سیاسی درجہ حرارت میں اضافہ

ماہرین قانون نے ایک فورم پر کہا کہ جے آئی ٹی کی رپورٹ پر شریف خاندان کا ٹرائل ہوگا


Editorial July 13, 2017
ماہرین قانون نے ایک فورم پر کہا کہ جے آئی ٹی کی رپورٹ پر شریف خاندان کا ٹرائل ہوگا . فوٹو : ایکسپریس نیوز

پاناما پیپرز کیس میں مشترکہ تحقیقاتی کمیٹی کی رپورٹ کی تہلکہ خیزی بتدریج ظاہر ہورہی ہے۔ بادی النظر میں ایک پینڈورا باکس کھل گیا ہے، سیاسی اصطلاح میں کہا جا سکتا ہے کہ جے آئی ٹی ایک بھاری پتھر ثابت ہوا جس نے رکے ہوئے گندے سیاسی تالاب میں تلاطم اور ایوانوں میں زلزلے کی گڑگڑاہٹ پیدا کی ہے، ملکی معاملات میں بھونچال کی سی کیفیت ہے، ایک طرف سیاستدانوں کے تلخ بیانات سے سیاسی درجہ حرارت تیزی سے بڑھ رہا ہے، دوسری جانب حکمراں جماعت سپریم کورٹ میں جے آئی ٹی رپورٹ سے پیدا شدہ مومنٹم کا مقابلہ کرنے کے لیے ''مضامین نو کے پھر انبار '' لگانے کے دعوے کررہی ہے ، سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ ملکی تاریخ میں ایسا کچھ ایک منتخب جمہوری حکومت کے اختتامی مینڈیٹری اوورز میں ہورہا ہے، اور واشگاف حقیقت بھی یہی ہے کہ ملک کی 70 سالہ سیاسی تاریخ میں پاناما کیس نے اب تک کے تمام پرانے و موجودہ ہائی پروفائل کیسز اور کمیشنوں کی رپورٹوں کے برعکس تبدیلی ، انقلاب، اسٹیٹس کو اور جمود کے ٹوٹنے کا بگل بجادیا ہے ، کہیں صف ماتم بچھی ہے اور کہیں جشن مسرت کا سماں ہے۔

ن لیگ میں بے چینی اور بے یقینی کی اطلاعات ہیں جب کہ اپوزیشن جماعتوں کے طرف سے سیاسی دباؤ ، ہمہ جہتی کشمکش و کشیدگی ہے کہ جسے آئین و قانون کے دائرہ میں رہنے کی ہر محب وطن پاکستانی کی دلی تمنا ہے جب کہ سیاسی جماعتوں اور کیس کے فریقین کو بخوبی اندازہ ہے کہ ان کے طرز عمل ، صبر وتحمل ، جمہوری رویوں اور سنجیدہ سیاسی حکمت عملی کا جاری صورتحال کی بہتری اور ابتری میں کردار فیصلہ کن ہوگا، عدالتی تاریخ کے اس منفرد اور عہد آفریں مقدمہ کا عدالت عظمیٰ کی طرف سے فیصلہ قانون و آئین ، انصاف کے بہترین اصولوں اور کیس کے میرٹ پر آئیگا، اس لیے اس اہم قانونی اور عدالتی پراسس کے دوران ملک سیاسی افراتفری، شوڈاؤن، رسہ کشی اور ایک دوسرے کے خلاف الزام تراشی کا متحمل نہیں ہوسکتا، فیصلہ عدلیہ کریگی اس لیے ن لیگ، پی ٹی آئی سمیت تمام سیاسی جماعتیں اس حقیقت کو فراموش نہ کریں کہ عوام میں ان کی آپس کی لڑائی، بہتان طرازی اور کشیدگی سے خود عوام میں ان کا امیج متاثر ہوگا۔

کیونکہ کوئی بھی باشعور پاکستانی ریاستی اداروں کی تباہی، سماجی و معاشی عدم استحکام ، قومی سالمیت اور جغرافیائی وحدت و قومی یکجہتی کو کسی نقصان سے دوچار ہوتے نہیں دیکھ سکتا، اس کی نوبت ہی نہیں آنی چاہیے ، معاملہ عدالت کے روبرو ہے اسی لیے حد ادب اور احترام عدالت ہر سیاسی جماعت پر لازم ہے، یوں وقت کی نزاکت کے حوالے سے سیاسی آزادی اس لیے سب سے بڑی ذمے داری بن جاتی ہے کہ ملک بھر کی سرکردہ اپوزیشن جماعتوں نے جے آئی ٹی رپورٹ منظر عام پر آنے کے بعد وزیر اعظم نواز شریف کو جمہوریت کے لیے خطرہ قرار دیتے ہوئے ان سے فوری طور پر مستعفی ہونے کا مطالبہ کیا ہے۔ بنی گالہ میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے چیئرمین تحریک انصاف عمران خان نے کہا جے آئی ٹی رپورٹ کے تفصیلی جائزے کے بعد اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ اب صرف نواز شریف ہی نہیں بلکہ شہبازشریف، اسحٰق ڈار اور اسپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق بھی مستعفی ہوں۔ اپوزیشن جماعتوںنے جے آئی ٹی رپورٹ آنے کے بعد قومی اسمبلی کے اجلاس بلانے کے لیے کے لیے ریکوزیشن جمع کرادی۔

منگل کو قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف سید خورشید شاہ سے تحریک انصاف کے پارلیمانی لیڈر شاہ محمود قریشی نے ملاقات کی۔ جس میں دنوں رہنماؤں نے اس بات پر اتفاق کیا کہ ملک کی سیاسی صورتحال کو مد نظر رکھتے ہوئے قومی اسمبلی کے اجلاس کا انعقاد اشد ضروری ہے جس کے بعد اجلاس طلب کرنے کے لیے ریکوزیشن قومی اسمبلی سیکریٹریٹ میں جمع کرادی گئی ، خورشید شاہ اور شاہ محمود نے موقف اختیار کیا کہ وزیراعظم کے مستعفی ہوجانے سے جمہوری نظام کو کوئی خطرہ نہیں۔ ادھر مسلم لیگ (ن)نے کہا ہے کہ جے آئی ٹی رپورٹ کا عدالت میں بھرپور جواب دینگے، سازش کے ڈائریکٹر ملک سے باہر ہیں اور اداکار ملک کے اندر ہیں ، مسلم لیگ (ن) کے مشاورتی اجلاس کے بعد سعد رفیق اور بیرسٹر ظفراﷲ کے ساتھ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے کہا کہ پاناما کیس میں جے آئی ٹی رپورٹ حتمی نہیں، ابھی فیصلہ آنا باقی ہے، دریں اثنا وزیر اعظم نواز شریف اور وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف کے درمیان جے آئی ٹی رپورٹ پر تبادلہ خیال کے لیے اہم ملاقات ہوئی ، پاناما پیپرز کیس میں مشترکہ تحقیقاتی کمیٹی کی رپورٹ میں حکمران خاندان کے خلاف کرپشن کے ثبوت سامنے آنے کے بعد اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے وزیراعظم سے استعفے کے مطالبہ پر وکلا تنظیمیں بھی متفق نظر آرہی ہیں ۔ واضح رہے پاناما پیپرز کیس کی تحقیقات کے لیے قائم جے آئی ٹی نے شریف خاندان کے خلاف نیب اور ایف آئی اے میں موجود تمام مقدمات دوبارہ کھولنے کی سفارش کی ہے۔

جے آئی ٹی رپورٹ سے پیدا ہونے والے اضطراب و خدشات کی وجہ سے پاکستان اسٹاک ایکس چینج میں پیر اور منگل کو بدترین مندی دیکھنے میں آئی ، سرمایہ کاروں نے اپنا سرمایہ ڈوبنے کے خوف میں دھڑا دھڑ حصص فروخت کیے جس سے مارکیٹ منہ کے بل آگری، مندی کی وجہ سے انڈیکس کی46000 اور45000 پوائنٹس کی نفسیاتی حدیں گرگئیں، 92.64 فیصد حصص کی قیمتوں میں کمی واقع ہوئی جب کہ سرمایہ کاروں کے4کھرب2 ارب87کروڑ61 لاکھ59ہزار860 روپے ڈوب گئے۔ ماہرین اسٹاک نے حصص کی مزید فروخت کے باعث بدھ کو بھی مندی کا تسلسل قائم رہنے کا خدشہ ظاہر کیا ۔ ملکی معیشت کے استحکام اور ریاستی اداروں اور عدلیہ پر پڑنے والے دباؤ کا ادراک اور احساس بھی سیاسی مین اسٹریم جماعتوں کے لیے ناگزیر ہے۔ فریقین قانونی پراسس کو فالو کریں، میڈیا میں اپنی جنگ نہ لڑیں، عدالت عظمیٰ کے باہر مناظرے بند کریں۔

ایسا شارٹ کٹ یا داؤ پیچ استعمال کرنے سے گریز کریں جس سے سسٹم اور جمہوریت کو کوئی نقصان پہنچے۔اس تناظر میں چیف جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں فل بینچ نے انور منصور خان کی عدم موجودگی اور الیکشن کمیشن کے جواب پر تحریری موقف نہ دینے کا سختی سے نوٹس لیتے ہوئے تحریک انصاف کو متبادل وکیل کرنے کی ہدایت کی اور کہا کہ اگر وکیل انور منصور موجود نہیں ہوتے تو عمران خان کو طلب کرکے کہا جائے گا ، سپریم کورٹ نے پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کی کرکٹ آمدن اور لندن فلیٹ کی ادائیگی پر تفصیلات طلب کرتے ہوئے بڑا دلچسپ تقابل پیش کیا کہ چوریاں پکڑنے کا اصول عمران پر بھی لاگو ہونا چاہیے، چیف جسٹس نے کہا عدالت کو دیکھنا ہوگا کہ بے ایمان (Dishonest) قرار دینے کے لیے کیا معیار ہوگا؟ یہ بھی یاد رہے کہ سپریم کورٹ یہ دلچسپ ریمارکس دے چکی ہے کہ63 ،62 کا اطلاق کیا تو سیاست میں صرف (جماعت اسلامی کے سربراہ) سراج الحق باقی بچیں گے۔

ماہرین قانون نے ایک فورم پر کہا کہ جے آئی ٹی کی رپورٹ پر شریف خاندان کا ٹرائل ہوگا جس کے بعد وزیراعظم کو62/63 کے تحت نااہل کیا جا سکتا ہے کیونکہ محض جے آئی ٹی کی رپورٹ پر انھیں نااہل نہیں کیا جا سکتا، ادھر وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی ترقی و اصلاحات احسن اقبال نے کہا ہے کہ بہت سی قو تیں پاکستان کی ترقی سے خائف ہیں موجودہ دور حکومت میں ملک ترقی کی جانب گامزن ہوا 11مہینے الیکشن میں رہ گئے ہیں عوام کو فیصلہ کر نے دو اگر ہم برے ہیں تو عوام ہما را حال بھی زرداری جیسا کریں گے ۔ وزیراعظم کے پاس سیاسی آپشن بھی موجود اور قانونی جنگ لڑنے کا موقع بھی ہے ، اپوزیشن کا مطالبہ تو سب کے سامنے ہے، اب وزیراعظم پر منحصر ہے کہ وہ کس آپشن کواختیار کرتے ہیں، بہرحال تمام اسٹیک ہولڈرز کے لیے ملک وقوم کا مفاد اولین ترجیح ہونی چاہیے۔

مقبول خبریں