بڑھتی ہوئی سگریٹ نوشی

لیاقت راجپر  پير 17 جولائی 2017

جب میں بچہ تھا تو میرے نانا قادر بخش حقہ پیتے تھے، جسے ہم سندھی میں چلم کہتے ہیں، صبح اور شام خاص طور پر وہ چلم تیار کرتے تھے، جس کا پانی دن میں دو مرتبہ تبدیل کرتے اور لکڑی سے بنے ہوئے انگارے حقے کے اوپر والے حصے میں ڈال کر نڑ کے ذریعے کش لگاتے۔ ایک دن جب میں نے اپنے نانا سے پوچھا کہ وہ حقہ کیوں پی رہے ہیں تو انھوں نے جواب دیا کہ بیٹا اس کے پینے سے ہاضمہ درست ہوجاتا ہے اور یہ عادت انھیں جوانی سے ہے۔

جیسے جیسے سمجھ آتی گئی، میں نے دیکھا کہ گاؤں میں مرد تو حقہ پیتے ہی تھے مگر عورتیں بھی حقہ پیتی تھیں، جو میرے لیے حیران کن تھا۔ بعد میں کچھ سال کے بعد میں نے دیکھا کہ میرے نانا پتے کی بیڑی پی رہے ہیں۔ پتے کی بیڑی میں تین اقسام ہوتی تھیں، ایک بڑی، ایک درمیانی اور ایک چھوٹی، پھر اس میں بھی تین قسمیں ہوتی تھیں، ایک لال دھاگے والی، ایک سفید دھاگے والی اور ایک کالے دھاگے والی۔ میں اکثر ان کے لیے سفید دھاگے والی درمیانی بیڑیوں کا ایک بنڈل لے آتا۔

لال رنگ، کالا رنگ اور سفید رنگ میں تیز، درمیانی تیز اور کم تیز بتایا جاتا تھا۔ لاڑکانہ شہر میں ہر جگہ بیڑی کی چھوٹی بڑی دکانیں ہوا کرتی تھیں، جہاں پر تھوڑے پیمانے پر اور دوسری کھلی بڑی جگہوں پر 50 سے 100 کاریگر بیڑیاں بناتے تھے اور یہ کاروبار بڑے زوروں پر چلتا تھا۔

اب سگریٹ کی شروعات ہوگئی، میں نے دیکھا بڑے لوگوں کے لیے الگ اور عام آدمی کے لیے الگ برانڈ ہوتا تھا، میرے انکل بھی سگریٹ پیتے تھے جن کے پاس میں نے اچھی اور مہنگی کوالٹی کا سگریٹ پیکٹ دیکھا تھا، جس پر Three Castle لکھا ہوا تھا۔ باقی عام آدمی کے لیے Lamp کا سگریٹ نظر آیا اور بھی کئی نام تھے جس میں فلٹر نہیں ہوتا تھا۔ جب گاؤں جانا ہوا تو وہاں پر بھی مجھے تبدیلی نظر آئی، وہاں بھی اب کچھ عورتیں حقے کے بجائے بیڑی پی رہی تھیں، مگر مرد اب کچھ کچھ سگریٹ پینے لگے تھے۔

اس طرح سے پتے کی بیڑی کے بعد سگریٹ نے جگہ لے لی اور دیکھتے ہی دیکھتے کئی اقسام کے سگریٹ کے برانڈ مارکیٹ میں آگئے۔ اب ہر جگہ بیڑی اور حقہ کا استعمال کم ہوتا گیا۔ لیکن ایک بات اس وقت ضرور تھی کہ بیڑی یا سگریٹ بچوں کے سامنے نہیں پیا جاتا تھا۔ بچے بھی بیڑی اور سگریٹ سے نفرت کرتے تھے، کیونکہ اس سے نکلنے والا دھواں اور بدبو انھیں پسند نہیں آتی تھی۔

سینما گھروں، دفتروں، ہوٹلوں میں اور پبلک کے مقام پر کھلے عام بیڑی اور سگریٹ نہیں پیا جاتا تھا اور وہاں پر لکھا ہوتا تھا کہ سگریٹ اور بیڑی پینا منع ہے۔ لوگ پارک میں بھی ایک کونے میں جاکر یا اگر ریل گاڑی یا بس میں سفر کرتے تو کبھی سگریٹ نوشی نہیں کرتے۔ اسکولوں اور کالجز میں اس کا تصور ہی نہیں کرسکتا تھا۔

اب آہستہ آہستہ فلموں میں سگریٹ پینا دکھایا گیا، شراب نوشی دکھائی گئی، جس میں یہ کہا جاتا تھا کہ جب آدمی اداس ہے، محبت میں ناکامی ہوئی ہے، اپنوں نے غم دیے ہیں تو اسے دور کرنے کے لیے سگریٹ اور شراب سے انسان کو رہائی ملتی ہے۔ اس کی وجہ سے اب ناکام اور پریشان لوگ ان چیزوں کا سہارا لینے لگے۔ ایک کو دوسرا، دوسرے کو تیسرا دیکھ کر رنگ بدلتا گیا۔ اب ہر جگہ سگریٹ آگئے، عیاشی بڑھنے لگی، خربوزے کو دیکھ کر خربوزہ رنگ بدلتا ہے۔

نہ صرف پاکستان میں بلکہ پوری دنیا میں سگریٹ پینے والے بڑھتے گئے اور جب اس سے ہونے والے نقصانات کے بارے میں خدشات بڑھنے لگے تو عالمی سطح پر اسے روکنے کے لیے 31 مئی کا دن پوری دنیا میں منایا گیا کہ لوگ سگریٹ نہیں پئیں، کیونکہ اس سے کینسر جیسا موذی مرض پیدا ہوتا ہے اور پینے والے کی زندگی کا چراغ وقت سے پہلے ہی گل ہوجاتا ہے، نہ صرف یہ بلکہ دل کی بیماریاں، بلڈ پریشر، سانس اور پھیپھڑے کے امراض جنم لیتے ہیں۔ اس سلسلے میں اب سگریٹ کے پیکٹ پر حکومتوں کی طرف سے لکھوایا گیا کہ سگریٹ نوشی صحت کے لیے مضر ہے۔

پوری دنیا میں سگریٹ نوشی کے خلاف سیمینار منعقد ہوئے، ڈاکٹروں اور سائنسدانوں نے ریڈیو اور ٹی وی پر اور اخباروں میں بتایا کہ تمباکو کے استعمال سے دور رہیں۔ سگریٹ کے پروموشن کو الیکٹرانک اور اخبارات میں اشتہارات پر پابندی لگائی گئی۔ لوگوں کو بتایا گیا کہ اس کے استعمال سے پوری دنیا میں 60 لاکھ لوگ اپنی زندگی کھو دیتے ہیں اور ان کی فیملیز کو ذہنی اور مالی تکلیف سے دوچار ہونا پڑتا ہے۔ پاکستان اس سلسلے میں نارتھ ایشیا میں سگریٹ استعمال کرنے والے ملکوں میں 15 ویں نمبر پر آتا ہے۔

جب میں نے سگریٹ کے پینے سے ہونے والے نقصانات اور خطرات کو پڑھا تو حیران ہوگیا کہ ہم سب کچھ جانتے ہوئے بھی خود جہنم میں کودنے کو تیار ہوجاتے ہیں۔ سگریٹ پر ٹیکس لگایا گیا ہے تاکہ شاید مہنگا ہونے سے لوگ اس کا استعمال ترک کردیں، مگر حیرانی کی بات ہے کہ اس کے استعمال میں دن بہ دن اضافہ ہو رہا ہے۔

ڈاکٹروں کے مطابق اندازاً سگریٹ پینے والوں کے پیٹ میں تقریباً 4000 کیمیکلز داخل ہوجاتے ہیں جس سے معدہ میں خارش، تیزابیت اور قے ہونے کے واقعات عام ہونے لگتے ہیں۔ جب دھواں منہ سے پھیپھڑوں میں داخل ہوجاتا ہے تو نکوٹین خون میں شامل ہوجاتی ہے جس سے دل کی دھڑکن تیز ہوجاتی ہے اور بلڈ پریشر بھی بڑھ جاتا ہے۔ ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ سگریٹ پینے والوں میں 90 فیصد کینسر ہوجاتا ہے، اس کے علاوہ منہ کا کینسر بھی ہوسکتا ہے۔

اب رائے دی گئی ہے کہ سگریٹ پر مزید ٹیکس لگائے جائیں اور ان کی جو خوبصورت پیکنگ ہے اس پر بھدے انسان کے ڈھانچے کی تصویر بنائی جائے اور حکومت اور این جی اوز بڑے پیمانے پر لوگوں میں اور خاص طور پر نئی نسل کے نوجوان مرد، بچے اور عورتوں میں اس کے خلاف ایک مہم چلائی جائے، جو سال میں ایک مرتبہ نہیں بلکہ پورا سال ہونی چاہیے، جس کے لیے گاؤں گاؤں، شہر شہر کانفرنس، سیمینارز اور کمیونٹی کے ذریعے اس سے ہونے والے نقصانات سے مسلسل آگاہ کیا جائے۔

اس سلسلے میں رائٹرز خود سگریٹ نوشی چھوڑ کر اچھی تحریریں اور ڈرامے بنائیں۔ میں نے کئی ڈاکٹروں اور حکیموں کو خود سگریٹ پینے کے باوجود دوسروں کو سگریٹ پینے سے منع کرتے ہوئے دیکھا ہے۔ اب آپ خود اندازہ لگائیں جب وہ خود پیتے ہیں تو دوسروں کو منع کرنے کا کیا اثر ہوگا۔ باپ اپنی اولاد کے سامنے جب سگریٹ نوشی کرے گا تو بچے کہیں گے کہ یہ اچھی چیز ہے جو ہمارے والد اور دوسرے رشتے دار پیتے ہیں۔ ہمیں اپنے بچوں سے سگریٹ بھی نہیں منگوانی چاہیے۔

صبح کے وقت میں نے خود دیکھا کہ 10 سے 12 سال کے بچے اسکول جانے کے بجائے پارک میں بیٹھ کر یا پھر راستے میں جاتے ہوئے سگریٹ پیتے رہتے ہیں۔ اس میں سگریٹ بیچنے والوں کو بھی چاہیے کہ وہ بچوں کو سگریٹ نہ دیں۔ سگریٹ پینے والے نہ صرف خود سگریٹ نوشی کرکے اپنے آپ کو نقصان پہنچا رہے ہیں بلکہ سگریٹ نہ پینے والوں کو بھی نقصان دے رہے ہیں۔ جب سگریٹ کے پینے والے پبلک مقام پر دھواں اڑاتے ہیں تو وہ دھواں فضا میں مل کر اپنے ساتھ کئی ہوا میں موجود بیکٹیریا نہ پینے والے کی سانس میں ڈال رہے ہیں۔ کیونکہ جو نہیں پیتا وہ Passive Smoker بن جاتا ہے کیونکہ دھواں تو اس کی سانس میں چلا جاتا ہے۔

حکومت اور اس کے کارندے گہری نیند میں ہیں، اگر ان میں سے کوئی کچھ کرنا چاہتا ہے تو اس کا منہ رشوت یا پھر دھمکی سے بند ہوجاتا ہے۔ اب بھی وقت ہے اپنی صلاحیتوں، علم، عمر اور وقت کو اس عادت سے بچا کر ملک و قوم کے لیے صحیح راستے متعین کرنے میں اپنا کردار ادا کریں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔