کوئی ہے جو مردوں کی بھی سنے؟

رمضان رفیق  پير 24 اپريل 2017
جب خواتین کے حقوق کے لئے کام کرنے والی تنظیموں کو دیکھتا ہوں تو مردوں کے حقوق کی حفاظت کا بھی خیال آتا ہے۔ فوٹو: فائل

جب خواتین کے حقوق کے لئے کام کرنے والی تنظیموں کو دیکھتا ہوں تو مردوں کے حقوق کی حفاظت کا بھی خیال آتا ہے۔ فوٹو: فائل

ایک وقت تھا کہ مرد کسی بھی گھرانے کا چہرہ ہوا کرتا تھا، گھر کے اندر اور باہر اُس کے فیصلوں کی عمل داری ہوا کرتی تھی، خصوصی طور پر ہمارے سماج میں جہاں عورت کی وراثت کا تعین مرد سے ہے، عورت بیاہ کر مرد کے گھر آتی ہے، مرد کا نام جڑنے سے عورت کا نام بنتا ہے، اور مرد کو یک گونا برتری حاصل ہے۔

زمانے کی رفتار کے ساتھ عورت عملی طور پر زندگی کے ہر میدان میں مرد کے شانہ بشانہ چلنے لگی، مرد کی طرح کمانے لگی، اُس کے سماجی رتبے میں اضافہ ہوا، علم و دانش کی قابلیت اُس کی زندگی کے راستے طے کرنے لگی، لیکن نہ تو وراثت کا تعین اُس سے ہوا، اور نہ ہی اُس کو معاشرتی طور پر مرد پر فتح حاصل ہوئی، لیکن اِس کے ساتھ جب سے وہ معاشی طور پر کمزور مرد کو بیاہ کر لانے میں کامیاب ہوئی تو اُس کے اندر ایک بے چینی پیدا ہوئی، اور کچھ مثالوں میں جہاں مرد شادی کے بعد عورت کے گھر آیا تو عورت نے بھی وہی معاشرتی وطیرہ اپنایا جو کہ اِس سے پہلے ایک مرد کا تھا۔

آج کے اِس دن تک میری عمر کے ننانوے فیصد دوستوں کی شادیاں ہوچکیں ہیں۔ درجنوں کی کہانیاں سننے کو ملتی ہیں، کچھ عرصہ پہلے ہم دوست کہیں باہر نکلے ہوئے تھے۔ کھانے کا وقت ہوا تو طے پایا کہ کسی ایک دوست کے گھر چلا جائے۔ سب نے اپنی اپنی بیوی کو فون لگایا، ایک دوست نے فون کیا تو پتہ چلا کہ اُن کی بیگم صاحبہ نے کچھ بھی نہیں بنایا اور شاید کچھ پرانا پکا ہوا گھر میں پڑا ہو۔ دوسرے دوست کی بیگم صاحبہ کسی ہمسائی کے گھر گئی ہوئیں تھیں۔ ہمارے والی تو ویسے ہی ملک پاکستان میں بستی ہیں اِس لئے ہم تو سوال سے ہی بچے رہے، چوتھے نے بیگم کی منت سماجت کی کہ کچھ کرو، جس پر وہاں سے جواب آیا کہ آپ لوگ آجائیں آئیں، میں دیکھتی ہوں۔ اُن کے گھر گئے تو دوست نے کہا آج آپ کو اپنے ہاتھوں سے کچھ پکا کر کھلاتا ہوں۔ پھر ہمارے دوست نے آٹا گوندھا جبکہ اُن کی بیگم نے پیاز کاٹی اور مل جل کر ایک آدھ گھنٹے میں کچھ نہ کچھ تیار ہوگیا۔

یہاں یہ بات یاد رہے کہ اِن سب دوستوں میں سے کسی بھی دوست کی بیوی سوائے گھر داری کے اور کچھ نہیں کرتی۔ اب آپ پوچھیں گے کہ پاکستانی عورتیں گھروں میں کھانا بھی اگر نہیں پکاتی تو اور کیا کرتی ہیں؟ کچھ کہیں گی کہ وہ بچے پالتی ہیں، گھر میں درجنوں کام ہوتے ہیں، وغیرہ وغیرہ۔ لیکن اگر ایک عورت پر بچوں کی ذمہ داری بھی نہیں یا اگر ہے تو ویسی نہیں جو عموماً چھوٹے بچوں کو ابتدائی سالوں میں درکار ہوتی ہے تو ایسی خواتین کے گھروں کے انتظامات دیکھ کر بھی ویرانی کا احساس کیوں ہوتا ہے؟

کئی گھروں کو دیکھ کر احساس ہوتا ہے کہ اِس گھر کا نگہبان کوئی نہیں ہے، جونہی کوئی مہمان گھر چلا آتا ہے تو گھر کا سارا نظام درہم برہم سا ہوجاتا ہے۔ ہمارے بہت سے دوست فارغ وقت میں یعنی دفتر یا کام کے بعد گھر جاکر بچوں کو سنبھالتے پائے گئے ہیں کیونکہ اُن کی غیر موجودگی میں بیگم اِن بچوں کو سنبھال رہی تھیں اور اب والد کی بھی یہ ذمہ داری ہے کہ بچوں کو سنبھالے۔

کچھ عرصے سے خواتین کے حقوق کے لئے کام کرنے والی تنظیموں کو دیکھتا ہوں تو مردوں کے حقوق کی حفاظت کا بھی خیال آتا ہے۔ ہوسکتا ہے کئی جگہوں پر جیسے بلوچستان، صوبہ سرحد، سندھ کے صحرائی علاقوں میں یا پنجاب کے دیہات وغیرہ میں جہاں تک میری پہنچ نہیں ہے، خواتین کے حقوق غصب کئے جارہے ہوں لیکن کوپن ہیگن سے لیکر پاکستان کے شہری علاقوں تک جہاں جہاں مرد گھریلو ہوگئے ہیں، پڑھ لکھ گئے ہیں، عورتوں سے مار پیٹ کو غیر انسانی خیال کرتے ہیں اور بات چیت کے ذریعے اپنی بات منوانے کو شرفِ انسانیت سمجھنے لگے ہیں، وہاں عورتوں کی حکمرانی نظر آتی ہے۔

ایسے سورما جو شادی سے پہلے سبی کی دھوپ جیسے تھے اب ناران و کاغان کا سا مزاج رکھتے ہیں، صرف دوستوں سے ہی اونچی آواز میں گفتگو کرتے ہیں اور اگر کبھی اُن کو عظمتِ رفتہ یاد کروادی جائے تو طعنہ تشنہ خیال کرتے ہیں۔

میرے خیال میں ہماری بہت سی دیسی خواتین نے آرام دہ اور سُستی سے بھرپور زندگی کو اپنا شعار بنالیا ہے، اپنے اردگرد دیکھیں آپ کو شادی کے بعد سلم، اسمارٹ خاتون دیکھنے کو نہیں ملے گی، یعنی اپنی صحت اور خوبصورتی کا بھی خیال نہیں رکھتیں۔ جس کی وجہ سے بہت جلد بیماریوں میں گِھر جاتیں ہیں۔

اگر مرد نے کمانے کی ذمہ داری کلی طور پر اُٹھائی ہوئی ہے تو خواتین کو کلی طور پر گھر کی ذمہ داری اُٹھانے میں کیا حرج ہے؟ اُمید ہے میری بہنیں اپنے بھائی کی ایک شرارت بھری گستاخی کو معاف کردیں گیں اور اپنی صحت کے بہانے گھر کے کاموں میں بھی دلچسپی لیتی نظر آئیں گی۔

مردوں کے حق کے لیے اُٹھائی گئی آواز سے کیا آپ اتفاق کرتے ہیں؟

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لئے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔
رمضان رفیق

رمضان رفیق

رمضان رفیق کوپن ہیگن میں رہتے ہیں، اور ایگری ہنٹ نامی ویب سائٹ چلاتے ہیں۔ آپ ان کے بلاگ یہاں پڑھ سکتے ہیں۔ www.ramzanrafique.com

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔