قطر کی طرف سے سعودی مطالبات مسترد، اب کیا ہوگا؟

عبید اللہ عابد  اتوار 16 جولائی 2017
کیا چار عرب ممالک پر مشتمل بائیکاٹ گروپ اپنے مقاصد حاصل کرنے میں کامیاب رہا؟۔ فوٹو : فائل

کیا چار عرب ممالک پر مشتمل بائیکاٹ گروپ اپنے مقاصد حاصل کرنے میں کامیاب رہا؟۔ فوٹو : فائل

سعودی عرب کی قیادت میں تین عرب ممالک سمیت سات ممالک نے قطر کی زندگی تنگ کرنے کا جو منصوبہ تیارکیاتھا، قطری قیادت نے اس کے خلاف بھرپور مزاحمت کرنے کا فیصلہ کیا۔

قطری وزیر خارجہ محمد عبدالرحمان الثانی کا کہنا تھا کہ ان کا ملک کسی بھی ایسے مطالبے کو تسلیم نہیں کرے گا جسے وہ بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی سمجھتا ہے۔نتیجتاً  قطر کا بائیکاٹ کرنے والے  چاروں اہم خلیجی ممالک نے مطالبات تسلیم نہ کیے جانے پر قطر پر عائد پابندیاں برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔

مصر کے وزیرخارجہ سامح شکری نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے بتایاکہ قطر نے عرب ممالک کے مطالبات کا انتہائی منفی جواب دیا ہے جو اس بات کا اشارہ ہے کہ قطراس بات کو نہیں سمجھ رہا کہ صورتحال کتنی سنگین اور خطرناک ہے۔ سعودی وزیر خارجہ عادل الجبیر نے کہا کہ جب تک قطر اپنی پالیسیاں تبدیل نہیں کرتا چاروں خلیجی ممالک کی جانب سے اس کا سیاسی بائیکاٹ جاری رہے گا۔

سعودی عرب اور اس کے اتحادی ممالک نے قطر کے سامنے 13مطالبوں پر مبنی ایک فہرست  رکھی تھی جن میں قطر سے ایران اور ’’دہشت گرد ‘‘تنظیموں(سعودی عرب کے مطابق) بالخصوص اخوان المسلمون، داعش، القاعدہ اور لبنانی حزب اللہ سے تعلقات ختم کرنے کا مطالبہ کیاگیاتھا۔

٭ دیگر مطالبات میں کہاگیاتھا کہ قطر’’الجزیرہ‘‘ ٹیلی ویژن چینل، عربی 21، العربی الجدید اور مڈل ایسٹ آئی کی نیوز ویب سائٹس بند کرے۔

٭ قطر سے ترک فوج کو فی الفور نکال باہر کرے اور ترکی کے ساتھ ہرقسم کا فوجی تعاون ختم کرے۔

٭ قطر اُن افراد، گروہوں اور تنظیموں کے ساتھ مالی تعاون ختم کرے جنھیں سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، مصر، بحرین، امریکہ اور دوسرے ممالک نے دہشت گرد قراردیاہواہے۔

٭ قطر سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، مصر اور بحرین کی ’’دہشت گرد‘‘  شخصیات اور مطلوب افراد کو انہی ممالک کے حوالے کرے، ان کے اثاثے منجمد کرے، ان کی رہائش، نقل وحرکت اور معاشی وسائل سے متعلقہ تمام تر تفصیلات فراہم کرے۔

٭ قطر دوسرے ممالک کے اندرونی معاملات میں مداخلت بند کرے، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، مصر اور بحرین کے افراد کو شہریت نہ دے، ان افراد کی شہریت منسوخ کرے جنھوں نے اپنے ممالک کے قوانین کو پامال کیاہے۔

٭ قطر سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، مصر اور بحرین کے تمام اپوزیشن گروہوں سے تعلقات ختم کرے اور ان گروہوں سے اپنے تعلقات کی تفصیلات ان کے ممالک کو فراہم کرے۔

٭ حالیہ برسوں کے دوران میں قطر کی پالیسیوں سے مذکورہ بالا ممالک کو جو جانی اور مالی نقصان اٹھانا پڑا ہے، قطری حکومت اس کا ہرجانہ ادا کرے۔

٭ یہ مطالبات ماننے کے بعد قطر پہلے سال کے دوران ہرماہ اپنی معیشت کا آڈٹ کرائے اور دوسرے سال کے دوران میں ہر تین ماہ بعد۔ دس برس تک قطر کے معاشی معاملات کا جائزہ لیاجائے گا۔

٭یہ مطالبہ بھی فہرست میں شامل تھا کہ قطر صرف خلیجی اور عرب ممالک کے ساتھ فوجی، سیاسی، سماجی اور معاشی تعلقات قائم کرے۔

ان مطالبات کی منظوری کے لئے پہلے 30 جون تک کی ڈیڈلائن دی تھی تاہم بعد میں اس میں مزید 48 گھنٹوں کی توسیع کردی گئی تھی اور ساتھ ہی یہ دھمکی بھی دی گئی تھی کہ اگر قطر نے مقررہ مدت میں مطالبات تسلیم نہ کیے تو اس پر مزید پابندیاں عائد کر دی جائیں گی۔

تیرہ مطالبات کا مطالعہ کرنے سے ہی پتہ چل رہاتھا کہ قطر کے لئے یہ مطالبات ماننا ممکن نہیں، یہ کسی بھی خودمختار مملکت کے لئے ممکن نہیں۔ چنانچہ قطر نے خلیجی ممالک کے مطالبات کو بھی مسترد کر دیا  اور کہاہے کہ ان پر عمل درآمد ممکن نہیں۔قطری وزارت خارجہ نے سعودی گروپ کے الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ قطر دہشت گردی کو فنانس کررہاہے نہ ہی وہ دوسرے ممالک کے اندرونی معاملات میں مداخلت کررہاہے۔ ریاست قطر علاقائی اور بین الاقوامی سطح پر دہشت گردی اور اس کی فنانسنگ کے خلاف اہم کردار ادا کررہی ہے۔ بین الاقوامی کمیونٹی اس کے کردار کی تصدیق بھی کررہی ہے۔

ترکی اس سارے معاملے میں جہاں مصالحتی کوششیں کررہاہے ، وہاں وہ قطر کے خلاف اقدامات کی مخالفت بھی کررہاہے۔ترک صدر رجب طیب ایردوان نے قطر پر عائد ہونے والی پابندیوں کے اقدام کو شدید تنقید کا نشانہ بنایاہے۔ انھوں نے کہا ہے کہ قطر پر عائد کردہ الزامات غیرمنصفانہ اور اشتعال انگیز ہیں۔خلیجی خطے کو اشتعال انگیزی سے بچنا چاہئے۔ ترک صدر نے اس تنازعہ میں ملوث ممالک کو نہ صرف اشتعال انگیزی سے بچنا چاہئے بلکہ  انھیں ایک مناسب حل کی طرف بڑھناچاہئے۔سعودی عرب نے ترکی سے کہاہے کہ وہ اس تنازعہ میں نہ الجھے اور غیرجانبدار رہے۔ اس کا مطلب ہے کہ وہ ترکی کے ہوتے ہوئے قطر کے خلاف زیادہ آگے تک پیش قدمی نہیں کرسکتا۔یہ بھی حقیقت ہے کہ ترکی جس کے ساتھ قطر کا دفاعی معاہدہ ہے، وہ صورت حال سے الگ تھلگ نہیں ہوسکتا۔

قطر خلیجی خطے کا ایک چھوٹا سا ملک ہے۔گیارہ ہزار581مربع کلومیٹر رقبہ ہے، اور اس ملک کے باشندوں کی تعداد26لاکھ75ہزار 522 ہے۔دوسرے الفاظ میں یہ ملک آبادی کے اعتبار سے پاکستان کے شہر لاہور سے چارگنا چھوٹا ہے۔ اس کے تین اطرف میں سمندر ہے اور چوتھی طرف سعودی عرب۔ قطر نے 1971ء میں برطانیہ سے آزادی حاصل کی ، تب سے اب تک الثانی خاندان کی حکمرانی میں ہے۔

پوری دنیا میں فی کس آمدن سب سے زیادہ یہاں کے باشندوں کی ہے۔ اس کی دولت کے ذرائع تیل اور قدرتی گیس کے ذخائر ہیں۔ خطے کے دیگرممالک سے اس کا موازنہ کیا جائے تو آبادی کے اعتبار سے یہ چوتھے نمبر پر ہے، ایران پہلے، سعودی عرب دوسرے اور متحدہ عرب امارات تیسرے نمبر پر ہے۔ فی کس جی ڈی پی کے اعتبار سے قطر پہلے، متحدہ عرب امارات دوسرے، سعودی عرب تیسرے اور ایران چوتھے نمبر پر ہے۔تیل، گیس اور اس سے متعلقہ دیگربرآمدات کے میدان میں سعودی عرب پہلے، متحدہ عرب امارات دوسرے، قطر تیسرے اور ایران چوتھے نمبر پر ہے۔

فعال فوج کے اعتبار سے ایران پہلے، سعودی عرب دوسرے، متحدہ عرب امارات تیسرے اور قطر چوتھے نمبر پر ہے۔ ان تفصیلات سے کچھ اندازہ ہوتاہے کہ قطر کے خلاف یہ ساری مہم جوئی کیوں ہورہی ہے۔ یقیناً اخوان المسلمون اور الجزیرہ جیسے میڈیا ادارے بھی عرب ڈکٹیٹرز کا مسئلہ ہیں تاہم قطر کی معاشی قوت بھی ایک بڑا فیکٹر ہے۔

سوال یہ ہے کہ چاروں عرب ممالک کے  بائیکاٹ سے  قطر پر کیا اثرات مرتب ہوں گے؟ کیا وہ غزہ کی طرح کا ایک محصور اور مفلوج علاقہ بن جائے گا؟ قطری فنانس منسٹر علی شریف العمادی کہتے ہیں کہ ان کا ملک محاصرے کے نقصانات سے محفوظ ہونے کی پوری صلاحیت رکھتاہے۔قطر چیمبر کے چئیرمین شیخ خلیفہ بن جاثم بن محمد الثانی کا کہناہے کہ سعودی عرب اور اس کے اتحادیوں کی جانب سے ناانصافی پر مبنی محاصرہ ملکی مارکیٹ پر برے اثرات مرتب نہیں کرسکے گا۔ہاں! اس کا سراسرنقصان انہی ممالک کو ہوگا جو قطری مارکیٹ سے محروم ہوجائیں گے۔ قطر فوری طور پر اپنی ضروریات متبادل ممالک سے  اُسی قیمت  لیکن زیادہ بہتر معیار ی درآمدات کے ذریعے پوری کررہاہے۔قطری ذرائع کے مطابق عمانی، بھارتی اور ترک بندرگاہوں سے سامان قطر آرہاہے۔قطر نے کہا کہ اس کے پاس 340 بلین ڈالرز سے زائد کے ذخائرموجود ہیں، ہمارے پاس کسی بھی خطرناک صورت حال سے بچنے کے لئے کافی رقم  موجود ہے۔قطری حکومت کے مطابق مرکزی بنک میں 40بلین ڈالر کے ریزروز موجود ہیں، اس کے علاوہ سونا بھی پڑاہوا ہے۔ قطر انویسٹمنٹ اتھارٹی کے پاس 300بلین ڈالرز سے زائد کے ریزروز موجود ہیں۔

اومان کے مرکزی بنک نے مقامی کمرشل بنکوں اور ایکسچینج کمپنیوں کو حکم دیاہے کہ وہ قطری ریال کی تجارت آفیشل ایکسچینج ریٹ پرکریں۔ مرکزی بنک نے اعلان کیا کہ وہ قطری ریال قبول کرے گا اور ایکسچینج سروسز بھی فراہم کرے گا۔اس سے اندازہ ہوتاہے کہ خلیجی خطے میں معاملات اس اندازمیں نہیں چل رہے جیسا سعودی عرب کی قیادت چاہتی تھی۔ شاید اس کا خیال تھا کہ اومان، کویت  اور اردن بھی قطرکے خلاف منصوبے میں چپ چاپ شریک ہوجائیں گے۔

بائیکاٹ گروپ کے چاروں ممالک اپنی اقوام کو قطرکے خلاف مزاحمت پر تیار کررہے ہیں۔ سعودی علما اپنے خطبات میں لوگوں کو قطر کے خلاف  ہدایات دے رہے ہیں۔ امام حرم عبدالرحمن السدیس کی ایک ویڈیو بھی منظرعام پر آئی ہے جس میں وہ ’’دہشت گردوں کو رقوم فراہم کرنے والوں‘‘ کے خلاف دعائیں مانگ رہی ہیں۔ اسی طرح وہ ٹوئٹر اکاؤنٹس پر قطر کے خلاف محاصرے کے حق میں ٹویٹس اپ لوڈ کررہے ہیں۔ متحدہ عرب امارات اور مصر کے بعض علما بھی قطر کے خلاف مہم چلارہے ہیں۔ دوسری طرف بائیکاٹ گروپ کے ممالک میں قطری شہریوں سے امتیازی بلکہ برے سلوک کا مظاہرہ کیاجارہاہے۔

قطر کی نیشنل ہیومن رائٹس کمیٹی نے اقوام متحدہ کے ادارے ’یونیسکو‘ کو ایک رپورٹ پیش کی ہے جس میں بتایاگیاہے کہ بحرین، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے تعلیمی اداروں میں قطری طلبہ وطالبات سے برا سلوک کیاجارہاہے۔ انھیں ایک طرف امتحانات میں شرکت سے روکا جارہاہے، گریجویشن کرنے کے باوجود انھیں سرٹیفکیٹ فراہم نہیں کیاجارہا ہے، قطری طلبہ وطالبات کے ایجوکیشنل اکاؤنٹس بند کئے جارہے ہیں، بغیر کوئی وجہ بتائے ان کی رجسٹریشن منسوخ کی جارہی ہے۔ رپورٹ کے مطابق متحدہ عرب امارات میں ایسے 85 واقعات ہوئے، سعودی عرب میں 29 اور بحرین میں 25 واقعات رونما ہوئے۔

امریکا قطر اور بائیکاٹ گروپ کے درمیان مصالحت کی بات کررہا ہے ۔ برطانیہ بھی متحرک ہے ۔ دلچسپ بات ہے کہ جس امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے سعودی عرب کو قطر کے خلاف اکسایا اور بھڑکایا ، جب سعودی عرب نے متحدہ عرب امارات، مصر اور بحرین کو ساتھ لے کر قطر کا سفارتی اور تجارتی بائیکاٹ کیا تو اس پر ڈونلڈ ٹرمپ نے خوشی کا اظہار کیا۔ اب اُسی امریکا  کے وزیرخارجہ ریکس ٹریلرسن(جس وقت یہ سطور لکھی جارہی تھیں) کویت جانے کا پروگرام بنارہے تھے جہاں وہ قطر اور چار عرب ممالک کے درمیان تنازعہ کا کوئی حل نکالنے کی کوشش کریں گے۔یادرہے کہ کویت گزشتہ ایک ماہ کے دوران مصالحتی کوششوں میں مصروف ہے۔

قطر کا بائیکاٹ کرنے والے چاروں ممالک نے اپنے مطالبات کی فہرست کویت ہی کی وساطت سے قطر کے سامنے رکھی تھی اور قطر نے بھی اسی راستے جواب دیاتھا۔ماہرین کا کہناہے کہ امریکا مصالحت نہیں بلکہ مشرق وسطیٰ کے معاملات میں مداخلت کا ایک نیا سلسلہ شروع کرے گا۔ امریکی وزارت خارجہ کا یہ کہنا خاصا معنی خیز ہے کہ ’ خلیجی بحران کئی ہفتوں یا پھر مہینوں تک چلے گا اور ہوسکتاہے کہ زیادہ گھمبیر شکل اختیار کرجائے‘۔ امریکی وزارت خارجہ کی ترجمان ہیتھر ناؤرت نے یہ واضح نہیں کیا کہ حالات کس حوالے سے گھمبیر شکل اختیار کرجائیںگے۔

سابق تیونسی صدر منصف مرزوقی کا کہناہے  کہ برسوں سے قطر کے سیاسی کردار کو محدود سے محدود تر کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔ قطری روزنامہ ’الشرق‘ سے  ایک انٹرویو کے دوران میں انھوں نے کہا کہ جو قطر کو تنہا کرنا چاہتے تھے، وہ بے نقاب ہوئے ہیں اور انھیں یقین ہے ، وہ خود تنہا ہوجائیں گے۔ قطر درست راستے پر ہے، پوری دنیا اس کی حمایت کررہی ہے اور بحران سے نکلنے کے لئے اس پر اعتماد کررہی ہے۔انھوں نے زور دیا کہ عرب عوام قطر سے ہمدردی رکھتے ہیں۔دنیا کے اکثر ممالک  بھی قطر کے ساتھ کھڑے  ہیں، ان میں افریقی ممالک بھی شامل ہیں۔

تیونسی صدر کی یہ بات’عرب عوام قطر سے ہمدردی رکھتے ہیں‘ اس اعتبار سے بھی درست معلوم ہوتاہے کہ متحدہ عرب امارات نے اپنے ہاں قانون نافذ کردیاہے جس کے مطابق قطر سے ہمدردی کا اظہار قابل سزا جرم متصور ہوگا۔ تیونسی صدر کی گفتگو کا دوسرا پہلو ہے کہ نہ صرف خلیج تعاون کونسل بائیکاٹ گروپ اور مخالف گروپ میں تقسیم ہوجائے گی۔ اگر سعودی عرب نے قطر کے خلاف محاذآرائی جاری رکھی، اسے مزید بڑھایا تو اس کے نتیجے میں خلیجی تعاون کونسل نام کا اتحاد مزید برقرار نہیں  رہے گا۔ مشرق وسطیٰ میں کچھ نئے اتحاد بنیں گے۔ صورت حال جوں کی توں نہیں رہ سکتی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔