شام پر امریکی میزائل حملے

ایڈیٹوریل  اتوار 9 اپريل 2017
. فوٹو: فائل

. فوٹو: فائل

امریکا نے پہلی یک طرفہ فوجی کارروائی کرتے ہوئے شام پر میزائل حملے کیے جو پینٹاگان کے مطابق باغیوں کے زیر اثر علاقوں میں کیمیائی حملے کا جواب تھے، شام کے خلاف مشرقی بحیرہ میزائل حملہ کے نتیجے میں ایئرکموڈور سمیت 6 فوجی ہلاک ہو گئے، میڈیا کی اطلاعات کے مطابق شامی ائیر بیس مکمل طور پر تباہ ہو گئی، امریکی میزائل حملہ کے خلاف روس ایران اور چین نے شدید رد عمل ظاہر کیا ہے۔

روسی صدر ولادی میر پیوٹن نے خبردار کیا ہے کہ امریکا کو حملے کے نتائج بھگتنا پڑیں گے، روسی بحری بیڑے بھی متحرک ہو گئے ہیں، روسی نائب سفیر برائے اقوام متحدہ۔ ساتھ ہی روس نے امریکا کے ساتھ شام میں فضائی تحفظ کا معاہدہ بھی معطل کر دیا ہے۔ تاہم گارجین کی رپورٹ کے مطابق امریکا روس فضائی معاہدہ اہم ہے۔

دونوں سپر پاورز کا کہنا ہے کہ ان کے درمیان شام کی جنگ میں دو طرفہ فضائی جنگ کا کوئی امکان نہیں، امریکی وزیر خارجہ ریکس ٹلرسن آیندہ ہفتہ ماسکو جائیں گے جہاں شام کے مسئلہ کا کوئی حل ڈھوندنے پر مشاورت ہو گی، دوسری طرف برطانیہ، جاپان، ترکی، سعودی عرب، اسرائیل اور جرمنی نے حملے کی حمایت جب کہ ایران اور چین نے مذمت کی ہے۔

شام کے خلاف ڈائریکٹ امریکی ملٹری ایکش سے مشرق وسطیٰ کی سیاست پر مہیب سائے منڈلانے لگے ہیں۔ مشرقی بحیرہ روم سے اشعرات ایئر بیس پر 59 ٹام ہاک کروز میزائل داغے گئے، صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا ہے کہ یہ حکم ملکی مفاد میں دیا گیا ہے ایک طرف میزائل حملہ کا سبب سلامتی کونسل کے ہنگامی اجلاس کے بے نتیجہ ختم ہونے جب کہ باغیوں کے زیر قبضہ ادلب شہر میں خان شیخون پر کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کی تحقیقات پر اتفاق رائے نہ ہونے کا نتیجہ تھا، اس بہیمانہ کیمیائی حملہ میں بچوں اور ایک ہی خاندان کے 22 افراد سمیت لگ بھگ 70 افراد موت کے منہ میں چلے گئے۔

بین الاقوامی جنگی قوانین اور طے شدہ میثاقوں کی روشنی میں کیمیائی ہتھیاروں کا استعمال جنگی جرائم کے زمرے میں آتا ہے، ادھر امریکی براہ راست میزائل حملوں سے صدر ٹرمپ کی وار مشینری حرکت میں آ گئی جو اس کے پیشرو اوباما انتظامیہ کے ڈاکٹرائن سے قطعی مختلف ہے، اوباما بھی شامی باغیوں کے سہولت کار جیسے تھے، تاہم صرف سرجیکل اسٹرائیک کرتے رہے، مگر شام پر میزائل حملہ بم شیل ہے جو کثیرالاطراف عالمی اور داخلی مضمرات کا حامل اقدام ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ گن بوٹ ڈپلومیسی کا تازہ واقعہ امریکی انتخابی تاریخ کا عجیب دورانیہ ہے کہ جہاں ایک طرف منتخب صدر کے حامی و مخالف داخلی طور پرکشمکش سیاست سے تنگ آئے ہوئے ہیں، صدر کے احکامات کی انتظامی و عدالتی سطح پر عدم تعمیل کا سلسلہ جاری ہے، میڈیا سے ان کی جنگ چل رہی ہے جب کہ مین اسٹریم امریکی میڈیا میں امریکی انتخابات میں صدر ٹرمپ کی کامیابی میں دوستانہ روسی مداخلت، سراغ رسانی کے پس پردہ خفیہ آشنائی اور ’’پوتن ٹرمپ بھائی بھائی‘‘ کا جو مبینہ اسکینڈل کھڑا ہو گیا ہے اس کے مہلک داخلی و خارجی اثرات کا تاثر مٹانے کے لیے بھی ٹرمپ کارڈ استعمال کرتے ہوئے روس کے ایک دیرینہ اور قریبی حلیف بشارالاسد اور اس کی حکومت کو نشانہ بنایا، اس حملے کا عندیہ اقوام متحدہ میں امریکی سفیر نکی ہیلی دو روز پہلے دے چکی تھیں، تاہم امریکی حملہ سے صورتحال خاصی تشویش ناک ہوگئی ہے۔

سوال یہ ہے کہ شام کی چھ سالہ ہولناک اور تباہ کن خانہ جنگی کا آگے جا کر کیا بنے گا اور سرد جنگ کی دو متحارب سپر پاورز کے مابین فوجی شو ڈاؤن ہوا توکیا دنیا تیسری ایٹمی عالمی جنگ کے شعلوں سے بچ سکے گیَ، عالمی حافظہ سے ابھی تک یہ حقیقت محو نہیں ہو سکی ہے کہ عراق کے مرد آہن صدام حسین سے نجات پانے کے لیے بڑے پیمانہ پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں(WMDs)کا بہانہ بنا کر عراق اور کسی اور بہانہ سے لیبیا کی اینٹ سے اینٹ بجا دی گئی، مقصد مسلم ممالک اور عرب دنیا کو رعونت آمیز پیغام دینا تھا کہ امریکا سے تصادم کا انجام تباہی ہے۔

چنانچہ میزائل حملوں کے بعد صدر ٹرمپ نے پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ انھوں نے بحیثیت صدر شام کے فضائی بیس پر حملے کا حکم دیا تھا۔ انھوں نے شامی صدر بشارالاسد کوآمر قرار دیتے ہوئے کہا کہ امریکی حملہ شامی صدر کی طرف سے معصوم شہریوں کے خلاف کیمیائی حملے کا ردعمل ہے۔

اگرچہ اس موقع پر تمام مہذب ممالک سے صدر ٹرمپ نے شام میں تنازع کو ختم کرنے میں مدد کرنے کی اپیل کی لیکن بنیادی سوال اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں شام میں مبینہ کیمیائی حملہ کی تحقیقات کے لیے کسی قرارداد پر اتفاق کا نہ ہونا ہے، کیمیائی حملہ کی تحقیقات کے لیے قرارداد کے تین مسودے زیرغور لائے گئے۔ اس سے قبل 2013ء میں امریکی صحافی سیمور ہرش نے اپنی تحقیقاتی رپورٹ میںکیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کا انکشاف کیا تھا لیکن کوئی تحقیقات نہیں ہوئی، لیکن اب تاخیر نہیں ہونی چاہیے، عالمی برادری شام سمیت مشرق وسطیٰ کی سنگین صورتحال کا کوئی پر امن حل تلاش کرے ۔امریکا اور روس سمیت تمام اقوام عالم سر جوڑ کر شامی مسئلہ کا کوئی حل نکالیں کیونکہ دنیا کسی تیسری عالمی جنگ کی متحمل نہیں ہو سکتی۔

 

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔