ہندی سنیما کا ایک بے مثال بُرا آدمی پران

مرزا ظفر بیگ  اتوار 21 مئ 2017
1998ء میں پران کو 78سال کی عمر میں ہارٹ اٹیک ہوا جس کے بعد انہوں نے فلموں میں کام کرنا چھوڑ دیا۔ فوٹو : فائل

1998ء میں پران کو 78سال کی عمر میں ہارٹ اٹیک ہوا جس کے بعد انہوں نے فلموں میں کام کرنا چھوڑ دیا۔ فوٹو : فائل

پران کا پورا نام پران کشن سکند تھا۔ وہ بولی وڈ کے ایسے بُرے آدمیوں (ولنز) میں شامل تھے جنہوں نے بہ طور ولین اس انڈسٹری پر اپنا سکہ ایسا جمایا کہ ساری دنیا میں دھوم مچادی۔ ان کا چہرہ، آنکھیں اور چلنے کا انداز دیکھ کر بعض فلم بین تو ان سے ڈرتے تھے۔ ان کا انداز ایک خطرناک ولین والا تھا۔

پران 12فروری 1920کو پیدا ہوئے تھے اور نمونیے کی بیماری میں مبتلا ہوکر 12جولائی2013ء کو 93 سال کی عمر میں ممبئی، مہاراشٹر میں دنیا سے رخصت ہو گئے۔

٭نام اور شناخت:
اداکار پران کشن سکند فلمی دنیا میں صرف پران کے نام سے جانے جاتے تھے۔ عام لوگوں کو ان کا اصل اور پورا نام معلوم ہی نہیں تھا۔ پران 1940-47کے درمیان ایک فلمی ہیرو کے طور پر جلوہ گر ہوئے تھے اور اسی دور میں انہوں نے فلمی ولین کے کردار بھی نبھائے، لیکن بہ طور فلمی ہیرو وہ کام یاب ثابت نہیں ہوسکے۔ شاید ان کا انداز، ان کا چہر ایسا نہیں تھا جس سے وہ فلمی ہیرو لگتے۔ وہ 1940کے عشرے سے لے کر 1990کے عشرے تک ہندی سنیما کے ولین بنے رہے اور اس حیثیت میں انہوں نے دھوم مچادی تھی کہ ان کی شکل دیکھ کر فلم بین اور خاص طور سے خواتین ان سے بہت خوف کھاتی تھیں۔ وہ ایک بہت بڑے کیریکٹر ایکٹر بھی تھے۔

٭سپورٹنگ ایکٹر:
1948سے لے کر 2007کی مدت کے دوران پران نے سپورٹنگ ایکٹر کے کردار بھی بڑی خوبی سے نبھائے۔

پران کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ ایک طویل اور بے مثال کیریر کے مالک تھے، انہوں نے اپنی پوری زندگی میں 350سے زیادہ فلموں میں کام کیا تھا۔ اور وہ بھی ایک سے بڑھ کر ایک فلمیں تھیں جنہیں اس دور میں بے پناہ مقبولیت حاصل ہوئی تھی۔

٭پران کی مقبول فلمیں:
پران نے سب سے پہلے خاندان (1942)نامی فلم میں لیڈنگ رول کیا ، اسی طرح انہوں نے پلپلی صاحب(1954) میں اور اس کے بعد ہلاکو (1956) میں بھی نمایاں کردار ادا کرکے خود کو ایک ورسٹائل اداکار کے طور پر منوالیا تھا۔ 1958 میں آنے والی فلم ’’مدھومتی‘‘ میں پران نے اپنی اداکارانہ صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔ اس فلم کے ہیرو دلیپ کمار تھے اور ہیروئن وجینتی مالا تھیں۔

یہ اپنے دور کی بے پناہ مقبول فلم ثابت ہوئی تھی، اس کے علاوہ انہوں نے 1960 میں جس دیش میں گنگا بہتی ہے (راج کپور) 1967میں اپکار، 1965میں شہید، 1970میں پورب اور پچھم، 1967میں رام اور شیام، 1969 میں آنسو بن گئے پھول، 1970میں جانی میرا نام،1972 میں وکٹوریہ نمبر 203، 1972میں بے ایمان، 1973میں زنجیر، 1978 میں ڈان، 1977میں امر اکبر انتھونی اور 1984میں دنیا جیس متعدد مشہور و معروف فلموں میں کام کرکے اپنی فن کاری کے جوہر بھی دکھائے۔ کہا جاتا ہے کہ یہ وہ فلمیں تھیں جنہیں پران نے اپنی اداکاری سے لازوال بنادیا۔ ان فلموں میں ان کے بُرے آدمی کے کردار کو بھی بہت پسند کیا گیا اور اچھے آدمی کے کردار کو بھی۔ انہوں نے دونوں طرح کے رولز سے اپنے کرداروں کو جان بخش دی تھی۔ یہ ان کے فن کی خاص بات تھی کہ وہ ہر کردار میں جان ڈال دیتے تھے۔

٭ایوارڈز اور اعزازات:
اداکار پران نے اپنے کیریئر کے دوران متعدد ایوارڈز وصول کیے۔ انہوں نے 1967, 1969اور 1972ء میں فلم فیئر ایوارڈز حاصل کیے۔ 1997میں انہیں فلم فیئر لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ بھی دیا گیا۔ 2000 میں اداکار پران کو اسٹارڈسٹ نے ’’ولین آف دی ملینیم ‘‘ کا ایوارڈ بھی دیا تھا جو بلاشبہہ ان کی فن کارانہ صلاحیتوں کا اعتراف تھا۔2001 میں آرٹس کے لیے ان کی بے مثال خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے انہیں انڈیا کے پدم بھوشن ایوارڈ سے بھی نوازا گیا تھا۔ 2013میں پران کو دادا صاحب پھالکے ایوارڈ بھی دیا گیا جو سنیما اور فلموں کے لیے انڈین حکومت کا سب سے بڑا قومی ایوارڈ ہے۔

2010میں انہیں سی این این کی 25 بہترین اور آل ٹائم ایشیائی اداکاروں کی فہرست میں بھی شامل کیا گیا۔

٭بیماری اور دیہانت:
اداکار اور ولن پران 12جولائی 2013کو طویل عرصہ تک نمونیہ کی جان لیوا بیماری میں مبتلا رہنے کے بعد 93 سال کی عمر میں انتقال کرگئے۔ ان جیسا ولین شاید بولی وڈ میں صدیوں نہ پیدا ہوسکے۔

٭پیدائش اور تعلیم:
اداکار پران 12فروری1920کو پرانی دہلی کے ایک علاقے بلی ماران کے ایک دولت مند پنجابی گھرانے میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کے والد کیول کرشن سکند ایک سول انجینئر تھے اور سرکاری ٹھیکے لیا کرتے تھے۔ ان کی ماں کا نام رامیشوری تھا۔ تعلیم کے شعبے میں پران نے بڑی صلاحیتوں کا مظاہرہ کیا، وہ بچپن سے ہی میتھس (ریاضی) میں ماہر تھے اور اس سبجیکٹ میں خاص مہارت رکھتے تھے۔ ان کے والد اکثر ملازمت کے سلسلے میں گھر سے باہر رہتے تھے۔ اس لیے پران کو متعدد جگہوں سے تعلیم حاصل کرنی پڑی جن میں دہرہ دون، کپورتھلہ، میرٹھ اور اناؤ (یوپی) شامل ہیں۔ رام پور کے حامد اسکول سے تعلیم مکمل کرنے کے بعد وہ دہلی میں بہ طور پروفیشنل فوٹوگرافر کام کرنے لگے تھے۔ بعد میں انہوں نے شملہ کا سفر کیا اور وہاں رام لیلا کے میلے میں سیتا کا کردار بھی نبھایا تھا۔

٭لاہور اور بمبئی کی فلمیں:
پران نے 1942سے1946کے دوران لاہور میں لگ بھگ 22 فلموں میں کام کیا تھا جن میں سے 18فلمیں 1947تک ریلیز ہوگئیں۔ بعد میں انڈیا پاکستان کے تقسیم کے باعث پران کے کیریر کو وقتی طور پر بریک لگا، پھر وہ لاہور سے بمبئی چلے گئے اور جہاں انہوں نے حصول معاش کے لیے بھی کافی جدوجہد کی اور اپنے قدم جمانے کے لیے بھی بہت کچھ کام کیے، انہوں نے ایک ہوٹل میں بھی کام کیا، پھر 1948میں انہیں اداکاری کا موقع مل گیا۔

٭بمبئی کی فلم نگری میں:
بمبئی کی فلم نگری میں انہیں کام کا موقع ایسے ملا کہ سعادت حسن منٹو اور اداکار شیام کی مدد سے انہیں ’’ضدی‘‘ فلم میں کام کرنے کا موقع مل گیا، جس میں لیڈنگ رول دیوآنند اور کامنی کوشل نے کیے تھے۔ اس فلم کے ذریعے بمبئی میں پران کے کیریئر کا باقاعدہ آغاز ہوا۔ پہلے ان کی فلم ضدی اور پھر بڑی بہن نے بھی کام یابی حاصل کی۔ یہیں سے انہوں نے اپنے نئے دور کا آغاز کیا جس میں وہ ایک بہت بڑے ولین بن کر منظرعام پر آنے والے تھے۔ پران نے بہ طور ولین ایک خاص اسٹائل اپنایا تھا، وہ سگریٹ نوشی کرتے ہوئے منہ سے دھوئیں کے مرغولے نکالتے تھے۔

یہ اسٹائل بہت مقبول ہوا۔ بعد میں انہوں نے دلیپ کمار، دیوآنند اور راج کپور کے ساتھ بھی بہ طور ولین اپنی اداکارنہ صلاحیتوں کے جوہر دکھائے اور ہر فلم میں اسی طرح سگریٹ کے مرغولے چھوڑتے ہوئے دکھائی دیے۔ دلیپ کمار کی فلموں، آزاد، دیوداس، مدھومتی، دل دیا درد لیا، رام اور شیام اور آدمی میں پران کی منفی اداکاری بہت زیادہ پسند کی گئی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اپنی فلموں میں زیادہ تر پران نے منفی رول کیے، مگر ایک حیرت انگیز بات یہ تھی کہ وہ اپنے اندر کے ولین کو جس طرح فلم بینوں کے سامنے پیش کرتے تھے، اس کی وجہ سے انہیں بہت شہرت بھی ملی اور مقبولیت بھی۔

بعد میں پرانے ہیروز کی جگہ نئے ہیروز آنے لگے، مگر پران ان کے ساتھ بھی برابر کام کرتے رہے۔ پران نے مزاحیہ رول بھی کیے، خاص طور سے کشور کمار اور محمود کے ساتھ ان کی فلموں نے بڑی کام یابی حاصل کی۔ محمود کے ساتھ انہوں نے ’’سادھو اور شیطان‘‘، لاکھوں میں ایک‘‘ اور کشور کمار کے ساتھ ’’چھم چھما چھم‘‘ میں اپنی مزاحیہ اداکاری کے جوہر دکھائے۔ 1969اور 1982کے دوران سب سے زیادہ معاوضہ لینے والے اداکار تھے۔

٭بیماری اور موت:
1998ء میں پران کو 78سال کی عمر میں ہارٹ اٹیک ہوا جس کے بعد انہوں نے فلموں میں کام کرنا چھوڑ دیا۔ لیکن امیتابھ بچن کے اصرار پر 1996میں انہوں نے ’’تیرے میرے سپنے‘‘ اور 1997ء میں ’’مرتیوداتا‘‘ میں کام کیا۔ ان فلموں میں پران نے امیتابھ بچن کو سہارا دینے کے لیے کام کیا تھا، کیوں کہ اس دور میں امیتابھ بچن اپنی زندگی کے مشکل ترین دور سے گزر رہے تھے۔ اداکار پران نے ہندی سنیما کو اپنی زندگی کے پورے چھے عشرے دیے تھے، اس فلم نگری میں ان کا بڑا احترام کیا جاتا تھا۔ بعد میں لوگوں نے پران کو ’’پران صاحب‘‘ کہنا شروع کردیا تھا۔ پران نے 1945میں شکلا اہلووالیا سے شادی کی تھی۔ ان کے دو بیٹے اروند اور سنیل اور ایک بیٹی پنکی ہے۔ ماضی کا یہ شان دار اداکار آج ہمارے درمیان نہیں ہے، مگر آج بھی اس کی گھن گرج بولی وڈ کے پردوں پر دکھائی دیتی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔