوں نے مورچہ سنبھالے رکھا۔ جگن ناتھ ہال ہندو طلبا کے ہاسٹل اور اقبال ہال میں ہونے والی ہلاکتوں کی تعداد کے بارے میں اختلاف پایا جاتا ہے۔’’متاثرین‘‘ کی سنائی گئی کہانیاں ان کی تردید کرتی ہیں، بنگالی عینی شاہدین کے بیانات متضاد ہیں جن سے اس پوری صورت حال میں بیان کردہ تفصیلات کی ساکھ باقی نہیں رہتی۔‘‘

بنگلہ دیش کی جانب سے کبھی اس افواہ کی تحقیقات نہیں کی گئیں کہ اس رات لاشوں کو چھپانے کے لیے اجتماعی قبریں تیار کی گئی تھیں۔ آج بھی (46برس گزرنے کے بعد) ایسی کوئی اجتماعی قبر ہلاکتوں کی اصل تعداد کے بارے میں مصدقہ معلومات فراہم کرسکتی ہے۔

25 مارچ سے قبل مشرقی پاکستان کی ایسٹ بنگال رجمنٹ(ای بی) کی 6بٹالینز میںبنگالی افسران تعداد 4500تھی۔ ای بی 10نیشنل سروسز بٹالین تھی۔ 1500  افسران نوتن پورہ میں تعینات رجمنٹل سینٹر (ای بی آر سی) میں تھے۔ چٹاگانگ میں 12سے 15ہزار ایسٹ پاکستان رائفلز (ای پی آر) میں تھے جب کہ بنگالی پولیس کی تعداد 45 ہزار تھی۔

یہ تعداد منظم نہیں تھی لیکن اس کے باوجود اسے مغربی پاکستان پر برتری حاصل تھی۔ غیر معمولی فوجی آپریشن کے اشارے ملنا شروع ہوچکے تھے۔ ٹو ای بی کے سی او کی جگہ 32پنجاب کے سی او کی تعیناتی(البتہ یہ بھی ایک بنگالی افسر تھے) نے شبہات کو مزید بڑھا دیا تھا۔ دوسری جانب ای بی آر سی کے کمانڈنٹ بریگیڈیر موزمدار کیپٹن(بعدازاں بنگلادیشی فوج کے میجر جنرل) امین احمد چوہدری کو 25مارچ سے قبل ہی بھارت بھیج چکے تھے۔

آئی جی بی ایس ایف بریگیڈئیر پانڈے نے فوری طور پر فضائی راستے سے انھیں بھارتی وزیر اعظم اندرا گاندھی سے ملاقات کے لیے دہلی روانہ کردیا۔ بریگیڈئیر موزمدار کو جودیپ پور میں ٹو ای ایٹ میں سی او کی برطرفی کے بعد پیدا ہونے والے انتشار کو قابو پانے کے لیے لایاگیاتھا۔

ہزاروں شہری ، جن میں کچھ مسلح بھی تھے، بنگالی فوجیوںکے ساتھ شامل ہوچکے تھے۔ شرمیلا بوس کہتی ہیں ’’بنگالی پولیس اور اہلکاروں کو غیر مسلح کرنے کے عمل نے کئی مقامات پر خونی تصادم کو جنم دیا جس میں دونوں جانب اموات ہوئیں۔کئی بنگالی اہلکار آیندہ مزاحمت کے لیے اسلحے سمیت فرار ہونے میں کام یاب ہوئے۔‘‘ رنگ پور میں تھری ای بی کو غیر مسلح کرنے کی کوشش میں بھی خوں ریزی ہوئی جس میں دونوں جانب ہلاکتیں ہوئیں۔ دیناج پور اور سید پور میں 25اور 26مارچ کی درمیانی رات ہونے والا ’’ایکشن‘‘ جزوی طور پر کام یاب رہا۔ پبنا اور کشتیا میں غیر مسلح کرنے کارروائی ہوئی۔

26مارچ کو ایسٹ بنگال رائفل کے کمانڈنگ آفیسر اور مغربی پاکستانی افسران کے قتل کے بعد ایٹ ای بی نے تیزی سے چٹاگانگ پر قبضہ جمالیا اور اسے چھاؤنی سے کاٹ دیا۔ چٹاگانگ کی نیول بیس میں تعینات اہل کاروں کی نصف سے زاید تعداد بنگالیوں پر مشتمل تھی۔ کومیلا کنٹونمنٹ 53بریگیڈ ہیڈ کوارٹرز اور 24ایف ایف کو چٹاگانگ پر کنٹرول حاصل کرنے کا ہدف دیا گیا۔ اس دوران کئی پل منہدم کیے جاچکے تھے جس کے باعث شہر کا کنٹرول مارچ کے آخر میں کہیں جا کر حاصل ہوا۔

اپریل 1971کے آخر تک فوج مشرقی پاکستان کے اکثر علاقوں کا کنٹرول حاصل کرنے میں کام یاب ہوچکی تھی لیکن یہ کام یابی غیر معمولی نقصانات کی قیمت پر حاصل ہوئی تھی۔ دوسری جانب غیر بنگالیوں پر سنگین مظالم کا آغاز ہوا۔ بچے اور عورتیں اس کا سب سے زیادہ نشانہ بنے۔ زیادتیوں کی اس دو طرفہ داستان میں کسی بھی فریق کو نہ تو مبالغہ کرنا چاہیے اور نہ ہی کمی بیشی۔ ایسے واقعات کو ’’نسل کُشی‘‘ قرار دینا یکسر غلط ہے۔ اس فکر میں غلطاں رہنے کے بجائے ، ان واقعات میں قتل ہونے والے بنگالی و غیربنگالی دونوں کے لیے دعا کرنی چاہیے کہ وہ 16دسمبر 1971تک نام ہی کے سہی، پاکستانی تھے۔

1971میں سیاسی قیادت کی حماقتوں(اور خود غرضی) نے بھارت کو یہ موقع فراہم کیا کہ وہ ان دو مختلف خطوں میں قائم ہونے والی ایک قوم کی تشکیل کے اس منفرد تجربے کو ناکام اور اس خواب کو چکنا چور کرنے کے لیے سر عام وہ کوششیں کرے، جو کئی برسوں سے وہ خفیہ طور پر کرنے میں مصروف تھا۔ ای بی، ای پی آر اور پولیس اہلکاروں سمیت ہزار ہا رضاکار سرحد پار بھارت میں جمع ہوئے، انھیں تربیت اور ہتھیار فراہم کیے گئے اور ’’مکتی باہنی‘‘ کی شکل میں منظم کردیا گیا۔

سول نافرمانی اور منظم مسلح مزاحمت کو فرو کرنے کے لیے انتشار کی پیش بندی ’’آپریش سرچ‘‘ لائٹ کا بنیادی مقصد تھا۔یہ غیر معمولی فوجی کام یابی ایک انسانی المیے کی شکل اختیار کرگئی اور ایک غیر مختتم سیاسی بحران ناگزیر ہوگیا۔ کیا کسی کو بھی اس کے لیے احتساب کے کٹہرے میں لایا گیا۔

(Humboldt University کی ڈاکٹر بیٹینا ربوتکا کی معاونت کا شکریہ)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔