عظمیٰ اور طاہر کی کہانی کا بھیانک ڈراپ سین

مہتاب عزیز  جمعرات 1 جون 2017
عظمیٰ کے ساتھ مسئلہ کیا ہوا، یہ تو وہ خود ہی بتا سکتی ہے۔ البتہ جیسے ہی یہ سارا معاملہ میڈیا کی زینت بنا، ویسے ہی ہندوستان نے اِس پورے کیس کو پاکستان مخالف پراپیگینڈے کا ذریعہ بنا لیا۔

عظمیٰ کے ساتھ مسئلہ کیا ہوا، یہ تو وہ خود ہی بتا سکتی ہے۔ البتہ جیسے ہی یہ سارا معاملہ میڈیا کی زینت بنا، ویسے ہی ہندوستان نے اِس پورے کیس کو پاکستان مخالف پراپیگینڈے کا ذریعہ بنا لیا۔

یہ ابھی کچھ دن پہلے کی ہی بات ہے جب بھارتی مسلمان عظمیٰ اچانک اپنی مرضی اور خوشی سے شادی کی غرض سے پاکستانی علاقے بونیر پہنچی۔ وہاں اُس کا نکاح طاہر نامی لڑکے سے ہوا لیکن نکاح کے کچھ دن بعد ہی اُس نے اسلام آباد کچہری میں درخواست دائر کی کہ یہ سب کچھ اُس کے ساتھ بندوق کے زور پر ہوا ہے، اور پھر بھارت پہنچ کر بھی اُس نے پاکستان کے خلاف زہر اگلا ہے۔ یہ پورا معاملہ کیا ہے اِس کی حقیقت کیا ہے، آئیے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔

اسلام آباد ہائیکورٹ سے اجازت ملنے پر عظمیٰ واپس دہلی پہنچی تو اُس کا سرکاری سطح پر استقبال کیا گیا۔ ہندوستانی وزیر خارجہ سشما سوراج نے ملاقات کی اور پھر ہندوستان سرکار کی جانب سے ایک نیوز کانفرنس کا اہتمام کیا گیا، جس میں وزیر خارجہ سشما سوراج نے تو عظمیٰ کی رہائی میں مدد دینے پر پاکستانی حکومت عدلیہ اور وکلاء کا شکریہ ادا کیا لیکن عظمیٰ پاکستان کے خلاف زہر اگلتی رہی۔

اُس نے کہا کہ

’’پاکستان جانا بہت آسان ہے، ویزا آسانی سے مل جاتا ہے، لیکن وہاں سے بچ کر آنا بہت مشکل۔ پاکستان موت کا کنواں ہے۔ بھارت میں خاص طور پر مسلمانوں میں یہ تاثر ہے کہ پاکستان بہت اچھا ہے لیکن میں وہاں جو دیکھ کر آئی ہوں وہ بہت خطرناک ہے، وہاں ہر گھر میں دو، دو تین، تین بیویاں ہیں، عورتوں کے ساتھ جس طرح کا سلوک ہوتا ہے، اُس کے مقابلے میں ہمارا بھارت جیسا بھی ہے بہت اچھا ہے۔ یہاں ہمیں ہر آزادی حاصل ہے۔ اُس نے کہا کہ بونیر میں جس جگہ وہ تھیں وہاں اُس جیسی اور بہت سی غیر ملکی لڑکیاں تھیں، وہ سب بھارتی شہری نہیں تھیں، اُن میں شاید کچھ کا تعلق فلپائن اور ملائیشیا سے تھا۔ مگر وہاں مجھ سمیت سب کے ساتھ نہایت بُرا سلوک کیا جا رہا تھا۔ اگر میں کچھ اور دن وہاں رہ جاتی تو وہ یا تو مجھے مار دیتے یا مجھے آگے بیچ دیتے یا پھر کسی آپریشن میں میرا استعمال کرتے۔‘‘

عظمیٰ اور طاہر کی روداد جاننے کے لئے اُس کے شوہر طاہر سے رابطہ ہوا تو عجیب حقائق سامنے آئے۔ عظمیٰ کے شوہر طاہر کے پاس بہت سی ویڈیوز بطور ثبوت موجود ہیں، جن سے ایک نئی کہانی سامنے آتی ہے۔ اُس نے چند ویڈیوز دیکھائیں جن میں سے ایک میں عظمیٰ ملائیشیا کے قیام کے دوران کہتی ہے کہ

اُس کا خواب ہے کہ وہ پاکستان جائے۔

پھر ایک ویڈیو میں وہ پاکستان پہنچنے کے بعد بونیر کو دیکھ کر کہتی ہے کہ

لگتا ہے میں جنت میں آگئی ہوں۔

نکاح کے بعد ویڈیو میں وہ کہتی ہے کہ

آج وہ خود کو دنیا کی خوش قسمت ترین عورت سمجھتی ہے۔

کہانی کچھ یوں بنتی ہے کہ ڈاکٹر عظمیٰ کہلانے والی عظمیٰ کا تعلق بھارت کے دارلحکومت دہلی کے ایک غریب اور گنجان آباد علاقے سے ہے۔ عظمیٰ کچھ عرصہ دہلی میں ایک بوتیک چلاتی رہی، پھر ملازمت کے لئے ملائیشیا چلی گئی۔ جہاں اُس کی ملاقات خیبر پختونخواہ کے دور افتادہ ضلع بونیر کے طاہر سے ہوئی جو ملائیشیا میں ٹیکسی چلاتا تھا۔ ملاقات جلد ہی دوستی میں بدل گئی۔ دوستی اتنی گہری ہوگئی کہ جب طاہر کو ایک روڈ حادثے کے نتیجے میں دو ماہ کے لئے جیل جانا پڑا تو عظمیٰ بھی واپس بھارت چلی گئی۔ عظمیٰ نے دہلی میں اپنے جاننے والوں سے بھی طاہر کا تذکرہ کیا۔ دہلی میں مقیم عظمیٰ کی ایک دوست نے بعد میں بی بی سی کو بتایا کہ

’’میں اکثر عظمیٰ سے کہتی تھی کہ تو شادی کرلے اور وہ ہمیشہ یہ جواب دیتی تھی کہ کوئی ٹھیک سا شخص ملے گا تو کرلوں گی۔ پھر عظمیٰ نے مجھے بتایا تھا کہ ملائیشیا میں اُسے کوئی پاکستانی لڑکا ملا ہے، وہ چاہتی تھی کہ لڑکا اُس کی بیٹی کو بھی اپنائے۔‘‘

عظمیٰ بھارت سے واپس ملائیشیا عین اُس روز واپس لوٹی جس روز طاہر نے جیل سے رہا ہونا تھا۔ اُس نے جیل کے دروازے پر طاہر کا استقبال کیا، اور پھر پہلی ملاقات کے صرف آٹھ ماہ بعد ہی دونوں نے شادی کا فیصلہ کرلیا، اور پھر دونوں ہی ملائیشیا کو خیر آباد کہہ کر اپنے ملکوں کو لوٹ آئے۔ عظمیٰ پاکستان کا ویزہ لے کر اپنی مرضی سے یکم مئی کو پاکستان پہنچی۔ واہگہ بارڈر پر طاہر نے اُس کا استقبال کیا اور وہ دونوں بونیر چلے گئے۔ بونیر پہنچنے کے تین روز بعد عظمیٰ کا طاہر سے نکاح ہوا، جس کی ویڈیو پاکستانی میڈیا پر چل چکی ہے۔ اُس ویڈیو میں نہ تو کوئی ’گن‘ دیکھائی دیتی ہے اور نہ ہی ’زبردستی‘ کے اثار ملتے ہیں۔ شادی کے بعد دونوں نے اکھٹے بھارت جانے کا فیصلہ کیا تاکہ طاہر عظمیٰ کے خاندان والوں سے مل سکے۔

دہلی میں موجود عظمیٰ کے بھائی کے کہنے پر دونوں اسلام آباد میں واقع بھارتی سفارتخانے پہنچے اور وہاں عدنان نامی اہلکار سے ملاقات کی تاکہ طاہر کے لئے ہندوستان کا ویزہ لگوانے میں آسانی ہوسکے۔ لیکن سفارتخانے میں عدنان سے ملنے کی خوائش ظاہر کرنے پر طاہر کو الگ بٹھا کر عظمیٰ کو سفارتخانے کے اندر بلایا گیا۔ طاہر باہر انتظار کرتا رہا جبکہ اِس دوران عظمیٰ کو سفارتخانے کا عملہ اسلام آباد کچہری لے گیا، جہاں عظمیٰ کی جانب سے درخواست دائر کی گئی کہ اُس سے بندوق کی نوک پر نکاح کیا گیا ہے۔

باقی کیس کی بہت سی تفصیلات تو میڈیا میں آتی رہی ہیں۔

میں نے طاہر سے پوچھا کہ اچانک ایسی کیا وجہ بنی کہ عظمیٰ نے عدالت کے روبرو بھی واپس ہندوستان جانے کی خوائش کا اظہار کردیا؟ طاہر کا جواب تھا کہ عظمیٰ کی پانچ سالہ بیٹی دہلی میں اُس کے بھائی کے پاس ہے۔ یہ بھائی عظمیٰ کو بیٹی کے حوالے سے بلیک میل کر رہا ہے۔ یہ سارا کھیل اُس کے بھائی اور اُس کے دوست کا ہے جو بھارتی سفارتخانے کا ملازم ہے۔ عظمیٰ اپنے بھائی سے خائف تھی، اِسی لئے پہلے وہ ملائیشیا گئی اور پھر شادی کرکے ہندوستان ہمیشہ کے لئے چھوڑنا چاہتی تھی، لیکن اُس کے بھائی نے پاکستان آتے وقت اُس کی بیٹی کو اپنے پاس روک لیا تھا۔ طاہر اور عظمیٰ کی واٹس ایپ پر ہونے والی ایک گفتگو بھی میڈیا کی زینت بن چکی ہے جس میں عظمیٰ طاہر سے کہتی ہے کہ وہ اُس کے بھائی سے گفتگو میں اپنی پہلی شادی اور بچوں کا تذکرہ نہ کرے اور اپنی تعلیم گریجویشن بتائے۔

طاہر نے عظمیٰ کی مذکورہ ویڈیوز میڈیا پر چلانے کے حوالے سوال پر کہا کہ

’عظمیٰ میری بیوی ہے۔ میں اُس کی عزت نہیں اچھالنا چاہتا۔ اگر میرے لئے یہ صورتحال مجبوری نہ بن گئی ہوتی تو میں عدالت بھی نہ جاتا۔ عظمیٰ مجھے ایک بار کہہ دیتی کہ وہ واپس جانا چاہتی ہے تو میں ایک لمحے کے لئے بھی رکاوٹ نہ بنتا۔ اب بھی میں نے کورٹ سے یہی اپیل کی ہے کہ مجھے عظمیٰ سے ایک بار ملنے کی اجازت دی جائے تاکہ مجھے اندازہ ہو کہ اُس کے ساتھ مسئلہ کیا ہے۔ اگر وہ کہے تو میں اُسے طلاق دے دوں گا، لیکن عظمیٰ نے ایک بار بھی کورٹ میں طلاق طلب نہیں کی حالانکہ وہ یہ بات جانتی ہے کہ نکاح کے بعد بغیر طلاق لئے وہ کسی اور سے شادی نہیں کرسکتی۔‘

بے چاری عظمیٰ کے ساتھ مسئلہ کیا ہوا، یہ تو وہ خود ہی بتا سکتی ہے۔ البتہ جیسے ہی یہ سارا معاملہ میڈیا کی زینت بنا، ویسے ہی ہندوستان نے اِس پورے کیس کو پاکستان مخالف پراپیگینڈے کا ذریعہ بنا لیا۔ بھارتی دفتر خارجہ میں پریس کانفرنس کے دوران جو رٹا رٹایا اسکرپٹ پڑھایا گیا اُس کا مقصد صرف پاکستان کو بدنام کرنا اور بھارتی مسلمانوں کو پاکستان سے بدظن کرنا تھا۔ اسکرپٹ کسی ایسے جاہل سے لکھوایا گیا تھا جسے یہ بھی نہیں معلوم کہ پاکستان میں دو شادیوں کی شرح 0.5 فیصد سے بھی کم ہے۔ چار شادیاں تو شاید 20 کروڑ کی آبادی میں ایک ہزار بھی نہیں ہوں گی۔ پھر بونیر جیسے دور افتادہ مقام پر ہزاروں غیر ملکی لڑکیوں کی موجودگی کی بات حماقت کا شاہکار ہے۔

مہتاب عزیز

مہتاب عزیز

مہتاب عزیز صحافی، بلاگر اور سوشل میڈیا ایکٹوسٹ ہیں۔ 16 سال سے صحافت سے تعلق ہے۔ مقامی اور بین الاقوامی پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا میں خدمات سر انجام دی ہیں۔ ان دنوں ایک مقامی ٹی وی چینل سے تعلق ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔