رینٹل پاور کیس سپریم کورٹ کا وزیراعظم کو گرفتار کرنے کا حکم

کوئی فرار ہوا تو ذمے دار چیئرمین نیب ہونگے، چیف جسٹس، کل عملدرآمد رپورٹ طلب


Monitoring Desk January 16, 2013
تفتیشی افسر ہٹانے پر فصیح بخاری کو نوٹس، مذموم مقاصدکیلیے سپریم کورٹ کا نام استعمال کیا گیا،ملک سے بے ایمانی کرنیوالوں کو سلاخوں کے پیچھے ڈال دیا جائے، عدالت۔ فوٹو: فائل

سپریم کورٹ نے رینٹل پاور کیس میں قومی احتساب بیورو (نیب) کو وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف سمیت16ملزمان کوگرفتارکرکے کل عملدرآمد رپورٹ پیش کرنے کا حکم دے دیا جبکہ چیئرمین نیب کو تنبیہہ کی کہ اگر وزیر اعظم سمیت کوئی بھی ملزم بیرون ملک فرار ہوا تو ذمے دار وہ خود ہوں گے۔

چیف جسٹس کی سربراہی میں3رکنی بنچ نے منگل کوکرائے کے بجلی گھروں کے معاہدوں کے باریمیں عدالتی فیصلے پر عمل درآمد کے مقدمے کی سماعت کے دوران ایڈیشنل پراسیکیوٹر جنرل نیب کو حکم دیا کہ وہ آج ہی متعلقہ حکام سے ریفرنس و چالان کی منظوری لیکر بے ضابطگیوں کے مرتکب تمام افراد کو کسی ہچکچاہٹ کے بغیر گرفتار کریں۔ عدالت نے قرار دیا کہ تفتیشی افسران اصغر علی، کامران فیصل اور ڈی جی نیب صبح صادق کو اس لیے ہٹایا گیا کیونکہ وہ راجہ پرویز اشرف اور دیگر 15افراد کیخلاف انکوائری کر رہے تھے اور سپریم کورٹ کے فیصلے پر عمل درآمد نہیں ہونے دیا گیا۔

بی بی سی کے مطابق عدالت نے پراسیکیوٹر جنرل نیب سے استفسار کیا کہ اس مقدمے میں ابھی تک ذمے داروں کیخلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی جبکہ عدالتی فیصلے کو آئے کافی عرصہ ہو گیا ہے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ابھی تک تو اس مقدمے کا ریفرنس بھی احتساب عدالتوں میں نہیں بھجوایا گیا تو ملزمان کیخلاف کیا کارروائی کی جائے گی۔ تفتیشی افسر محمد اصغر نے جب وزیر اعظم راجا پرویز اشرف کو بطور ملزم نامزد کیا تو اْس کا تبادلہ کر دیا گیا اور اس ضمن میں سپریم کورٹ کا نام بھی استعمال کیا گیا۔ عدالت نے چیئرمین نیب کو محتاط رہنے کی ہدایت کی اور قرار دیا کہ انھیں عدالتی احکام پر عمل نہ کرنے کی وجہ سے پہلے ہی گزشتہ سال مارچ میں توہین عدالت کا نوٹس جاری ہو چکا ہے۔

عدالت نے چیئرمین نیب کو نوٹس جاری کرتے ہوئے ان سے وضاحت طلب کی ہے کہ انکوائری افسران کو ہٹانے کے معاملے میں سپریم کورٹ کے حوالے سے غلط بیانی کیوں کی گئی؟۔ اس موقع پر ڈی جی نیب راولپنڈی صبح صادق پیش ہوئے اور کہا عدالت کا نام استعمال کر کے انھیں عہدے سے ہٹا دیا گیا اور ان کی جگہ خورشید انور بھنڈر کو تعینات کر دیا گیا،36سالہ ملازمت میں کبھی غلط کام نہیں کیا لیکن عدالت کا نام لیکر انھیں بے عزت کیا گیا کہ سپریم کورٹ ان سے خوش نہیں۔

2

 

انکوائری افسران کے وکیل راجہ عامر عباس نے بتایا کہ چیئرمین کے پرنسپل سیکریٹری فاروق ناصر اعوان نے ایک لیٹر جاری کیا جس میں کہا گیا کہ عدالت ان افسران سے خوش نہیں، چیئرمین نیب کے سیکریٹری فاروق ناصر اعوان نے عدالت میں ایک لیٹر پیش کرتے ہوئے کہا کہ انھوں نے سپریم کورٹ کے متعلق کچھ نہیں کہا بلکہ چیئرمین نیب نے خود ایسا کیا۔ جسٹس عظمت سعید نے کہا نیب نے ہمیشہ عدالتی احکام کی غلط تشریح کی، عدالت نے ایسا کوئی آرڈر نہیں دیا جس میں ان افسران کے بارے میں آبزرویشن ہو۔ ایڈیشنل پراسیکیوٹر جنرل نیب رانا زاہد محمود نے بتایا کہ ان افسران کو توہین عدالت کا نوٹس جاری ہوا تھا اور عدالت نے زبانی آرڈر بھی دیے تھے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ توہین عدالت کا نوٹس تو چیئرمین نیب کو بھی جاری ہوا پھر وہ اپنے آپ کو بھی معطل کر دیں، جسٹس عظمت سعید نے کہاکہ عدالت کے تحریری احکام کو مانا نہیں جاتا اور زبانی احکام کو شرف قبولیت حاصل ہو جاتا ہے۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ عدالت کے حکم پر اب تک کیا عمل درآمد ہوا؟ جس پر انھوں نے کہا کہ پیراں غائب رینٹل پاور پراجیکٹ میں ریفرنس تیار ہے، علاقائی ایگزیکٹو بورڈ ریفرنس کی منظوری دے چکا ہے، نیب ہیڈ کوارٹر میں ایگزیکٹو بورڈ میٹنگ میں منظوری ملنے کے بعد ریفرنس دائر کر دیا جائے گا اور چالان پیش کر دیے جائیںگے، ٹیکنو ساہووال پاور پراجیکٹ کے حوالے سے بھی ریفرنس تیار ہو چکا ہے۔

عدالت کے بار بار سوال کرنے پر انھوں نے بتایا کہ ریفرنس میں موجودہ وزیر اعظم اور سابق وزیر پانی و بجلی راجہ پرویز اشرف، شوکت ترین، سلمان صدیق، شاہد رفیع، اسماعیل قریشی، منور بصیر، طاہر بشارت چیمہ، فضل احمدخان، رفیق بٹ، محمد انور خان، قیصر اکرم اور مسعود اختر کے نام شامل ہیں تاہم کوئی گرفتاری نہیں ہوئی۔ انھوں نے استدعا کی کہ اگر عدالت حکم دے تو تمام افراد گرفتار کر لیتے ہیں، عدالت نے اس پر برہمی کا اظہار کیا، چیف جسٹس نے کہا کہ نیب کو عدالتی حکم کی ضرورت نہیں، قانون نے اسے اختیار دیا ہوا ہے، عدالت کیوں حکم دے، نیب کا کام کرپشن کو روکنا ہے، جن لوگوں نے ملک سے بے ایمانی کی ہے انھیں سلاخوں کے پیچھے ڈال دیا جائے۔

بااثر اور پیسوں والے قانون سے بالاتر نہیں۔یہ تو اربوں روپے کی کرپشن ہے، اگر عوام کے ٹیکس کے پانچ روپے بھی غلط استعمال ہوئے ہوں تو کارروائی ہونی چاہیے۔ عدالتی استفسار پر بتایا گیا کہ نیب اور سپریم کورٹ کی کوششوں سے 11 ارب روپے وصول کیے جا چکے ہیں جن میں سے نیب نے 2ارب 36 کروڑ اور باقی سپریم کورٹ نے وصول کیے ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ڈی جی نیب شہزاد بھٹی نے15 دن کے اندر ملوث افراد کو گرفتار کرانے کی یقین دہانی کرائی لیکن انھیں معطل کیا گیا۔ جسٹس عظمت سعید نے کہا دو جمع دو والی بات ہے لیکن عدالت کو گمراہ کیا جا رہا ہے۔

نیب کی کسی کے خلاف کارروائی کی نیت ہی نہیں ورنہ ریفرنس تو راتوں رات تیار ہو جاتے ہیں۔ ایڈیشنل پراسیکیوٹر جنرل نیب نے کہا کسی کے ساتھ زیادتی نہ ہو اس لیے احتیاط برتی جا رہی ہے، چیف جسٹس نے کہا کہ تعجب ہے جو دلائل ملزمان کی طرف سے آنے چاہیئں وہ نیب دے رہا ہے۔ ایڈیشنل پراسیکیوٹر جنرل نے کہا گرفتاری کے لیے ثبوت چاہییں، جس پر چیف جسٹس نے کہا نیب کو اور کیا ثبوت چاہیئں، ایک منصوبے کے لیے منگوائی گئی مشینری پر دو مرتبہ ایڈوانس رقم حاصل کی گئی، پتہ نہیں نیب کی آنکھیں کب کھلیں گی، وہ تو ملزمان کا مقدمہ لڑ رہی ہے، ملزمان میں سے کوئی فرار ہونے میں کامیاب ہوا تو ذمہ داری چیئرمین کی ہو گی جس پر پراسیکیوٹر جنرل کا کہنا تھا کہ سب کے نام ای سی ایل پر ڈال دیے گئے ہیں، کوئی باہر نہیں جا سکتا۔

چیف جسٹس نے کہا شاہ رخ جتوئی کانام بھی ای سی ایل پر تھا لیکن وہ باہر سے گرفتار ہوا۔ رانا زاہد محمود نے نیب قانون کا حوالہ دیا اور کہا کہ ملزمان کی گرفتاری کے لیے قانونی تقاضے پورے ہونے چاہییں، چیف جسٹس نے کہا چیئرمین نیب کو تفتیش کے دوران بھی کسی کو گرفتار کرنے کا اختیار حاصل ہے، آپ جس قانون کی بات کر رہے ہیں وہ ختم ہو چکا ہے، یہ شق این آر او کے ذریعے شامل ہوئی لیکن این آر او ختم ہو چکا ہے۔ شیخ عظمت سعید نے کہا کہ نیب کے وکیل کو قانون کا پتہ نہیں ، انھیں یہ پتہ نہیں کہ جو قانون ان کے ہاتھ میں ہے وہ ختم ہو چکا ہے۔

ثنا نیوز کے مطابق عدالت نے چیئرمین نیب کو پھر توہین عدالت کے نوٹس جاری کر دیے اور پراسیکیوٹر رانا زاہد الرحمٰن کو حکم دیا کہ وہ وزیر اعظم راجا پرویز اشرف اور دیگر ملزمان کے خلاف دونوں نیب افسران کی جانب سے تیار کئے گئے ریفرنس عدالت میں پیش کریں۔آن لائن کے مطابق سپریم کورٹ نے رینٹل پاور کیسوں پر3صفحات اور8پیراجات پر مشتمل فیصلے میںقرار دیا کہ سپریم کورٹ کا نام استعمال کر کے ان کیسوں سے مذکورہ آئی اوز اصغر علی اور کامران فیصل کو ہٹایا گیااس طرح نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ کسی اور نے نہیں بلکہ چیئرمین نیب نے خود اپنے مذموم عزائم اور مقاصدکیلیے سپریم کورٹ کا نام استعمال کیا اور اس کی شہادت ہمیں پیش کیے گئے ریکارڈ سے ملتی ہے۔

مقبول خبریں