اخوان المسلمون

عبید اللہ عابد  اتوار 25 جون 2017
نوے برس قبل قائم ہونے والی تحریک جس سے عرب بادشاہتیں شدیدخطرات محسوس کرنے لگی ہیں۔ فوٹو : فائل

نوے برس قبل قائم ہونے والی تحریک جس سے عرب بادشاہتیں شدیدخطرات محسوس کرنے لگی ہیں۔ فوٹو : فائل

سعودی عرب، بحرین، کویت، اومان، قطر اور متحدہ عرب امارات، یہ سارے خلیجی ممالک ایک دوسرے کے ساتھ اچھے بھلے تھے، ایک ہی فوج اور ایک ہی کرنسی بنانے کا سوچ رہے تھے لیکن اب ان میں سے تین ممالک  اپنے ہی ایک برادر ملک قطر کے خلاف اکٹھے ہوگئے ہیں، اسے تنہا کرنے کی سرتوڑ کوشش کررہے ہیں، البتہ کویت اور اومان قطر کے خلاف کسی ایڈونچر کا حصہ بننے سے انکاری ہیں۔

سوال یہ ہے کہ تین خلیجی ممالک قطر کے خلاف کیوں مہم جوئی پر اترآئے؟ آئیے! اس سوال کا جواب تلاش کرتے ہیں۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے صدارت کا حلف اٹھانے کے بعد اپنے مختصر لیکن جذباتی افتتاحی خطاب میں اپنی خارجہ پالیسی کا ایک نکتہ نہایت واضح اندازمیں بیان کیاتھا’’ وہ مہذب دنیا کو ’اسلامی دہشت گردی‘ کے خلاف اکٹھاکریں گے اور اسے صفحہ ہستی سے مٹادیں گے‘‘۔ جب سے نائن الیون کے بعد جارج بش نے دہشت کے خلاف جنگ چھیڑی، انھوں نے مشرق وسطیٰ  اور دوسرے علاقوں میں متشدد انتہاپسندوں سے لڑنے کے لئے خارجہ پالیسی ترتیب دی۔ صدراوباما نے اپنی صدارت کے آخری برس میں 26000 سے زائد بم گرائے، یہ زیادہ تر مسلم اکثریتی ممالک ہی پر برسائے گئے۔

اب سوال یہ ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کس مختلف انداز میں ’اسلامی دہشت گردی‘ کو صفحہ ہستی سے مٹائیں گے۔ ٹرمپ انتظامیہ کے متعدد لوگ چاہتے ہیں کہ القاعدہ اور داعش جیسی عسکریت پسند تنظیموں اور  پرامن طور پر کام کرنے والی اسلامی تحریکوں کے درمیان خطِ امتیاز کو ختم کردیاجائے یا پھر دھندلا کردیا جائے، بالخصوص ایسی اسلامی تحریکیں جو اپنے اپنے ملکوں میں حکومتی فیصلوں پر اثرانداز ہوتی ہیں۔ مثلاً اخوان المسلمون اور اس کی شاخیں۔

ماضی میں اخوان المسلمون کو دہشت گرد قرار دے کر الگ تھلگ کرنے کی کوششیں واشنگٹن میں اُن لوگوں کی طرف سے ہوتی تھیں جو مسلمان دشمن سمجھتے جاتے تھے۔ تاہم امریکہ کا پالیسی بنانے والا طبقہ بخوبی سمجھتا تھا کہ اخوان المسلمون کو دہشت گرد قرار دیا گیا تو اس کے قانونی اور سیاسی نتائج کیا ہوں گے۔

امریکی سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کی ’غیرملکی دہشت گرد تنظیموں‘ کی فہرست میں اخوان المسلمون کا نام شامل کرنے کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ یہ ہے کہ اخوان المسلمون 90 برس قبل مصر میں قائم ہوئی، ابھی تک امریکیوں کو سمجھ ہی نہیں آرہی کہ اخوان المسلمون ہے کیا اور اس کے مقاصد کیا ہیں؟ ایسے میں انھیں بڑی مشکل یہی درپیش ہے کہ وہ کون سا الزام عائد کرکے اخوان المسلمون کو دہشت گرد تنظیم قراردیں۔ امریکی قوانین کے مطابق یہ تنظیم دہشت گرد تنظیم کی کسی بھی تعریف میں پوری نہیں اترتی۔

اب امریکی سوچ رہے ہیں کہ وہ کوئی نئی تعریف بنائیں جس کے دائرے میں اخوان المسلمون ایسی تنظیمیں بھی آجائیں کیونکہ(بعض امریکی پالیسی ساز فکرمند ہیں) موجودہ تعریف اور قوانین کے لحاظ سے گزشتہ برس مراکش میں انتخاب جیتنے والی جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی بھی قابل گرفت نہیں ہیں اور ’مسلم سٹوڈنٹس ایسوسی ایشن‘ بھی نہیں جن کی شاخیں سینکڑوں امریکی کالجوں اور یونیورسٹیوں میں پھیلی ہوئی ہیں۔

اخوان المسلمون ایک ایسی تنظیم ہے جو تمام تر قانونی تقاضے پورے کرتی ہے، یہ پرانے سٹرکچر کی حامل ہے، اس کی رکنیت حاصل کرنا نہایت مشکل معاملہ ہوتاہے، یہ تنظیم ایک ایسے معاشرے میں کام کرتی ہے جہاں خیالات مسلسل ارتقا کا سفر طے کررہے ہیں۔

یہ تنظیم 1928ء میں قائم ہوئی، اسکے بانی حسن البناء اسماعیلہ شہر میں ایک سکول ٹیچرتھے۔ انھوں نے اپنے کارکنوں کو اسلامی تعلیمات کے مطابق زندگی بسر کرنے کی ہدایت کی، انکی تعلیم و تربیت کیلئے باقاعدہ سکول یا مدارس قائم کرنے کے بجائے ’سٹڈی سرکلز‘ کا نظام قائم کیا۔اس کے بنیادی ارکان اپنے مقامی سربراہ کو منتخب کرتے، وہ اپنے نمائندوں پر مشتمل ایک باڈی تشکیل دیتے جو تنظیم کا ایجنڈا تیارکرتی۔40ء کے اواخر تک اخوان المسلمون کے مصر میں ارکان  دس لاکھ سے تجاوز کرچکے تھے۔

اس دوران کئی ہمسائیہ ممالک میں بھی اخوان المسلمون کی شاخیں قائم ہوچکی تھیں۔ریاستی فورسز نے 1949ء میں حسن البنا کو گولیوں سے چھلنی کردیا۔ تین برس بعد فوج نے شاہ مصر کا تختہ الٹ دیا اورسیاسی جماعتوں پر پابندی عائد کردی حتیٰ کہ اخوان المسلمون پر بھی جس نے جمال ناصر کے آنے کا خیرمقدم کیاتھا اور اس کے لوگ فوجی حکومت سے تعاون بھی کررہے تھے۔

اخوان المسلمون کوریاست کی سب سے بڑی دشمن قراردیدیاگیا۔ اس کے بعد اخوان المسلمون کے سربراہوں کو قتل یا جیلوں میں بند یا پھر جلاوطن کردیا گیا۔ اگرچہ اس تنظیم کو کالعدم قراردیاگیا لیکن اسکے نظریات قائم و دائم رہے۔ 1967ء تک مصری قوم جمال ناصر کے ’ناصرازم‘ سے بے زار ہوگئی، بڑی تعداد نے اسے بیکار قراردے کر اخوان المسلمون کے ساتھ جڑنا شروع کردیا، وہ قائل ہوگئے کہ اسلامی اقدار کی بنیاد پر قائم ہونے والی اسلامی ریاست ہی انکے مسائل کا حل اور انھیں خوشحال زندگی فراہم کرسکتی ہے۔

جمال ناصر کے بعد انورالسادات آگئے لیکن اخوان المسلمون پر پابندی برقرار رہی، نتیجتاً اخوان المسلمون کے لوگ زیرزمین اپنے آپ کو منظم کرتے رہے، بڑی تعداد میں طلبہ اور نوجوان تنظیم کا حصہ بنتے رہے۔ اس کے بعد کچھ یوں ہوا کہ اخوان المسلمون کے کچھ لوگ ریاستی جبر کے مقابل تنظیم کی عدم تشدد پر مبنی پالیسی سے اختلاف کرتے ہوئے علیحدہ ہوگئے۔ ان میں ڈاکٹرایمن الظواہری ایسے نوجوان شامل تھے۔اس فکر کے لوگوں میں بھی اضافہ ہونے لگا، ایسا صرف مصر ہی میں نہیں ہورہاتھا بلکہ خطے کے دیگرعرب ممالک میں بھی۔سعودی عرب کے امیرترین خاندان ’بن لادن‘ کے فرزند اسامہ بن لادن کا اسی صف میں شامل ہونا ثابت کرتاہے کہ سعودی عرب میں کس بڑی سطح کے لوگ مزاحمتی صف کا حصہ بن رہے تھے۔

دوسری طرف اخوان المسلمون نے مصر کے بعد سوڈان، شام، فلسطین، اردن میں بھی قدم جمانا شروع کردئیے۔ اگرچہ اس کی بعض شاخوں نے اپنا نام مختلف رکھا مثلاً سوڈان میں ’اسلامک چارٹر فرنٹ‘، جس کا بعدازاں نام تبدیل کرکے ’نیشنل اسلامک فرنٹ‘ رکھاگیا۔ اس کے رہنما ڈاکٹرحسن الترابی تھے۔ بعض ممالک نے اپنے حالات کے مطابق تنظیم کے ایجنڈے اور سٹرکچرمیں تبدیلی کی مثلاً تیونس میں ’النہضہ تحریک‘۔ اخوان المسلمون ہی سے وابستہ کچھ لوگ یورپ اور شمالی امریکہ کے ممالک میں جاپہنچے، انھوں نے وہاںمختلف نام سے تنظیمیں قائم کیں۔ وہ مساجد اور خیراتی اداروں کی صورت میں بھی کام کررہے تھے۔

اسّی کی دہائی سے اب تک مختلف عرب ممالک میں اخوان کی مختلف تنظیمیں اپنے اپنے انداز میں سفر طے کررہی ہیں۔ شام کی اخوان المسلمون نے 1982ء میں حافظ الاسد حکومت کے ساتھ مزاحمت کا راستہ اختیار کیا ، نتیجتاً وہاں کی قیادت کو بدترین تشدد کا نشانہ یا پھر جلاوطن ہونا پڑا۔ حیران کن امر ہے کہ بعض شامی اخوانیوں نے عراق میں پناہ حاصل کرلی، حالانکہ صدام حسین عراقی اخوان المسلمون کو نیست و نابود کرنے کیلئے ہرممکن حربے اختیار کررہے تھے۔ سن1987ء میں پہلی تحریک انتفادہ کے ظہور کے بعدفلسطینی اخوان المسلمون  نے اپنے اندرونی نظام کو بہتر کرتے ہوئے’حماس‘ کی صورت میں ایک نئی شکل اختیار کی۔

کویت کی اخوان المسلمون نے 1991ء میں ملک پر عراقی قبضہ ختم کرنے کے لئے امریکی قیادت میں بننے والے فوجی اتحاد کی حمایت کی حالانکہ مشرق وسطیٰ کے دیگر ممالک میں موجود اخوان نے خطے میں امریکی مداخلت کی مذمت کی تھی۔سوڈان میں ڈاکٹرحسن الترابی نے فوجی بغاوت کے ذریعے حکمرانی حاصل کرنیوالے عمر حسن البشیر کی حمایت کی اور انکے ساتھ اقتدارمیں شریک رہے۔

اردن اور مراکش میں اخوانی رہنماؤں نے اپنے محدود اصلاحاتی ایجنڈے کے ساتھ وہاں کی بادشاہتوں کے ساتھ تعاون کیا۔ مصر میں اخوان کے نوجوان رہنماؤں نے معاشرے میں نفوذ کیا، خیراتی اور تعلیمی اداروں کا بڑا نیٹ ورک قائم کیا، وہ پروفیشنل اداروں میں بھی چھاگئے، حتیٰ کہ انھوں نے حسنی مبارک کے دورمیں آزاد حیثیت سے پارلیمان میں کام کرنے کا تجربہ بھی حاصل کیا۔

مختلف ممالک میں موجود اخوانی تنظیموں کے مابین ایک قدرمشترک ہے کہ وہ سیاسی کردار ادا کرنے کے بجائے لوگوں کی فکری تربیت کیلئے کام کررہی ہیں۔ تاہم امریکی ٹرمپ انتظامیہ ، مصری فوجی حکمران جنرل  السیسی کی طرح بعض عرب حکمرانوں کا خیال ہے کہ عرب خطے میں ’انقلابی بہار‘ کے پیچھے اخوان المسلمون کا فکری کردارہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے حکمران اخوان المسلمون کو اپنی بادشاہتوں کے لئے ایک خطرہ محسوس کررہے ہیں۔ سعودی حکمران اب تک نرم اندازمیں اخوان سے نمٹنے کی کوشش کررہے تھے تاہم اماراتی حکمران برسوں پہلے سے اخوان کے خلاف گرم جنگ لڑ رہے ہیں۔

وہ نہ صرف برطانیہ بلکہ دوسرے ممالک پر زور دیتے رہے ہیں کہ وہ اخوان المسلمون کے خلاف کارروائی کریں۔معروف عرب ٹی وی چینل ’ الجزیرہ‘ نے سن 2015میں ایک رپورٹ جاری کی تھی جس  میںبرطانوی اخبار ’گارجین‘  کی ایک رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے بتایاگیاکہ متحدہ عرب امارات نے اُس وقت کے برطانوی وزیراعظم ڈیوڈکیمرون سے وعدہ کیا تھا کہ اخوان المسلمون کو کچل ڈالنے کی صورت میں وہ نہ صرف برطانیہ سے 9بلین ڈالر کا اسلحہ خریدے گا بلکہ اسے بہت سی سہولتیں بھی فراہم کرے گا۔

چنانچہ کیمرون نے مارچ2014ء میں اخوان المسلمون کے بارے میں تحقیقات کا حکم دیا کہ آیا اسکے انتہا پسندوں سے تعلقات ہیں یا نہیں۔ تحقیقات اُسی مہینے کے اندر مکمل ہوگئیں تاہم اسکے نتائج سوا تین برس بعد، آج تک جاری نہیں کئے گئے۔ برطانوی میڈیا ہی میں ایسی خبریں شائع ہوئیں کہ تحقیقاتی رپورٹ خلیجی ممالک اور مصر کی خوشنودی کی خاطر دبادی گئی تھی۔

مصری تاریخ کے پہلے منتخب صدر ڈاکٹرمحمد مرسی کے سابق مشیر ڈاکٹر سودان کہتے ہیں کہ تحقیقات کے نتائج اب تک ظاہر نہ کرنے کا مطلب ہے کہ برطانیہ کو اخوان المسلمون کے خلاف کچھ بھی ہاتھ نہیں لگا۔یہ صرف متحدہ عرب امارات اور اس کے خلیجی اتحادیوں کا دباؤ ہی ہے کہ معاملہ کو اب تک چلایا جارہا ہے۔ ان کا کہنا ہے:’’ہم نے ’گارجین‘،’انڈیپنڈنٹ‘ اور دیگر اخبارات میں شائع ہونے والی لیکس دیکھیں، پتہ چلا کہ ہمارے خلاف کچھ بھی نہیں ہے۔ متحدہ عرب امارات ہمیں ڈرانے دھمکانے کے لئے درہم استعمال کررہا ہے۔

یہ امر دلچسپی سے خالی نہیں ہے کہ اُس وقت کے برطانوی وزیراعظم کے ترجمان نے بتایاتھا کہ برطانوی حکومت اخوان کے بارے میں ہونے والی تحقیقات کے نتائج اس سال کے آخر تک جاری کردے گی ‘‘۔ یادرہے کہ برطانوی وزیراعظم کے ترجمان نے یہ بات نومبر2015 میں کہی تھی۔

صرف گارجین ہی نہیں ، بلکہ دیگر کئی ذرائع نے بھی بتایا کہ متحدہ عرب امارات نے درہم استعمال کرکے اخوان المسلمون اور اس سے متعلقہ گروہوں کو ہدف بنایا ہوا ہے۔ فلسطینی نژاد برطانوی کارکن عزام تمیمی کہتے ہیں کہ ان سمیت دیگر درجنوں افراد جن کا تعلق اخوان المسلمون سے تھا، کے بنک اکاؤنٹس کو HSBC نے بند کردیا۔ عزام تمیمی کہتے ہیں:’’ ہم اس حقیقت سے آگاہ ہیں کہ متحدہ عرب امارات کی حکومت نے HSBC پر دباؤ بڑھایاتھا کہ وہ اخوان المسلمون کے افراد اور اس کے اداروں کے بنک اکاؤنٹس بند کرے۔

اماراتی حکومت ہماری زندگی کو مشکل سے مشکل تر بنارہی ہے تاہم اس طرح ملک نہیں چلتے‘‘۔ انھوں نے بتایا کہ ’’برطانیہ کی ایک کھلی سوسائٹی ہے اور یہاں ایک مضبوط قانونی نظام ہے۔ہمیں امید ہے کہ یہ سوسائٹی اور قانونی نظام جابرانہ رویوں کا راستہ روکے گا، اگرچہ متحدہ عرب امارات  کے حکمران سمجھتے ہیں کہ وہ اپنے درہموں کی بنیاد پر برطانیہ سے جو چاہیں گے ، کرا لیں گے‘‘۔

متحدہ عرب امارات اُس فوجی بغاوت کے پیچھے بھی کھڑا تھا جس کے نتیجے میں جولائی 2013ء میں اخوان المسلمون کے ڈاکٹرمحمد مرسی کی حکومت کو ختم اور اخوان کے خلاف بدترین خونی کریک ڈاؤن کیا گیا تھا۔ بعدازاںاسی ملک نے مشرق وسطیٰ اور دیگر ممالک میں اخوان کے گروہوں کے خلاف اپنا اثرورسوخ استعمال کیا۔وہ  لیبیا میں متحدہ عرب امارات جنرل خلیفہ ہفتار کی پشت پناہی کرتارہا۔  یہ مشرقی شہر تبروک سے تعلق رکھنے والا ایک طاقتور کمانڈر تھا، جسے مختلف حکومتیں حمایت فراہم کررہی تھیں۔

متحدہ عرب امارات نے جنرل خلیفہ کو ہتھیار فراہم کئے اور اسے طرابلس کی انتظامیہ سے بھرپور لڑائی کا ہدف دیا۔یادرہے کہ طرابلس میں قائم لیبیائی حکومت میں اخوان المسلمون کے لوگ بڑی تعداد میں شامل تھے۔ امریکی حکام بھی مانتے ہیں کہ متحدہ عرب امارات نے  مصر سے طرابلس حکومت سے جڑی ملیشیاؤں کے خلاف فضائی حملے کئے تھے۔

نومبر2014ء  میں متحدہ عرب امارات نے اخوان المسلمون سے وابستہ گروہوں کو ’’دہشت گرد‘‘ قراردیاتھا۔اس میں برطانوی ادارے مثلاً فیڈریشن آف اسلامک آرگنائزیشنز، مسلم ایسوسی ایشن آف برطانیہ اور ’اسلامک ریلیف یوکے‘ بھی شامل تھا۔ یہ تنظیمیں برطانوی حکومت کے ساتھ مل کر مختلف منصوبوں پر کام کررہی ہیں۔

اسلامک ریلیف کے ترجمان نے ’الجزیرہ‘ سے گفتگو کرتے ہوئے کسی بھی دہشت گرد گروہ سے تعلق کی تردید کی۔ انسانی حقوق کے تحفظ کے لئے کام کرنے والی عالمی تنظیم ’ایمنسٹی انٹرنیشنل‘ نے بھی نومبر2014ء میں اپنی ایک رپورٹ میں بتایاتھا کہ متحدہ عرب امارات میں زیرحراست اصلاح پارٹی کے ارکان نے شکایت کی  کہ انھیں بدترین تشدد کا نشانہ بنایاجاتاہے، انھیں بغیرمقدمات چلائے نامعلوم مقامات پر رکھاجاتاہے۔یادرہے کہ اصلاح پارٹی کو اخوان المسلمون سے متعلق گروہ سمجھا جاتا ہے۔

اکتوبر2015 ء میں برطانوی اخبار ’ میل آن سنڈے‘ نے انکشاف کیا تھاکہ متحدہ عرب امارات نے لندن کی ایک لابنگ فرم ’Quiller Consultants‘ کی خدمات حاصل کیں تاکہ وہ  قطر کے خلاف میڈیا کمپین چلائے۔متحدہ عرب امارات ہی نے پراپیگنڈا کیا کہ قطراخوان المسلمون کاپشت پناہ ملک ہے۔ اسی مہم جوئی کا نتیجہ ہے کہ آج خلیجی خطے ہی میں تین ممالک قطر کے خلاف کھڑے ہوگئے ہیں، ان کا بڑا ہدف اخوان المسلمون کا ناطقہ بند کرنا ہے تاکہ ان کی بادشاہت کو لاحق خطرات ختم ہوسکیں۔

جارج ٹاؤن یونیورسٹی کے عبداللہ ال آریان کا کہنا ہے’’خطے کی مجموعی صورت حال کے تناظر میں سمجھا جارہا ہے کہ متحدہ عرب امارات کی اخوان المسلمون کے خلاف پالیسیاں دراصل اپوزیشن تحریکوں کو دبانے کیلئے ہیں۔ مصر میں جاری معاشی اور سیاسی صورت حال (جہاں عبدالفتاح السیسی ملک میں استحکام پیداکرنے میں ناکام ہوچکے ہیں) کیلئے ضروری ہے کہ خطے میں السیسی کے اتحادی ممالک بھی فرعونِ مصر کے سیاسی مخالفین کے خلاف کریک ڈاؤن کریں۔ عبداللہ ال آریان کا کہناتھا کہ اخوان المسلمون نے ثابت کیا، وہ کریک ڈاؤنز کے باوجود زندہ وتابندہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مشرق وسطیٰ میں دوسرے ممالک بھی اسے تنہا کرنے اور اسکے لوگوں کی آزادی نقل وحرکت سلب کرنے پر مجبور ہورہے ہیں‘‘۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔