دیکھا تیرا امریکا (بائیسویں قسط)

رضاالحق صدیقی  اتوار 23 اپريل 2017
اِس چینل کا ایک سالانہ فیچر شارک ویک ہے جو موسمِ گرما میں منایا جاتا ہے۔ اُس نے یہ بھی بتایا کہ فروری 2015ء تک یہ چینل امریکہ میں 83 فیصد گھروں میں دیکھا جانے والا چینل بن گیا ہے۔

اِس چینل کا ایک سالانہ فیچر شارک ویک ہے جو موسمِ گرما میں منایا جاتا ہے۔ اُس نے یہ بھی بتایا کہ فروری 2015ء تک یہ چینل امریکہ میں 83 فیصد گھروں میں دیکھا جانے والا چینل بن گیا ہے۔

ڈسکوری چینل

یہ دن بغیر کسی کام کے گزر رہے تھے۔ دن بھر یا تو لیپ ٹاپ پر پاکستان میں دوستوں، عزیز و اقارب سے گپ شپ یا پھر شام کو جب دھوپ اپنی تیزی کھو بیٹھتی تو گھر سے نکل کر ڈاون ٹاون کا ایک چکر لگا لیتے، جہاں اسپلیشن کے گرد پتھر کی منڈیر پر بیٹھ کر عنایہ کو پانی کے فواروں سے اٹھکیلیاں کرتے دیکھتے رہتے۔

اسپلیشن، ڈاون ٹاون میں وہ جگہ ہے جہاں زمین کو دائرے کی شکل میں پینٹ کیا گیا ہے۔ اِس دائرے میں وقفے وقفے سے سوراخ کئے گئے ہیں جن سے ایک خاص مکینیزم کے تحت باری باری پانی کا فوارہ پھوٹتا ہے۔ بچے ایک فوارے سے دوسرے فوارے کی جانب بھاگتے ہیں، نہاتے ہیں اور مزے کرتے ہیں۔ گھر جانے کا کہو تو انکار کرتے ہیں۔ یہاں حفظانِ صحت کا خاص خیال رکھا جاتا ہے۔ یہاں بچوں کو عام کپڑوں میں لانا منع ہے۔ بچوں کے والدین کو کہا جاتا ہے کہ انہیں سوئمنگ کاسٹیوم میں ہی لایا جائے۔

اسپلیشن میں ایک مقررہ وقت تک فوارے چلائے جاتے ہیں پھر اُس مقام پر تعینات عملہ اُس جگہ کی اچھی طرح صفائی کرتا ہے اور اُس جگہ کو رکاوٹیں کھڑی کرکے بند کردیا جاتا ہے۔ عنایہ کو وہاں بڑا مزا آتا ہے۔ اپنے باپ کی طرح گھنٹوں پانی سے کھیلنے کے باوجود جب گھر چلنے کا کہو تو چلنے سے انکار کردیتی تھی۔ ہم اُسے اُس وقت لے کر جاتے تھے جب اسپلیشن کے بند ہونے میں ایک گھنٹہ باقی رہ گیا ہوتا تھا۔ واپسی پر ہم فروزن یوگرٹ ضرور کھاتے تھے۔ یہ جما ہوا دہی ہوتا تھا یا نہیں، نہیں معلوم لیکن آئس کریم کی مانند لذیز ضرور ہوتا تھا۔ فروزن یوگرٹ مختلف فلیورز میں ملتا تھا جس پر اخروٹ، کاجو اور دیگر چیزوں کی ٹاپنگ ایسا مزا دیتی تھی کہ دل بھر کر کھانے کے باوجود دل نہیں بھرتا تھا۔ اب تو لاہور میں بھی ایک دو دکانیں فروزن یوگرٹ کی کھل گئی ہیں لیکن اُن میں ہلکی سی کھٹاس بتاتی ہے کہ یہ نقل تو ہے وہاں کی، مگر مطابق اصل نہیں ہے۔

اُس روز صبح ناشتے کے لئے ڈبل روٹی موجود نہیں تھی اور مجھے اکیلے کو نزدیکی سیون الیون سے ڈبل روٹی لانے جانا پڑا۔ میں جب سے امریکہ آیا تھا یہ پہلا موقع تھا کہ میں اکیلا باہر نکلا تھا۔ عدیل کے فلیٹ والی بلڈنگ ٹوئن ٹاورز سے نکل کر اگر ڈاون ٹاون کی طرف چلیں تو ٹوئن ٹاور کی عمارت ختم ہوتے ہی کارنر پر پیٹرول پمپ ہے۔ دائیں جانب مڑیں تو کچھ دور جاکر سیون الیون اسٹور ہے۔ یہ امریکہ کی مشہور چین ہے جس کی شاخیں ہر جگہ موجود ہیں اور یہ اسٹورز کھلے بھی دیر تک رہتے ہیں۔ پیٹرول پمپ پر کھڑے ہوکر دیکھیں تو سڑک کی دوسری جانب ایک وسیع و عریض سفید عمارت دکھائی دیتی ہے جس کی ہر منزل دن رات روشن نظر آتی ہے۔

یہ ڈسکوری چینل کی عمارت ہے۔ یہ چینل کا ہیڈ کوارٹر ہے۔ اُس روز میں نے سوچا کہ اِس عمارت کو قریب سے دیکھا جائے۔ میں نے پیٹرول پمپ سے پیدل چلنے کا اشارہ روشن ہوتے ہی سڑک پار کی اور عمارت کی دیوار کے ساتھ پہنچ گیا۔ ایک نظر اندر کی طرف ڈالی تو سامنے ہی ایک طویل القامت ڈائناسار کا مکمل ڈھانچہ اِس انداز میں کھڑا تھا کہ جیسے ابھی چل پڑے گا۔ ہم نے سوچا کہ چینل کو اندر سے دیکھا جائے، کچھ ملازمین سے ملاقات کی جائے، جس کے لئے ہم نے پاکستانی صحافیانہ انداز اپنایا۔ ہم نے استقبالیہ پر پہنچ کر اپنا تعارف کرایا، چینل کو اندر سے دیکھنے اور ساتھ ہی چینل کے CEO سے ملنے کی خواہش کا اظہار کیا۔ ہمیں کہا گیا کہ اپنا مقصد ایک چیٹ پر لکھ دیں اور انتظار کریں۔ استقبالیہ پر کاونٹر کے سامنے ہی صوفے پڑے تھے، میں وہاں بیٹھ گیا۔ وہیں استقبالیہ ڈیسک سے ایک گوارا سے نین نقش والی لڑکی اُٹھی اور ہمارے پاس آکر بیٹھ گئی غالباََ انتظامیہ سے تعلق رکھتی تھی۔ ہمارے اتنے قریب کہ اُس کے سانس لینے سے ایک خاص قسم کی بو ہمیں محسوس ہونے لگی۔ ویسے تو ایک خاص قسم کی مہک بھی آرہی تھی جو غالباََ کسی مہنگے سے پرفیوم کی تھی۔ ہمیں تو کوئی اتنا زیادہ اندازہ نہیں ہے اِن پرفیومز کا لیکن اُس پرفیوم میں شاید اُس کے جسم کی مہک بھی شامل تھی۔

ہمیں اِس قسم کی خوشبوں کا کوئی اندازہ نہیں ہے، اِس لئے ہم دم سادھ کر بیٹھ گئے۔ جب معاملہ برداشت سے باہر ہوگیا اور ہم نے وہاں سے اٹھنا چاہا تو اُس نے اپنا تعارف ریٹا کے نام سے کرایا اور بتایا کہ وہ انتظامیہ سے ہے۔ پریس اور پروٹوکول کے معاملات دیکھتی ہے، ہمارے استفسار پر اُس نے ہمیں چینل کے بارے میں تھوڑی سی معلومات فراہم کیں جس کے مطابق جون ہیڈرکس نے اِس چینل اور اِس کی مالک کمپنی کیبل ایجوکیشنل نٹ ورکس کی بنیاد 1982ء میں رکھی۔ چینل نے اپنی نشریات کا آغاز 1985ء میں کیا۔ اپنے ابتدائی دور میں ایجوکیشنل پروگرامنگ کے تحت اِس چینل سے کلچرل اور وائلڈ لائف ڈاکومنٹریز پیش کی گئیں۔ بنیادی طور پر یہ سائنس، ٹیکنالوجی اور ہسٹری پر مرکوز ڈاکومنٹری ٹیلیوژن ہے۔ امریکہ میں یہ رئیلیٹی ٹیلی وژن کے طور پر کام کرتا ہے۔ اِس کے نمایاں پروگراموں میں ’متھ بسٹرز‘، ’ان سالوڈ ہسٹری‘ اور ’بسٹ ایویڈنس‘ ہیں۔

اِس چینل کا ایک سالانہ فیچر شارک ویک ہے جو موسمِ گرما میں منایا جاتا ہے۔ اُس نے یہ بھی بتایا کہ فروری 2015ء تک یہ چینل امریکہ میں 83 فیصد گھروں میں دیکھا جانے والا چینل بن گیا ہے۔

چیٹ لے کر اندر کہیں غائب ہوجانے والا شخص آتا ہوا نظر آیا۔ استقبالیہ پر آکر اُس نے کچھ کہا اور پھر عمارت کے کسی کونے میں کہیں گم ہوگیا۔ استقبالیہ اہلکار نے ہمارے ساتھ بیٹھی ریٹا کو بلایا اور وہ اُٹھ کر اُس کے پاس گئی۔ اُس کے اٹھتے ہی تازہ ہوا کا ایک جھونکا ہمیں اپنی جانب بڑھتا محسوس ہوا۔ بڑی دیر سے دم سادھے بیٹھے تھے، کھل کر ایک لمبا سانس لیا، ابھی ایک سانس ہی لے پائے تھے کہ ریٹا واپس آگئی اور بڑے مہذب انداز میں ہم سے معذرت کی اور CEO صاحب کی عدم دستیابی کا بتا کر ہمیں رخصت کردیا۔

باہر آکر گھڑی دیکھی تو اندازہ ہوا کہ یہاں ایک گھنٹہ سے زیادہ وقت خرچ ہوچکا تھا۔ میں تو ڈبل روٹی لینے نکلا تھا، ہمیں تشویش شروع ہوگئی کہ سب انتظار کر رہے ہوں گے کہ میں آوں تو ناشتہ کریں۔ کچھ بچوں کو خیال آرہا ہوگا کہ میں پہلی بار اکیلا نکلا ہوں، کہیں راستہ تو نہیں بھٹک گیا۔ اب میں تیزی سے سیون الیون سے ڈبل روٹی لے کر گھر کی طرف چلا کہ مجھے بھی بھوک لگنے لگی تھی۔

 

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لئے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔
رضاالحق صدیقی

رضاالحق صدیقی

رضا الحق صدیقی ادبستان کے نام سے بلاگ اور نیٹ ٹی وی کے کرتا دھرتا ہیں۔ اُس کے علاوہ چار کتابوں ’مبادیاتِ تشہیر‘، ’حرمین کی گلیوں میں‘، ’کتابیں بولتی ہیں‘ اور ’دیکھا تیرا امریکہ‘ کے مصنف بھی ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔